2
0
Saturday 24 May 2014 16:14

وزیرِاعظم صاحب کا بھارت جانیکا فیصلہ

وزیرِاعظم صاحب کا بھارت جانیکا فیصلہ
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
دنیا سمٹ رہی ہے، مولوی فوراً ان لفظوں کو قربِ قیامت کی نشانی کہہ کر اپنی تفسیر گری کا جوہر منوانے میدان میں نکل آئے گا، مگر میں ان معانی میں تو کہہ ہی نہیں رہا، بے شک دنیا جب سے معرضِ وجود میں آئی اس کا سفر قیامت کی جانب ہے۔ جزا و سزا کا دن۔ قیامت آکر رہے گی اور ہر ایک کے لیے اپنے کیے کی جزا و سزا بھی ہے۔ میں مگر یہ کہہ رہا ہوں کہ دنیا سمٹ کر ایک گاؤں کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اب ملکوں کے تعلقات کسی انتہا پسندانہ کالعدم گروہ کی خواہشات کے تابع نہیں رکھے جاسکتے۔ بھارت میں نریندر مودی کی پارٹی بھاری مینڈیٹ کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ وہی نریندر مودی جو وزیرِاعلٰی ہوتے ہوئے مسلم کش فسادات کا محرک و ذمہ دار ہے۔ وہی نریندر مودی جسے ہندو انتہا پسندوں کی انتہائی حمایت حاصل ہے۔ 

اس امر میں کلام نہیں کہ بھارت میں ہونے والے انتخابات میں پاکستانی میڈیا اور پاکستانی عوام نے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی، مگر جب نریندر مودی بھاری اکثریت لے کر وزیرِاعظم بننے جا رہے ہیں تو خدشات و خطرات کی نقش گری کرنے والے اسے پہلے سے ہی للکارنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہمارا مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہمارے میڈیا نے دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے چند افراد کا ٹولہ پال رکھا ہے۔ دہشت گردی سے لے فتویٰ گری تک، اور داخلی سکیورٹی پالیسی سے لے کر ’’خارجی صورتحال‘‘ تک بھی ان تنظیموں کے سربراہان گفتگو کر رہے ہوتے ہیں جو کالعدم قررا دی جاچکی ہیں۔ 

بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آگئی ہے، اب پاک بھارت تعلقات کیسے ہوں گے؟ یا مسلم کش فسادات کے ذمہ دار نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم ہوں گے تو پاک بھارت تعلقات کو کیسے ایک درجہ اعتدال تک رکھنا ہے کہ خطے میں انسانی المیے جیسا کوئی سانحہ رونما نہ ہو؟ ایسے نازک مسائل پر بھی بات کرنے کے لیے لشکرِ طیبہ والے حافظ سعید جو آج کل جماعت الدعوۃ کے ’’امیر‘‘ ہیں، سے پاک بھارت تعلقات کی تصویر گری بارے تبصرے کرائے جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ دھوں اٹھتا رہے۔ کشمیر ہماری شہ رگ، لیکن اس سوال سے جان کیسے چھوٹے کہ پاکستان میں بسنے والے پاکستانیوں کے جان و مال تو محفوظ نہیں، ہم کشمیر والوں کی حفاظت کیسے کر پائیں گے؟ حافظ سعید صاحب مگر بضد ہیں کہ ہم دہلی والے قلعے پر فتح کا علم گاڑیں گے۔ کیا حافظ صاحب یا ان کی جماعت پارلیمنٹ میں پاکستانی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔؟

المیہ مگر یہ ہے کہ ہمارے دشمن علم و صنعت میں تیز رفتار ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہم صرف پاکستان کی سڑکوں پر ہی نعرہ زن ہو کر پوری دنیا کو فتح کرنے کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔خوش گمانی اور کس چیز کا نام ہے؟ ملکوں کے درمیان تعلقات جذباتیت اور نعرہ گری کے مرہون نہیں ہوتے، بلکہ یہ تعلقات ہمیشہ زمینی حقائق کے مطابق ہی سرد گرم ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان اس وقت سوائے چین والے بارڈر کے اور ہر جانب سے خطرے میں ہے۔ افغانستان والے بارڈر سے کالعدم تحریکِ طالبان والے ایک ایسے فہمِ اسلام کو درآمد کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جو ملا عمر کی ہٹ دھرمیوں کے باعث افغانیوں کے لیے قیامتِ صغریٰ سے کم ثابت نہیں ہو رہا۔ کوئٹہ میں کیا کم دکھ ہے؟ لشکرِ جھنگوی اور اس کے فکری حواری، جب چاہتے ہیں زائرین اور ہزارہ برادی کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔
 
مشرقی بارڈر جو قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی خطرے میں رہا، اس طرف اب بھارت کے اندر ایک انتہا پسندانہ سیاسی جماعت کی حکومت اس خطرے کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ تزویراتی خطوط پر ابھرنے والی تشویش کا گہرا ہونا قدرتی امر ہے۔ ایسے میں وزیرِاعظم صاحب نریندر مودی کی وزیرِاعظم بننے والی تقریبِ حلف برداری میں جا رہے ہیں تو ہمیں اس چیز کو یوں نہیں دیکھنا چاہیے کہ جب میاں صاحب نے بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ کو اپنی وزارتِ عظمٰی کی تقریبِ حلف بردای میں مدعو کیا تھا تو وہ نہیں آئے تھے۔ بے شک اس وقت بھی اس چیز پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ میاں صاحب بھارتی وزیرِاعظم کو کیوں تقریب میں بلوا رہے ہیں، حالانکہ بھارت تو ہمارا ازلی دشمن ہے اور اب جبکہ بھارت نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو دعوت دی اور انھوں نے دعوت قبول کرتے ہوئے اس تقریب میں جانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر کالعدم اور کالعدم کے بطن سے عدم میں آنے والی تنظیموں کی طرف سے سخت ردعمل تو آئے گا، لیکن میرا خیال ہے کہ میاں صاحب نے ایک بہتر سیاسی فیصلہ کیا ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد یہ پہلی دفعہ ہوگا کہ پاکستان اور بھارت کا کوئی وزیرِاعظم ان دونوں ممالک میں سے اپنے کسی ہم منصب کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوگا۔ بھارت کے نو منتخب وزیراعظم نریندر مودی نے سرکاری طور پر وزیراعظم نواز شریف کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں شریک ہونے کی دعوت دی تھی۔ ریڈیو پاکستان نے پاکستان کے وزیرِاعظم ہاؤس کے ترجمان کے حوالے سے کہا ہے کہ نواز شریف نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے دہلی جائیں گے۔

میں نہ تو بین الاقومی امور کا ماہر ہوں اور نہ خارجہ تعلقات کی نقش گری کا ہنر آتا ہے۔ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ پاک بھارت تعلقات کو ماضی کی عینک سے دیکھنے کے بجائے دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے عوام کی بہبود و ترقی پر زیادہ توجہ رکھیں۔ سادہ بات مگر ان کالعدم تنظیموں کے بطن سے’’عدم‘‘ میں آنے والے نفرت و وحشت کے علمبرداروں کو بھی سمجھنی چاہیے کہ وزیراعظم صاحب کا نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کشمیر پر اپنے اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ ہمیں اچھی باتوں کی توقع رکھنی چاہیے۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک برطانوی نشریاتی ادارے میں شائع ہونے والے یہ جملے دونوں ممالک میں پائی جانے والی’’ٹسل‘‘ کو سمجھنے میں مددگار ہوسکتے ہیں کہ ’’ماضی کی تلخیاں پاکستان اور بھارت دونوں کو آگے بڑھنے نہیں دیتیں۔ نصابی کتب سے لے کر انتخابی نعروں تک ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ نہیں ملتا۔ ایسے میں پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر سید حسین سہروردی جیسے ماہرین کہتے ہیں کہ تجارت کے فروغ کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی معاشی پروگرام کی وجہ سے جیتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں بھی ایک ایسا وزیراعظم اقتدار میں ہے جو معاشی ترقی پر زور دے رہا ہے۔ ایسے میں دونوں مل کر کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘ 

واضح رہے کہ گذشتہ سال وزیرِاعظم نواز شریف نے بھارت کے سابق وزیرِاعظم من موہن سنگھ کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تھی لیکن وہ اس میں شریک نہیں ہوئے۔ دوسری جانب بھارت میں حال ہی میں برسر اقتدار آنے والی جماعت بی جے پی نے نواز شریف کے بھارت آنے کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان پرکاش جاوڑیکر نے بھارتی میڈیا کو بتایا ہے: یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور یہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی سمت نیا آغاز ہے۔ ہمیں بھی نئے سفر کی اچھی امید رکھنی چاہیے، لیکن ایسا بھی ممکن نہیں کہ وزیراعظم پاکستان کی نریندر مودی والی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے فوراً بعد پاک بھارت تعلقات میں تناؤ کی کیفیت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ نہیں، بلکہ خطے میں دائمی امن کے لیے دونوں ممالک کی جمہوری حکومتوں کو مل کر انتہا پسندانہ رویوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 385836
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

PM ka india jany ka faisala darust hy
وزیراعظم نواز شریف کی اپنے نومنتخب بھارتی ہم منصب نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے فیصلے کو ہر نظر اپنے زاویئے سے دیکھنے کا حق رکھتی ہے۔۔ "جنگ کی بھاشا" تو خیر اب قصہ ماضی ہوچکی لیکن پون صدی سے "ازلی دُشمن" کے لیبل کے ساتھ اختلافات اور مناقشات کی "ناقابل فخر" تاریخ رکھنے والی ان دو ہمسایہ ریاستوں کے مابین اقتصادی تعاون پر مشتمل "امن کی آشا" کے خواب کی عملی تعبیر کیلئے جس "بصیرت" اور جس "فراست" کی ضرورت ہوا کرتی ہے، وہ ابھی تک دونوں طرف مفقود ہے۔۔ بہرحال ہمارے دوست طاہر یاسین طاہر نے اس موضوع پر قلم اٹھا کر کئی اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے۔۔ فاضل مضمون نگار کی مخصوص پہچان یعنی مدلل انداز تحریر اور رجائیت پسندی دونوں، مضمون ہٰذا کے ایک ایک حرف سے بخوبی چھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔۔
اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ
ہماری پیشکش