1
0
Friday 5 Jul 2013 11:32

دہشتگردی کا شکار شیعہ اور سنی اکٹھے ہوسکتے ہیں۔۔؟

دہشتگردی کا شکار شیعہ اور سنی اکٹھے ہوسکتے ہیں۔۔؟
تحریر: ابن آدم راجپوت

دہشت گردی کے آسیب نے پاکستان کو کچھ اس طرح سے جکڑا ہے کہ یکے بعد دیگر ہونے والے واقعات سے قوم کا ہر فرد افسردہ اور غمگین ہے، لیکن ہر کوئی اپنی جگہ پر اکیلے ہی کھڑے ہو کر کڑھ اور رو رہا ہے، کہیں کوئی مذہبی تنظیمیں مظاہرے کرکے آواز بلند کرتی ہیں اور یہ تنہا آواز دب کر رہ جاتی ہے۔ اہل تشیع پر حملے ہوتے ہیں تو سنی خاموش ہیں کہ مرنے والوں میں وہ شامل نہیں۔ درباروں پر حملے ہوتے ہیں تو شیعہ سوچتا ہے کہ میری باری ابھی نہیں آئی، میں اس بار بچ گیا ہوں۔ 

گذشتہ دنوں سنی تنظیموں سنی تحریک، تحفظ ناموس رسالت محاذ اور ادارہ صراط مستقیم کے زیراہتمام مال روڈ کے کلب چوک میں ایوان وزیراعلٰی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین کے نعرے، بینرز اور کتبوں پر تحریر مطالبات اور جذبات تقریباً وہی تھے، جو اسی دن مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام لاہور پریس کلب کے باہر ہونے والے مظاہرے میں بلند کئے گئے یا بینرز پر تحریر کئے گئے تھے۔ دونوں مسالک کے پیروکار ہی دہشت گردوں کو لگام نہ دینے پر حکومت کو کوس رہے تھے۔ ایجنسیوں کی ناکامی اور پولیس کی نااہلی کو رو رہے تھے۔ 

اسلام ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سنی تنظیموں کا مظاہرہ داتا دربار لاہور پر 2010ء میں ہونے والے بم دھماکے کے تین سال مکمل ہونے کے باوجود ملزموں کی عدم گرفتاری کے خلاف حکمرانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لئے تھا، جبکہ اسی سال 21 رمضان المبارک کو یوم شہادت علی علیہ السلام پر بھی بم دھماکہ ہوا تھا، مگر شیعہ تنظیموں کو اس سانحہ کے خلاف آئندہ ہر سال احتجاج کرنے کا موقع نہ ملا، بھول گئیں یا ترجیحات بدل گئیں یا پے در پے اتنے بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے کہ کسی بم دھماکے کے زخمیوں کو ہسپتال پہنچا رہے ہوتے ہیں اور شہداء کی لاشوں کے جنازوں کا ابھی انتظام ہی کر رہے ہوتے ہیں تو نئے دھماکے کی خبر آجاتی ہے۔
 
اس حوالے سے اگرچہ سنی بریلوی حضرات بھی اتنے ہی دکھی ہیں، جتنے کہ پاکستان کے اہل تشیع، مگر بریلوی خوش قسمت ہیں کہ ان کے خلاف واقعات کی تعداد اہل تشیع کے خلاف ہونے والی دہشت گردی سے بہت کم ہے۔ دنیا بھر میں اگر دیکھا جائے تو جگہ جگہ مسلمانوں کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔ شام، عراق، افغانستان، برما، کشمیر اور فلسطین کو دیکھ لیں، ہر جگہ خون مسلم بہتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس طرح اسلام کے دو بڑے مکاتب فکر اہل سنت اور اہل تشیع کا دکھ ایک ہے کہ امریکی اور سعودی ایجنٹس شام میں اصحاب رسول (ص) کے مزارات کو مسمار اور نذر آتش کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں مزارات اولیا پر بم دھماکے کئے جاتے ہیں۔ وہ لاہور میں داتا دربار ہو، ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور کا دربار یا کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کا مزار۔ ہر جگہ سفاک ظالموں نے بے حرمتی کرکے اپنے لئے جہنم خریدی ہے۔ 

گذشتہ ماہ جون میں جامعہ نعیمیہ لاہور میں شہید پاکستان علامہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی کی برسی پر جن اہل سنت رہنماوں نے خطاب کرتے ہوئے اتحاد بریلویت پر زور دیا۔ ان کا ٹارگٹ شیعہ نہیں، وہابی مسلک تھا۔ خود شہید سرفراز نعیمی کے فرزند ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کے الفاظ تھے کہ پاکستان کی اکثریت سنی بریلوی پر مشتمل ہے۔ مگر یہاں ایک خاص مسلک کی سرکاری سرپرستی کی گئی، جس کی وجہ سے بریلوی سنی کے اتحاد کا پیغام، اور نظام مصطفٰی کے مطالبات اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکے۔ وہ یہیں تک نہیں رہے بلکہ بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ سنی اگر کسی مسجد کی انتظامیہ میں ہے، کسی خانقاہ یا دربار کا سجادہ نشین ہے، عید میلادالنبی کا جلوس یا محفل منعقد کرواتا ہے، کسی مدرسے کو چلا رہا ہے تو وہ کنویں کے مینڈک کی طرح اسے ہی اپنی کل کائنات سمجھ بیٹھا ہے، اسے باہر کے حالات اور اجتماعی سوچ کا شعور ہی نہیں آیا۔ اجتماعیت کہیں نظر نہیں آتی، کوئی ایک واقعہ ایک ہفتے تک کے لئے اہل سنت تنظیموں کو اکٹھا کر دیتا ہے، ورنہ پھر وہی میدان اور ڈیڑھ اینٹ کی اپنی اپنی مسجد۔ 

کچھ اسی طرح کی کیفیت پاکستان کے اہل تشیع کی ہے۔ قائد مرحوم مفتی جعفر حسین کے بعد پہلے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ عارف الحسینی اور حامد علی موسوی گروپ بنے۔ موسوی گروپ تو راولپنڈی کی علی مسجد سے باہر نہ نکلا، شہید علامہ عارف الحسینی نے تحرک دکھایا۔ ان کی شہادت کے بعد علامہ ساجد علی نقوی کو قیادت سونپی گئی۔ ان کے خلاف فاضل موسوی اور شاہد نقوی گروپس تشکیل پائے۔ پھر مجلس وحدت مسلمین بھی میدان میں آگئی۔ جس نے تنظیم سازی سے مبینہ قومی جمود کو توڑا۔ اب دو بڑے گروپ ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک پاکستان میدان میں ہیں مگر راغب نعیمی کے بقول ہر کوئی اپنی ڈگر پر چل رہا ہے۔ اتحاد کی باتیں ہوتی ہیں، مگر حتمی شکل اختیار نہیں کر پاتیں۔ تیسرا گروپ علامہ جواد نقوی کا سمجھا جارہا ہے، جو سیاست کی بجائے، فکری بنیادوں پر قوم کی تشکیل چاہتا ہے۔

جب طالبان اور نجدی، اہل سنت اور اہل تشیع کے شعائر کے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں تو اتحاد تشیع کے ساتھ ساتھ اسلام کے دو بڑے مکاتب فکر شیعہ اور سنی کو بھی چاہیے کہ اپنی صفوں میں صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر اتحاد کریں۔ اتحاد کے فورم پر بیٹھنے کے ساتھ انہیں عملی طور پر سڑکوں پر بھی اکٹھے آنا چاہئے۔ اہل سنت کے مظاہروں میں اہل تشیع پر ہونے والی دہشت گردی کے خلاف بات تو ہوتی ہے، مذمتی بیانات بھی اخبارات میں نظر آتے ہیں، مگر اب ضرورت اس امر کی کہ کسی بھی ظلم کے خلاف مشترکہ آواز بلند کرنے کے لئے دونوں مکاتب فکر کی قیادت کو اکٹھے احتجاج کرکے وحدت کا ثبوت دینا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کی مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری امور سیاسیات ناصر عباس شیرازی ایڈووکیٹ سے ملاقات کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان ملاقاتوں سے آگے بھی معاملات بڑھنے چاہیں، جس سے دشمنان اسلام کو سخت پیغام جائے اور معاشرے میں ایک دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کر بانٹا جائے۔

مرحوم قاضی حسین احمد رحمة اللہ علیہ کی رحلت کے بعد ملی یکجہتی کونسل فعال نہیں رہی، اسے متحرک کیا جائے اور اس پلیٹ فارم سے دہشت گردی کے خلاف سخت پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کی طرف سے اب تک بیانات اور قراردادیں بہت زیادہ منظور ہوچکی ہیں۔ اسے آگے بڑھنا چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کو احتجاج کی کال دی جانی چاہئے، جیسا کہ اسی پلیٹ فارم سے تحفظ ناموس رسالت پر کامیاب ہڑتالیں ہوچکی ہیں۔ اب ناموس مسلم کے لئے بھی قوم کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 279744
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

IDEAS ARE GOOD, PROVIDED PRACTICALLY IMPLEMENTED..................
ہماری پیشکش