0
Monday 13 Feb 2012 20:27

افغانستان کی موجودہ صورتحال حکمتیار کی نظر میں

افغانستان کی موجودہ صورتحال حکمتیار کی نظر میں
تحریر: رشید احمد صدیقی 

گل بدین حکمتیار افغانستان کے سخت گیر جہادی رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ سویت یونین کے خلاف جہاد میں صف اول میں رہے۔ نائن الیون 2001ء کے بعد روپوش اور نیٹو افواج کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ جنگی میدان میں اس وقت تین قوتیں ہیں۔ القاعدہ، طالبان اور گل بدین حکمت یار کی حزب اسلامی۔ نامعلوم مقام سے وہ جنگی میدان میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کے پاس کتنی قوت ہے اور ان کی جماعت کتنی موثر ہے۔ ان باتوں سے قطع نظر ان کی بات کا بہت بڑا وزن ہوتا ہے۔ ایک مہینہ قبل پشاور سے شائع ہونے والے پشتو، فارسی روزنامہ شہادت میں ان کا ایک تحریری انٹرویو شائع ہوا۔ انٹرویو کے لازمی حصے کسی قدر اختصار کے ساتھ یہاں درج کیے جاتے ہیں۔ 

اس سوال پر کہ آپ افغانستان کی موجود صورتحال کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ گل بدین حکمتیار نے کہا کہ مجھے حالات بعینہ وہی دکھائی دیتے ہیں، جس طرح سویت افواج کے افغانستان سے انخلاء سے چند ماہ قبل تھے۔ نیٹو شکست کھا چکی ہے اور امریکہ افغانستان میں اپنے عزائم میں ناکام ہو چکا ہے۔ اور کابل کی کٹھ پتلی حکومت اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے اور بیرونی افواج کے یہاں سے نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور ان کے نکلتے ہی کابل حکومت گر جائے گی۔
 
اس سوال پر کہ بیرونی افواج کے نکلنے سے1997ء اور اسی عشرے کے حالات کی طرح صورتحال پیدا ہو گی۔ آپ کے پاس ان سے بچنے کا کا کوئی منصوبہ ہے؟ حکمتیار نے بتایا کہ افغانستان میں گزشتہ صدی کے آخری عشرہ کے حالات بیرونی طاقتوں کے پیدا کردہ تھے۔ وہی طاقتیں ابھی تک افغان امور میں براہ راست اور بالواسطہ انداز میں دخیل ہیں۔ روس اور امریکہ میں اس امر پر اتفاق تھا کہ سویت افواج کے انخلاء کے بعد نجیب حکومت برقرار رہے گی۔ لڑائی جاری رہے گی اور کسی طور افغانستان میں مجاہدین کی حکومت نہ بننے دیں گے۔ ان کا اس پر اتفاق تھا کہ سویت یونین کے بعد روس اور مغرب مل کر افغانستان کے امور سنبھالے رکھیں۔ 

مجاہدین کے خلاف یہ اتحاد ناکام ہوا تو طالبان آ گئے۔ یہ ظاہر شاہ کو دوبارہ لانے کا منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہو سکا تو امریکہ براہ راست آ گیا۔ اب اگر امریکہ اور ماسکو افغانستان میں جنگ جاری رکھنے پر اتفاق کریں تو عین ممکن ہے کہ 2000ء کے عشرہ والے حالات پھر پیدا ہوں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان اور خطہ کے حالات بڑی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔ افغان امور میں مداخلت کرنے والے تمام فریقین اب اتنے طاقتور ہرگز نہیں جتنا اس وقت تھے۔ چنانچہ اگر مجاہدین نے باہمی تعاون کا مظاہرہ کیا تو وہ والی صورتحال نہیں بنے گی۔ 

مذاکرات کے بارے میں افغان رہنماء نے بتایا کہ ہمارے کابل حکومت سے بھی کئی بار مذاکرات ہوئے ہیں اور امریکہ کے ساتھ بھی۔ لیکن ابھی تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ امریکہ کے پاس ایسی کوئی تجویز نہیں ہے جو افغان عوام کے لیے قابل قبول ہو۔ مذاکرات میں اپنی شرائط کے بارے میں حکمت یار کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان سے تمام قوتوں کا غیر مشروط انخلاء چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغان عوام کا حق خود ارادیت، افغانستان کی سالمیت کو تسلیم کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ یہ پوری افغان قوم کی شرائط ہیں۔ 

طالبان اور اپنی جماعت کے مذاکرات میں فرق بیان کرتے ہوئے گلبدین نے کہا کہ ہم مذاکرات کر کے چھپاتے نہیں۔ ہم پہلے قیدیوں کی رہائی اور بلیک لسٹ سے نکالے جانے کی بات نہیں کرتے۔ ہمارا موقف اصولوں پر مبنی ہے۔ ہم غیر ملکی افواج کے غیر مشروط انخلاء کی بات کرتے ہیں۔ طالبان مذاکرات بھی کرتے ہیں اور تردید بھی جاری کرتے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق ان کے درمیان بالواسطہ اور بلاواسطہ کئی بار مذاکرات ہوئے ہیں۔ 

طالبان کے ساتھ اختلاف اور اتحاد کے بارے میں گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ ہم ان تمام قوتوں کو قدر اور بھائی چارے کی نظر سے دیکھتے ہیں جو افغانستان کی خودمختاری کی حامی ہیں اور یہاں پر اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جہاد کرتی ہیں۔ تاہم یہ واضح کرتا ہوں کہ ہم افغانستان پر زبردستی حکومت کرنے کے مخالف ہیں اور مساجد، سکولوں اور عوامی اجتماعات میں دھماکوں کے بھی مخالف ہیں۔ انتخابات کی مخالفت اور تعلیمی اداروں کی تباہی کے حوالے سے ہمارا اختلاف ہے۔ 

موجودہ افغان حکومت اور پارلیمنٹ کی جانب سے امریکہ کو فوجی اڈے دیئے جانے کی اصلیت کے بارے میں حکمتیار نے کہا کہ موجودہ حکومت عوام کی نمائندہ حکومت نہیں اور اسے ہرگز اس طرح کے فیصلوں کا اختیار حاصل نہیں۔ اگر وہ اس طرح کے فیصلے کرتی بھی ہے تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ امریکہ اور بیرونی قوتوں کے خلاف ہمارا جہاد افغانستان میں یہاں کے عوام کی مرضی کی حکومت کے قیام تک جاری رہے گا۔ 

افغان مسئلہ کے حل کے لیے گل بدین حکمت یار نے ایک تفصیلی منصوبہ بیان کیا، جس کے اہم نکات یہ ہیں:
1۔ مجاہدین کے لیے قابل قبول نظام الاوقات کے تحت بیرونی افواج نکل جائیں۔
2۔ افواج پہلے بڑے شہروں اور گنجان عوامی علاقوں سے نکل کر مختلف مراکز میں جمع ہو جائیں اور پھر مکمل طور پر نکل جائیں۔
3۔ امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر قومی فوج اور پولیس کے حوالے کی جائے اور اس سلسلے میں بیرونی فوجیوں کی کوئی مداخلت تسلیم نہیں کی جائے گی۔
4۔ تمام مکاتب فکر پر مشتمل حکومت تشکیل دی جائے یا موجودہ حکومت میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جو تمام افغان طبقات کے لیے قابل قبول ہوں۔ اس حکومت میں کسی ایسے فریق کو نمائندگی نہ دی جائے جو کسی طور بھی بدامنی، فساد اور کسی بھی افغان فریق کے خلاف جنگ و جدل میں ملوث رہا ہو۔
5۔ پارلیمنٹ کی جگہ ایک ایسی نمائندہ شوریٰ بنائی جائے جس کے ارکان سات تا پندرہ ہوں، جس کے پاس قومی مسائل کے بارے میں حتمی فیصلے کا اختیار ہو۔ شوریٰ کا دفتر ایسے صوبہ میں ہو جس کا انتظام مکمل طور پر افغان فوج کے ہاتھ میں ہو اور بیرونی فوجیوں سے مکمل طور پر پاک ہو۔
 
6۔ بیرونی افواج کے انخلاء کے بعد جمہوری حکومت، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہوں۔
7۔ انتخابات میں عبوری حکومت کے ارکان اس شرط پر حصہ لے سکیں گے کہ انتخابات سے چھ ماہ قبل اپنے مناصب چھوڑ چکے ہوں۔
8۔ پہلی جمہوری حکومت میں نمائندگی عوامی رائے کے تناسب سے ہو گی اور حکومت بننے کے بعد کسی کو مخالفانہ اتحاد بنانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
9۔ پہلے انتخابات میں دس یا دس فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت اگلے انتخابات میں حصہ لینے کی حق دار ہو گی۔
10۔ اس دوران خانہ جنگی میں ملوث گروپوں کے درمیان مکمل جنگ بندی ہو گی۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرایا جائے گا۔ کوئی بھی فریق اقتدار کے لیے سازش نہیں کرے گا اور نہ اسلحہ کی نمائش کی جائے گی۔
 
11۔ پہلی منتخب شوریٰ ملک کے لیے آئین بنائے گی۔
12۔ کوئی بھی بیرونی ملک، افغانستان کے اندر جیل نہیں بنا سکے گا۔
13۔ تخریبی، سازشی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو شرعی محکمہ کے حوالے کیا جائے گا۔
14۔ بیرونی قوتوں کے نکل جانے کے بعد بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی یہاں سے نکل جائیں گے۔
15۔ جو اندرونی اور بیرونی قوتیں امن کے خلاف کام کرتی ہوں ان کے خلاف متحدہ طور پر مقابلہ کیا جائے گا۔ 

افغانستان کا جو بھی نقشہ مستقبل قریب میں بنے گا، ماہرین اس میں گل بدین حکمتیار کا اہم کردار دیکھ رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا انتخابات کے بارے میں واضح موقف ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں بنانے کے لیے قابل قبول راستہ انتخابات ہی ہیں۔ افغانستان میں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ انتخابات کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ ان کے اس موقف کو جدید دنیا میں پذیرائی نہیں مل رہی۔ یہی نکتہ گل بدین حکمتیار کی جماعت اور شخصیت کے لیے زیادہ سود مند ہے۔ دوسری طرف ان کی جماعت سے منحرف اچھا خاصا گروہ افغانستان کی موجودہ پارلمینٹ میں موجود ہے اور انھوں نے اپنا نام حزب اقتدار اسلامی رکھا ہوا ہے۔ آگے جا کر یہی گروپ حکمتیار کے لیے پارلیمانی راستے ہموار کرنے کا کام کر سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 137544
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش