0
Thursday 6 Feb 2014 12:58

اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے

اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے
تحریر: ممتاز ملک

ہمارے بڑے بتاتے ہیں کہ ایک شخص کو پہلوانی کا بڑا شوق تھا۔ اُس کے شوق کو دیکھتے ہوئے پہلوان جی کے والد صاحب اُس کی صحت اور خوراک کا خاص خیال رکھنے لگے۔ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اُسے کھلاتے تھے اور اُسے خوب ورزشیں کرواتے تھے۔ پہلوان جی بھی روزانہ سرسوں کے خالص تیل کی مالش کرکے ڈنڈ نکالتے اور ساتھ ہی بادام کی سردائی، دیسی گھی کے بنے کھانے، بکرے کا گوشت اور دودھ نوشِ جان کرتے۔ ماشاءاللہ سے خوب جان بنائی تھی۔ لیکن ان کی قسمت ساتھ نہیں دیتی تھی۔ وہ جب بھی اکھاڑے میں اترتے مخالف سے مات کھا جاتے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، انھوں نے ہمت نہ ہاری اور زورآزمائی کرتے رہے۔ پہلوان جی کے والد تو کافی عرصہ اس سوچ اور صبر کے ساتھ یہ ناکامی برداشت کرتے رہے کہ یہ اپنے آپ کو سیٹ کر لے اور اپنی توانائیوں کو یکجا کرکے ایک دن ضرور فاتح ٹھہرے گا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ایک دن اُس نے تنگ آکر بیٹے سے کہا آئندہ تمھارا کشتی لڑنا بند۔

لیکن وہ اکھاڑے کو وقت دیتے رہے اور اپنا اسٹیمنا بڑھاتے رہے۔ اُن کی ہمت اور لگن کو دیکھ کر والد کے دوستوں نے اُنھیں پھر کشتی لڑنے کی اجازت دلوا دی، لیکن ہونا کیا تھا، وہی ناکامی ہی مقدر ٹھہری۔ پھر والد صاحب غصہ ہوکر پابندی لگانے پر مجبور ہوئے۔ پہلوان نے اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ذریعے منت سماجت کرکے مقابلے کی اجازت پھر لے لی، لیکن اس بار بھی جیت اُن کا مقدر نہ ہوسکی۔ اب تو صرف والد ہی نہیں گاؤں اور قوم قبیلے والے بھی انھیں سنجیدگی سے مشورہ دیتے تھے کہ اب آپ یہ مشغلہ چھوڑ ہی دیں، یہ آپ کے بس کا روگ نہیں اور نہ ہی یہ مشغلہ آپ کو راس ہے۔ آپ نے بڑی محنت کی ہے، لیکن آپ کو کسی نے مُندر (جادو کرنا) لیا ہے۔ جس کی بدولت آپ ہر دفعہ ہار جاتے ہیں۔ پہلوان جی دھن کے پکے تھے اور اسی مستقل مزاجی کے ساتھ اکھاڑے میں جاتے رہے، اس خواہش اور عزم کے ساتھ کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔

کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ انھوں نے والد کی اجازت کے بغیر علاقے میں ہونے والے دنگل کے اشتہار میں اپنا نام بھی شامل کروا لیا۔ والد نے جب غصے ہوکر پوچھا کہ تم نے بغیر اجازت ایسا کیوں کیا؟ تو اُنھوں نے بے بسی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے رو کرکہا ’’بابا جان! مجھے آخری موقع دے دیں، اب اگر ہار گیا تو اس کے بعد کبھی نہیں کہوں گا اور پہلوانی بھی چھوڑ دوں گا۔ شفقت پدری نے جوش مارا اور دل میں بیٹے کے جیتنے کی حسرت بھی تھی، اس لیے والد نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگایا، اجازت دی اور کامیابی کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ آخر کشتی کا دن آن پہنچا اور مقابل پہلوان نے پہلوان جی کی طاقت کو بھانپتے ہوئے چالاکی سے اُنھیں تھکا تھکا کر شکست سے دوچار کر دیا۔ اُن کا ہارنا تھا کہ علاقے سے پہلوانی کا مستقبل بھی ختم ہوگیا اور آج تک اُس گاؤں کے کسی بھی شخص نے پہلوانی کا مشغلہ نہیں اپنایا۔

آج جب ہم اپنے وطن کے حالات دیکھتے ہیں تو پورا ملک لہولہان ہے اور روزانہ معصوم انسان دہشت گردوں کی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ طالبان نے فوج، پولیس، سنی شیعہ مسلمانوں، اقلیتوں، پولیو کی ٹیموں، حتٰی کہ کسی کو بھی نہیں بخشا۔ پوری قوم اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے، لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب نے اُس پہلوان کی طرح طالبان کے ایک ایک ظلم کو گنوانے کے باوجود ان سے بات کرنے کا آخری فیصلہ کیا۔ جسے پوری قوم نے چاہتے نہ چاہتے قبول کیا کہ جہاں اونٹ گزر گیا ہے، وہاں اونٹ کی دم بھی گزر جائے گی، لیکن خیال رہے کہ بہ قول شاعر:
تازہ ہوا کے شوق میں اے پاسبان شہر!
 اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے


لیکن ان دہشت گردوں کے حق میں جو نام نہاد دانشور اور طالبان سوچ کے حامل کالم نگار کہتے ہیں کہ ان کی ایک مرتبہ بات سنی جائے اور ان کو ایک موقع دیا جائے، تاکہ کل کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ان سے آخری دفعہ بات کر لینے میں کوئی حرج نہیں تھا اور ان کی یہ بھی حجت تمام ہوجائے۔ ان مذاکرات کے دوران جو بھی دہشت گردی ہو، اُس کو امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے برداشت کیا جائے۔ تاکہ یہ مذاکرات ایک ٹائم پیریڈ کے اندر رہتے ہویے پایۂ تکمیل تک پہنچ جائیں۔ اگر یہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو ٹھیک (جو کہ قوی امکان ہے کامیاب ہوں گے نہیں) اور اگر ناکام ٹھہرے تو پھر بھرپور طریقے سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ ان دہشت گردوں کے سروں کو کچل دیا جائے۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو قوم کا درد لازوال ہوجائے گا۔
خبر کا کوڈ : 348872
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش