0
Wednesday 19 Jun 2013 22:41

ایران میں ڈاکٹر حسن روحانی کی کامیابی

ایران میں ڈاکٹر حسن روحانی کی کامیابی
تحریر: ثاقب اکبر
 
14 جون 2013ء کو ایران کے صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر حسن روحانی کی کامیابی پر عالمی ذرائع ابلاغ مختلف انداز سے تبصرے کر رہے ہیں، لیکن یہ بات اپنی جگہ پر ایک اٹل حقیقت کے طور پر پھر سامنے آگئی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام اپنے انقلاب کی حفاظت کی لیے عزم صمیم رکھتے ہیں۔ انھوں نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈال کر میدان سیاست میں اپنی سنجیدہ موجودگی کو پھر ثابت کر دیا ہے۔ صدارتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 72.7 فیصد رہا ہے۔ ڈالے گئے ووٹوں میں سے 50.70 فیصد ووٹ ڈاکٹر حسن روحانی نے حاصل کئے۔ انھیں 1،86،13،329 ووٹ پڑے اور دوسرے نمبر پر ان کے حریف تہران کے میئر ڈاکٹر محمد باقر قالیباف نے 15.76 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ دنیا کے معروف جمہوری ملکوں میں ٹرن آؤٹ اس سے کہیں کم رہتا ہے لیکن انہی میں سے بعض جمہوری ملک ایران میں جمہوریت کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ 

ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ گذشتہ عام انتخابات میں پاکستان میں ٹرن آؤٹ 55 فیصد رہا ہے، جس پر ہم بہت خوش ہیں اور پاکستان میں اسے ایک تاریخی ٹرن آؤٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ ایرانی انتخابات کے بارے میں یہ تاثر دیتے آرہے تھے کہ ان میں عوام کی شرکت کم ہوگی۔ ان کی رائے یہ تھی کہ عوام چونکہ موجودہ نظام سے بقول ان کے تنگ آچکے ہیں، اس لیے انھیں انتخابات میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ 72.7 فیصد لوگوں نے صدارتی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے ایسے تمام تجزیات کی قلعی کھول دی ہے۔
 
ایران میں عام طور پر سیاسی گروہوں کو بنیاد پرست اور اصلاح پسند میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ بنیاد پرستوں کو ایرانی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ انھوں نے آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے جانے پر بہت واویلا کیا تھا اور یہ عندیہ دیا تھا کہ ایران کی مذہبی قیادت نہیں چاہتی کہ اصلاح پسند صدر منتخب ہوسکے، لیکن ایک اصلاح پسند صدر کے منتخب ہونے کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ کے یہ تجزیات بھی غلط ثابت ہوگئے کہ مذہبی قیادت کی طرف سے کسی خاص گروہ یا فرد کو حمایت حاصل تھی۔
 
آیت اللہ العظمٰی سید خامنہ ای نے ڈاکٹر حسن روحانی کے انتخاب پر انھیں پرجوش مبارکباد دی ہے۔ مزید براں انھوں نے کہا ہے کہ منتخب صدر پوری قوم کے صدر ہیں اور سب کو چاہیے کہ وہ بڑے مقاصد تک پہنچنے کے لیے صدر اور ان کے ساتھیوں سے بھرپور تعاون کریں اور ان کی حکومت جن منصوبوں اور پروگراموں پر کام کرنا چاہتی ہے، سبھی ان کے ساتھ مخلصانہ مدد اور تعاون کریں۔ انھوں نے ناکام ہوجانے والے دوسرے صدارتی امیدواروں کو بھی دعوت دی کہ وہ انقلاب اسلامی کے مختلف میدانوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
 
ڈاکٹر حسن روحانی ایران کی انقلابی قیادت میں ایک قد آور شخصیت ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 64برس ہے۔ وہ ان افراد میں شامل ہیں جو 1979ء میں پیرس سے امام خمینی (ص) کے ساتھ تہران پہنچے تھے۔ وہ سابق صدر ڈاکٹر سید محمد خاتمی کے دور حکومت میں ایران کی جوہری مذاکرات کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں۔ اس وقت وہ ایران کی مجلس خبرگان کے بھی رکن ہے جو رہبر کا انتخاب کرتی ہے اور جو آئینی طور پر رہبر کے خلاف عدم اعتماد بھی کرسکتی ہے۔ وہ مرکز تحقیقات کی ایک کونسل کے سربراہ کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، جو مجلس تشخیص مصلحت نظام کی اہم کونسل ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نیشنل سکیورٹی کونسل میں ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندہ بھی رہ چکے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایران کی قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔
 
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی کو ایران کے دونوں مزاج کے گروہوں میں قبولیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی کامیابی کے بعد کہا ہے کہ وہ اپنی کابینہ میں کسی ایک گروہ کے افراد کو شامل نہیں کریں گے بلکہ وہ صلاحیت کے اعتبار سے کابینہ کے لیے افراد منتخب کریں گے۔ یہ بات اس امر کی طرف اشارہ سمجھی جا رہی ہے کہ وہ دونوں سیاسی دھڑوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے۔ خود ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیان میں اس حکمت عملی کی طرف اشارہ کیا ہے، جس کا کچھ ذکر ہم سطور بالا میں کرچکے ہیں۔ 

ڈاکٹر حسن روحانی جہاں ایک طرف مجتہد ہیں، وہاں انھوں نے گلاسکو کیلی ڈونین یونیورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے۔ وہ انگریزی، جرمن، فرانسیسی، روسی اور عربی بھی روانی سے بولتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جدید و قدیم علوم کے ماہر اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجربہ کار مدبر ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تقریر سے زیادہ تدبیر پر یقین رکھتے ہیں۔
 
ڈاکٹر حسن روحانی کے انتخاب کو بعض مبصرین ایران میں علماء کی انقلاب پر جاری گرفت اور عوام میں ان کی مقبولیت کی دلیل کے طور پر بھی ذکر کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی کی کامیابی کا جشن جہاں تہران میں بڑے پیمانے پر منایا گیا، وہاں قم جیسے قدیمی مذہبی مرکز میں بھی عوام نے ان کی کامیابی پر بھرپور جشن منایا۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ انھیں جدید تعلیم یافتہ حلقوں کے علاوہ مذہبی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مقبولیت یا پذیرائی سے وہ ایران کے لیے کیا مثبت نتائج حاصل کرتے ہیں، کیونکہ اس میں شک نہیں کہ ایران اس وقت ظالمانہ عالمی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے شدید مشکلات سے گزر رہا ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنے انتخاب کے بعد پرجوش ایرانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدے نہیں بھولیں گے۔ یاد رہے کہ ان کے انتخابی وعدوں میں ایک ایران کے اقتصادی حالات کی بہتری بھی ہے۔
 
انھوں نے اپنے انتخاب کے بعد پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دنیا کے ساتھ تعمیری روابط قائم کریں گے اور ایران اپنا نیو کلیئر پروگرام جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران یورینیم کی افزدوگی بند نہیں کرے گا۔ ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر قانونی اور شفاف ہے۔ انھوں نے کہا کہ مغربی ممالک نے جان بوجھ کو ایران کے ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنایا ہے اور انھیں ایرانی عوام کے ایٹمی حقوق کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ان کی ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسی میں ان کے آنے سے کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جوہری مسئلے پر ایران کے موقف پر باقی رہتے ہوئے وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایران کے خلاف پابندیاں اٹھانے کے لئے قائل کرسکیں گے؟ ہمیں اس سوال کا جواب مثبت دکھائی نہیں دیتا، لیکن مشرق وسطٰی میں حالات جس رخ پر جا رہے ہیں، ان کے پیش نظر کسی بھی مرحلے پر کوئی بڑا بریک تھرو ہو جانا کوئی بعید بھی نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 275041
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش