0
Wednesday 31 Jul 2013 03:21

ڈی آئی خان جیل حملہ، ہم کب تک مصلحتوں کا شکار رہینگے؟

ڈی آئی خان جیل حملہ، ہم کب تک مصلحتوں کا شکار رہینگے؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

پولیس وردیوں میں ملبوس تحریک طالبان کے 100 سے زیادہ دہشت گردوں نے سوموار کی رات سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خاں پر حملہ کرکے سینکڑوں قیدیوں کو فرار کرا دیا۔ تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سنٹرل جیل آپریشن میں سو سے زائد طالبان شدت پسندوں نے حصہ لیا، جن میں خودکش حملہ آور بھی شامل تھے اور وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے جیل سپرنٹنڈنٹ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ جیل میں اس وقت 483 قیدی تھے جن میں سے 243 قیدی فرار ہوگئے ہیں۔ پیر کی رات جیل پر دھاوا بولنے والے شدت پسند نعرہ تکبیر اور طالبان زندہ باد کے نعرے لگاتے راکٹوں اور خودکار ہتھیاروں سے مسلح تھے، جنہوں نے جیل پر چار اطراف سے شدید حملہ کیا۔ 60 کے قریب دھماکے سنے گئے، ہینڈ گرنیڈ پھینکتے ہوئے دہشت گردوں نے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کے نزدیک سبزی منڈی سے جیل کی دیوار توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیابی حاصل کی اور کئی گھنٹے تک جیل حکام، قیدیوں اور عملے کو یرغمال بنائے رکھا۔

ڈیرہ اسماعیل خاں سنٹرل جیل پر حملہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے گذشتہ سال اپریل کی پندرہ تاریخ کو طالبان نے بنوں جیل پر حملہ کرکے مشرف پر حملے کے ماسٹر مائنڈ ملزم عدنان رشید کو رہا کروا لیا تھا اور وہاں سے 385 کے قریب قیدی فرار ہوگئے تھے۔ اس حملے سے پہلے خفیہ اداروں کو ایسی اطلاعات مل چکی تھیں کہ شدت پسند جیلیں توڑ کر اپنے ساتھیوں کو رہا کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، مگر ان اطلاعات کے بعد بھی حکومت نے اس سلسلے میں پیش ازیں حفاظتی اقدامات موثر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جیلوں پر دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کرکے قیدیوں کو رہا کروانے کے پروگرام بارے 2011ء سے تسلسل کے ساتھ خفیہ اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔ حکام یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید شدت پسندوں کے ’’بڑے‘‘ پس دیوار زنداں سے اپنے باہر کے ساتھیوں کو نت نئے حملوں کے بارے میں ہدایات جاری کرتے ہیں۔

بنوں جیل پر حملے کے بعد ٹھوس شواہد ملے تھے کہ یہ حملہ شدت پسندوں کے جیل میں قید ساتھیوں اور جیل کے عملے کی مبینہ ملی بھگت سے ہوا تھا۔ اب سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خاں پر حملے کی تحقیقات ہوں گی تو یقیناً ایسے شواہد ضرور دستیاب ہوسکتے ہیں جن سے اس حملے کی منصوبہ بندی میں ’’اندر‘‘ کے لوگوں کا ہاتھ ملوث ہونے کے ثبوت مل جائیں گے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ پیر کی صبح اسلام آباد میں وزارت داخلہ کے سیکرٹری کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں جیل حکام مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستانی جیلوں کا نظام دقیانوسی ہے، یہ جیلیں عام قیدیوں کیلئے ہیں، ان میں خطرناک دہشت گردوں کو رکھنا خطرے سے خالی نہیں، اس لئے ’’ہائی سکیورٹی جیلیں‘‘ الگ سے بنائی جائیں اور اسی شام ڈیرہ اسماعیل خاں کی سنٹرل جیل پر حملہ ہو جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب ہماری اعلٰی سطحی بیورو کریسی کو معلوم بھی ہے کہ پاکستان کی 89 جیلوں میں سے 65 جیلیں انتہائی حساس قرار دی گئی ہیں، اس کے باوجود ان کی حفاظت کے لئے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہیں کئے گئے۔؟

بنوں جیل پر حملے کے بعد مبینہ طور پر فوج نے جیل کے عملے کو کمانڈو تربیت دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس فیصلے پر کس حد تک عملدرآمد ہوا؟ اس کے بارے میں ڈی آئی خاں کی جیل پر حملے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جیل حکام کہہ تو رہے ہیں کہ موجودہ جیلیں انتہائی خطرناک دہشت گردوں کے لئے نہیں ہیں۔ یہ تو عام مجرموں کیلئے ہیں، جہاں دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کے لئے جیل کا عملہ تربیت یافتہ نہیں، تو پھر وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ کے حکام ’’دھنیا پی کر‘‘ کیوں سو رہے ہیں؟ ان جیلوں میں جی ایچ کیو حملہ کیس، ممبئی حملہ سازش کیس، کامرہ اور واہ آرڈیننس فیکٹری کے باہر ہونے والے خودکش حملوں کے ملزم، لاہور میں ایف آئی اے اور نیول وار کالج کے باہر ہونے والے حملوں میں ملوث خطرناک دہشت گرد رکھے گئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ یہ قیدی جیلوں میں بھی بڑے سکون سے اپنی مذموم وارداتوں کی منصوبہ بندی کرنے میں بھی آزاد ہیں تو پھر ہماری قومی سلامتی کو لاحق خدشات کی شدت میں اضافے کا ذمہ دار کون ٹھہرتا ہے؟

ڈیرہ اسماعیل خاں سنٹرل جیل آئی جی کے پی کے خالد عباس محفوظ ترین جیل قرار دے رہے ہیں، اگر محفوظ ترین کا معیار یہ ہے کہ سو کے قریب شدت پسند وہاں اللہ اکبر اور طالبان کے فلک شگاف نعرے لگاتے چار اطراف سے اس پر حملہ کرکے اپنے چالیس خطرناک ساتھیوں کو رہا کروانے کے ساتھ ساتھ 283 دیگر قیدیوں کو بھی فرار کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو غیر محفوظ جیلوں کا تو پھر اللہ ہی مالک ہے، جہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ بھی بہت خطرناک نوعیت کے ملزمان اسیر ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ قیدی دہشت گرد جیل حکام کو ترغیب و تحریص کے علاوہ بال بچوں کے حوالے سے دھمکیاں دے کر بھی اپنا کام نکالتے ہیں، اسی لئے تو بنوں جیل پر ہونے والے حملے کے دن شہر بھر میں ناکوں کا نظام ناقص رہا۔ پولیس تھانوں بلکہ شہر سے غائب رہی اور طالبان جلوس کی شکل میں بنوں جیل پر حملہ کرکے کامیاب لوٹے۔

گذشتہ رات ڈی آئی خاں میں اسی کھیل کا ری پلے ہوا، حیرت ہے کہ شمالی وزیرستان کے قرب میں واقع، طالبان اور القاعدہ کے ہیڈکوارٹرز کے نزدیک یہ انتہائی حساس جیل کے حفاظتی انتظامات اتنے کمزور کیوں تھے اور شہر میں انتظامیہ اتنی بے خبر تھی کہ نعرہ زن حملہ آور دندناتے ہوئے اپنے ہدف کو نشانہ بنا کر کامیاب ہو کر بحفاظت لوٹ جاتے ہیں اور ہماری سکیورٹی ایجنسیاں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے جیل پر حملہ ہماری قومی سلامتی کے ضامن اداروں کے لئے ایک اور چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ اب ہمارے حکمرانوں کو اس حملے کے بعد اپنی مذاکراتی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بقول 25 سے 30 گروہ طالبان کہلاتے ہیں، کس سے مذاکرات کئے جائیں۔ اسی شش و پنج کا ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں، ان دہشت گردوں سے نبردآزما سکیورٹی فورسز قربانیاں دے رہی ہیں اور حکومت کی طرف سے فیصلہ کن معرکہ کے لئے اشارہ چاہتی ہیں مگر ہمارے حکمران سیاسی مصلحتوں کا شکار ہیں ابھی تک قومی مفاد کے لئے متفقہ طور پر سکیورٹی پالیسی معرض التواء میں ہے۔ سیاستدان اپنے مفادات کے لئے دھڑے بندیوں کا شکار ہیں جبکہ دہشت گردوں کے مختلف گروہ ملک کو تباہ کرنے کے لئے باہمی اختلافات کے باوجود ایک ہیں۔ عوام مخمصے میں ہیں اور قوم سوال کرتی ہے کہ پاکستانی حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کا ہاتھ کون اور کب روکے گا؟ کیا ابھی بھی فیصلہ کن موڑ نہیں آیا؟ ہم آخر کب تک ان دہشت گردوں کے حوالے سے حکمرانوں کی مصلحتوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔؟
خبر کا کوڈ : 288353
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش