0
Monday 12 Dec 2011 22:08

طالبان کی حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے

طالبان کی حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے
تحریر:تصور حسین شہزاد
 
اسلام ٹائمز۔ پاک امریکہ تعلقات میں جب سے تناؤ آیا ہے بعض مخصوص حلقوں نے یہ خبر ’’چھوڑنی‘‘ شروع کر دی ہیں کہ پاکستانی حکومت طالبان سے مذاکرات کر کے اچھے تعلقات چاہتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح بھی معرض وجود میں لائی گئی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے دو ٹوک الفاظ میں ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ حکومت پاکستان، پاکستانی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کر رہی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ جب تک عسکریت پسند ہتھیار نہیں پھینکتے، ان کے ساتھ کسی قسم کی گفت و شنید کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
 
قبل ازیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر اور باجوڑ ایجنسی میں اہم طالبان کمانڈر مولوی فقیر محمد نے ہفتہ کے روز برطانوی خبر رساں ادارے کے ساتھ گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ البتہ ایک اور طالبان کمانڈر ملا داد اللہ نے مولوی فقیر محمد کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تنظیم پاکستان میں شریعت کے نفاذ تک حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات پر رضا مند نہیں۔ نیز یہ کہ تنظیم کے نائب امیر مولوی فقیر محمد ذاتی حیثیت میں حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں جس کا طالبان تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ 

ان باہم متضاد خبروں سے متعدد پہلو برآمد ہوتے ہیں۔ سامنے کا ایک زاویہ تو یہ ہے کہ طالبان میں دھڑے بندی اور پھوٹ کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ مولوی فقیر محمد اور ملا داد اللہ باجوڑ ایجنسی میں طالبان کی قیادت کے دعوے دار ہیں۔ ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ستمبر کے آخری ہفتے میں پاکستانی سیاسی قیادت کی گول میز کانفرنس کے بعد سے پاکستان میں طالبان کی کارروائیوں میں واضح طور پر کمی نظر آ رہی ہے۔
 
یاد رہے کہ اس کانفرنس میں ’’ امن کو موقع‘‘ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ دوسری طرف یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس موقعہ پر جب کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ کے واضح آثار پائے جاتے ہیں، کیا طالبان کے کچھ حصے حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دے کر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ صورتحال میں اگر سرحد پار طالبان کی سرگرمیوں میں کوئی اضافہ نظر آتا ہے تو اس سے حکومتِ پاکستان پر دباؤ میں اضافہ ہو گا۔
 
علاوہ ازیں اس زاویے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ بیت اللہ محسود اور اسامہ بن لادن کی موت کے بعد طالبان میں انتشار پیدا ہوا ہے اور پچھلے پانچ برس میں پہلی مرتبہ یہ تنظیم پاکستان ریاست کے مقابلے میں دفاعی حیثیت اختیار کرتی نظر آ رہی ہے۔ چنانچہ اس موقع پر اگر درپردہ گفت و شنید کی جاتی ہے تو حکومت پاکستان اپنی شرائط منوانے کی بہتر حیثیت میں ہے۔ 

اطلاعات کے مطابق باجوڑ اور دیر بالا کے بیشتر علاقوں میں ریاست کی عمل داری بحال ہو چکی ہے اور طالبان کی ایک بڑی تعداد سرحد پار افعان صوبوں مثلاً نورستان اور کنڑ وغیرہ میں پناہ لینے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان کو طالبان کے ساتھ سلسلہ جنبانی میں بے حد احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ ماضی میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا تجربہ پاکستان کے حق میں نہیں رہا۔
 
حقیقت یہ ہے کہ عسکریت پسندوں میں دھڑے بندی کے باوجود ان میں فکری اشتراک اور تنظیمی رابطے موجود رہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعض گروہوں کی طرف سے تعاون اور جنگ بندی کا عندیہ دے کر ابہام پیدا کرنے کا مقصد متعلقہ علاقوں میں فیصلہ کن ریاستی کارروائی کو ممکنہ حد تک التوا میں رکھنا بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کی سیاسی اور معاشرتی سوچ سے اتفاق کرنے والے حلقوں نے 2003ء ہی سے یہ مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کی بجائے ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔
 
دوسری طرف طالبان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے خواہاں حلقوں کا مؤقف ہے کہ طالبان نے اس قسم کے مذاکرات اور عارضی جنگ بندیوں کو اپنے لیے وقت حاصل کرنے نیز متعلقہ علاقوں پر اپنی گرفت مزید مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ طالبان کے ساتھ پہلا معاہدہ شکئی میں طالبان کمانڈر نیک محمد کے توسط سے 2004ء میں کیا گیا تھا جس کے مطابق نیک محمد کو افغانستان میں حملے کرنے سے باز رہنا تھا اور اپنے گزشتہ جرائم کی معافی کے بدلے میں غیر ملکی عسکریت پسندوں سے قطع تعلق کرنا تھا۔ نیک محمد نے امن معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا۔
 
2004ء ہی میں طالبان رہنما بیت اﷲ محسود کے ساتھ امن معاہدہ کیا گیا۔ بیت اﷲ محسود بھی معاہدے پر قائم نہیں رہا۔ ستمبر 2006ء میں جنرل (ریٹائرڈ) علی محمد جان اورکزئی نے میران شاہ کے مقام پر اتمن زئی وزیر قبائل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ ’’معاہدہ وزیرستان‘‘  کے نام سے معروف اس سمجھوتے کے مطابق طالبان نے غیر ملکی عسکریت پسندوں کو علاقے سے باہر نکالنے اور سرحد پار افغانستان میں حملوں سے گریز کرنے پر اتفاق کیا۔ اس معاہدے کا نتیجہ یہ ہوا کہ طالبان تمام قبائلی علاقوں اور سوات میں پھیل گئے۔
 
اسی طرح کے مشکوک معاہدے مالاکنڈ میں صوفی محمد اور جنوبی وزیرستان میں ملا نذیر کے ساتھ کیے گئے۔ یہ معاہدے بھی مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہے۔ ان معاہدوں کی آڑ میں دہشت گردوں نے پاکستان کو مطلوبہ سیاسی مہلت دینے کی بجائے جی بھر کر نقصان پہنچایا۔ اس صورتحال میں حکومت پاکستان کی طرف سے یہ موقف نہایت صائب ہے کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے ہتھیار ڈالے بغیر ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔ 

طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی عناصر نے اس نکتے کو فراموش کر رکھا ہے کہ ریاستوں کے درمیان اختلافات کی صورت میں مذاکرات کا سلسلہ تصادم کے دوران بھی جاری رہتا ہے۔ تاہم اگر ریاست کے اندر کوئی گروہ ہتھیار اٹھا لے تو اس کے ساتھ مذاکرات ریاست کی عمل داری مجروح کرنے پر منتج ہوتے ہیں۔ پاکستانی ریاست نے کئی عشروں سے مذہبی عناصر کو مراعات دے کر ملک کے سیاسی، معاشرتی، آئینی اور معاشی امکانات کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ 

اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں اسی نوع کی مزید مراعات دینا پڑی تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ اس سے پہلے جن مذہبی قوتوں کے جائز یا ناجائز مطالبات تسلیم کئے گئے تھے انہوں نے کبھی پاکستان کے سیاسی اور آئینی ڈھانچوں کو چیلنج نہیں کیا تھا۔ دوسری طرف طالبان کا سیاسی موقف پاکستان کی ریاستی شناخت سے متصادم ہے۔ چنانچہ طالبان کو پاکستان کی ان مذہبی سیاسی جماعتوں سے مماثل نہیں سمجھنا چاہیے جو پاکستان کے معروف سیاسی عمل کا حصہ رہی ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 121663
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش