5
0
Thursday 30 Aug 2012 17:37

احترام عدلیہ، اجتماعی ذمہ داری

احترام عدلیہ، اجتماعی ذمہ داری
تحریر: احسن شاہ برمنگم
sdahsan@hotmail.com
 
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر فیصل رضا عابدی چیف جسٹس آف پاکستان پر جو الزامات عائد کر رہے ہیں، انہیں سن کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں پر کرپشن کے بے شمار الزامات ہیں اور بہت سے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ یہی حال مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے رہنمائوں کا ہے۔ تاریخ پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ میاں صاحب کی حکومت دو مرتبہ اور پیپلز پارٹی کی حکومت دو مرتبہ کرپشن ہی کے الزامات پر توڑی گئی۔ سیاستدانوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ البتہ چیف جسٹس آف پاکستان پر اس طرح کے الزامات تاریخ میں پہلی مرتبہ سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کے تمام نیوز چینلز شرجیل میمن، فواد چوہدری اور فیصل رضا عابدی کے انٹرویوز دھڑا دھڑ نشر کر رہے ہیں اور سارا پاکستان ورطہ حیرت میں ڈوبا ہوا الزامات سن رہا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے جس طرح سیاسی رہنمائوں کے خلاف کرپشن کیسز شروع کئے تھے، اس عمل نے انہیں بلاشبہ ملک میں ہیرو کا مقام دلا دیا تھا۔ معاملے کا دوسرا رخ اس وقت سامنے آیا جب پراپرٹی ٹائی کون ملک ریاض نے پریس کانفرنس کی اور چیف جسٹس آف پاکستان کے صاحبزادے ارسلان افتخار کے خلاف مبینہ طور پر کرپشن کے بہت سے ثبوت میڈیا کو فراہم کر دیئے۔ یہ معاملہ ہرگز کوئی پیچیدہ کیس نہیں تھا۔ سیدھا سادھا حل یہ تھا کہ آئین اور رائج طریقہ کے مطابق ارسلان اور ملک ریاض دونوں سے تفشیش کی جاتی، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا اور ظاہر ہے کہ یہ کام پولیس یا تحقیقاتی ادارے ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ مونس الہی، موسٰی گیلانی، عبدالقادر گیلانی، جناب نواز شریف حتٰی کہ وزیراعظم پاکستان کے خلاف مقدمات اسی طریقہ کار کے مطابق بنے اور چلے ہیں۔

البتہ ارسلان کیس میں سپریم کورٹ خود بطور ادارہ ملوث ہوگئی۔ حتٰی کہ چیف جسٹس صاحب خود اس کیس کی سماعت کرنے لگے۔ میڈیا نے بہت شور برپا کیا تو چیف صاحب کیس سے الگ ہوئے۔ البتہ نیب کو بھی تحقیقات کرنے سے روک دیا گیا۔ اگلا تماشہ یہ ہوا کہ ملک ریاض جس نے ارسلان کے خلاف فراڈ کی درخواست دی تھی اسے توہین عدالت کا ملزم ٹھہرا دیا گیا اور کارروائی بھی شروع ہوگئی۔ ارسلان کے خلاف پرویز مشرف دور میں بھی سنگین الزامات لگے تھے، جن کی بناء پر بالآخر ارسلان کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے تھے، اور انہی الزامات کی بنیاد پر پرویز مشرف نے افتخار چوہدری کو ہائوس اریسٹ کیا تھا۔ حالانکہ وہ PCO کے تحت حلف لینے اور مشرف کے اقتدار کی توثیق کرنے والے غالباً پہلے جج تھے۔

معاملہ فقط ارسلان تک رہتا تو شائد بڑی بات نہ بنتی، مگر اب تو تقریباً تمام بڑے اخبارات اور چینلز پر براہ راست چیف جسٹس پر شدید تنقید ہو رہی ہے جو کہ یقیناً ریاست کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کوئی وزیراعظم آج تک عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ اس ضمن میں وہ مسلم لیگ ن کا حوالہ بھی دیتے ہیں، جس نے میاں نواز شریف صاحب کو عدالت میں طلب کرنے پر باقاعدہ سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جوتے چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

بعدازاں جسٹس سجاد شاہ کو اس جرم میں معزول کر دیا گیا، جبکہ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم گیلانی تین مرتبہ عدالت عظمٰی میں پیش ہوئے۔ بغیر کسی احتجاج کے برطرفی قبول کی اور اب دوسرے وزیراعظم بھی عدالت میں پیش ہو کر احترام عدالت کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ کہ منتخب حکومت کے علاوہ کوئی بھی ادارہ عملاً عدلیہ کی ہدایات پر عمل نہیں کر رہا۔

گمشدہ افراد کا کیس اس کی بڑی واضح مثال ہے۔ جج صاحب 11 بجے گمشدہ افراد کو پیش کرنے کی ڈیڈ لائن دیتے ہیں اور 8 بجے تینوں افراد کی ڈیڈ باڈیز سڑک پر مل جاتی ہیں۔ البتہ اس پر کسی بھی ادارے کے سربراہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم نہیں ملتا اور آزاد عدلیہ محض ریمارکس دیکر چپ سادھ لیتی ہے۔ اسی طرح گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر مختلف اداروں کے سربراہوں کے خلاف گمشدہ افراد کا کیس پنجاب پولیس نے درج کیا ہے، نتیجتاً ان سربراہوں کو عدالت میں پیش ہونا تو درکنار الٹا عدالتی حکم پر مقدمہ درج کرنے والے ایس ایچ او رانا خورشید کو معطل اور متعلقہ ایس پی اطہر وحید کو او ایس ڈی بنا دیا گیا۔

ان سارے حقائق کو مدنظر رکھیں تو حکومت تو بڑی مودب اور بی بی نظر آتی ہے۔ البتہ چیف صاحب کا کہنا ہے کہ حکومت ابھی بھی توہین عدالت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ایک بہت ہی دلچسپ کیس وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کا ہے، جن کے خلاف سعودی شہزادے نے براہ راست چیف جسٹس کو خط لکھا اور عدالت نے حکومت کو بائی پاس کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔
 
اس طرح چینلز پر یہ سوال بھی بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے محض ایک تھپڑ مارنے پر وحیدہ شاہ کے خلاف ازخود نوٹس لے لیا تھا جبکہ روزانہ درجنوں افراد کو بسوں سے اتار کر شناخت کرنے کے بعد مارا جا رہا ہے اور عدلیہ ناصرف خاموش ہے بلکہ جو بھی دہشت پکڑا جاتا ہے عدلیہ چند پیشیوں کے بعد ناکافی ثبوت کی بناء پر اسے رہا کر دیتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے خطرناک کیس لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کا ہے، جس پر قتل کے 34 مقدمات سمیت کل 102 کیس تھے۔ مزید براں اس دہشت گرد نے جیل میں رہتے ہوئے یکے بعد دیگرے 8 گواہوں کو قتل کروایا۔ اسے بھی عدلیہ نے چند پیشیوں میں ناکافی ثبوت کے عذر پر رہا کر دیا۔

اسی طرح لال مسجد کیس میں ہلاک ہونے والے تمام متحارب افراد کے اہل خانہ کو چیف جسٹس صاحب نے معاوضہ ادا کرنے کا حکم جاری کیا، جبکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے کسی بھی فرد کو معاوضہ دینے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا، جو کہ عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔ حکومت اور عدلیہ کو سوچنا چاہیے کہ خط لکھنا یا نہ لکھنا کیا اتنا اہم معاملہ ہے کہ پوری مشینری اور حکومت کو مفلوج کر دیا جائے؟

حال ہی میں ایک نیوز چینل پر ہونے والے انٹرویو میں فیصل رضا عابدی نے افتخار چوہدری صاحب اور ارسلان چوہدری کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں کی ہیں، جنہیں ضبط تحریر میں لانے سے پر جلتے ہیں۔ چینل پر بار بار ارسلان افتخار کا بلیو پاسپورٹ اور بھاری بھر کم بینک اسٹیٹ منٹس دیکھائی جاتی رہی۔ جن پر بزنس ایڈریس چیف جسٹس ہائوس اسلام آباد درج ہے۔ معاملہ اب حد سے تجاوز کرچکا ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے بالکل بجا کہا ہے کہ چیف جسٹس کو چاہیے کہ فیصل رضا عابدی کو فوراً بمعہ تمام ثبوت کے عدالت میں طلب کریں، تاکہ سچ جھوٹ کا پتہ چل سکے۔

آرٹیکل 248 صدر مملکت کو استثنٰی دیتا ہے، البتہ چیف صاحب کا کہنا ہے کہ اسلام کی رو سے کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ بالکل درست، آئین و قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔ وزراء، گورنرز، وزیراعظم، بیوروکریسی، جرنیل، جج، اور ان کی آل اولاد بھی۔ کیا آزاد عدلیہ اس کا عملی مظاہرہ کرے گئی، تاکہ احترام عدلیہ کی اجتماعی ذمہ داری ہر کوئی بطریق احسن سرانجام دے سکے۔
خبر کا کوڈ : 191392
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Tanzania, United Republic of
Very nice no words for appreciation, The question needs answers, looks Chief justice is a black spot on the free judiciary in Pakistan. We need fre Judiciary not Chuodhary Courts and choudhary Justice... yasir _From Kabul Afghanistan
Canada
you have too much time to write these things
United States
Very Nice article brother Ahsan. Judicial system of any country should not be biased, what we are seeing in Pakistan is leaders of Judicial system are promoting specific agenda and sharing their hands in blood of innocents killed each day. Public should be made aware of what’s going on and should not trust them blindly. Thanks and keep writing. /Rehan
Pakistan
Thanks for exposing Cheap Justice
Its very informative Article
ہماری پیشکش