0
Friday 20 Jun 2014 17:52

پہلے ضرب عضب پھر عوامی غیظ و غضب

پہلے ضرب عضب پھر عوامی غیظ و غضب
تحریر: حسن نثار

کسی بھی قیمت پر ’’ضرب عضب‘‘ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ناکام بنانے کے بعد ہی جمہوری دہشت گردوں کے خلاف عوامی غیظ و غضب کا آغاز ہونا چاہیئے۔ افواج پاکستان سرخرو اور فاتح لوٹیں تو سیاہ روئوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے بعد انہیں قصۂ پارینہ اور نشان عبرت بنایا جائے کہ یہی اس مشکل وقت کا تقاضا بھی ہے اور پکار بھی۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی ایسی ایسی تفصیلات سننے کو مل رہی ہیں کہ سوچ سن ہوئے جاتی ہے۔ بےحیائوں نے باپردہ بیویوں، مائوں، بہنوں، بیٹیوں کے حجاب اور نقاب نوچ نوچ کر ان کے چہروں پر تھپڑ مارے، عوامی تحریک کے زخمی، ظالموں کے شمری نرغے میں ہیں اور ڈاکٹروں کو رائونڈ بھی نہیں کرنے دیا جا رہا۔ سہمی ہوئی صنعتی و سیاسی جمہوری فرعونیت اور خوفزدہ بربریت غلطی پر غلطی، جرم پر جرم اور ظلم پر ظلم کیے جا رہی ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ اس مکروہ نظام میں بہت گہرے گڑے ہوئے ہیں۔ جناح ہسپتال میں سانحہ ماڈل ٹائون کے زخمیوں کے حوالہ سے ریکارڈ میں مجرمانہ ردوبدل کی کوششیں کی جارہی ہیں اورمجھے ایک سابق آئی جی پنجاب عباس خان کی وہ رپورٹ یاد آرہی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ ان جمہوریت پسندوں نے اپنے اقتدار میں استحکام کیلئے کون کون سے جرائم پیشہ لوگ پولیس میں بھرتی کیے۔ یہی ہے وہ ذہنیت کہ ہم سسٹم میں بہت گہری نقب لگا چکے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ سسٹم میں شاہ ایران سے گہرا پیوست تو کوئی بھی نہ تھا، یہ تو کسی کھاتے میں ہی نہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ عوامی تحریک کے دو مزید کارکن شہید ہو گئے تو ہسپتال میں بےلگام طاقت کا استعمال قابل فہم دکھائی دیتا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف گیارہ گھنٹوں پر مشتمل اس جنگ میں نہ قرآن کا لحاظ نہ انسان کا، خواتین کو بالوں سے پکڑ پکڑ کر گھسیٹا اور بوڑھوں کو بےرحمی سے مارا گیا۔ الٹا کہتے ہیں وہ مسلح تھے تو بڑے سے بڑا جھوٹ بھی اتنا ہی چل سکتا ہے جتنا چل چکا۔ 60 کے لگ بھگ شخصیات کے گھروں کے باہر بیریئرز ہیں تو کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ہے جس کی بین الاقوامی سطح پر کوئی شناخت یا پہچان ہو؟ کمال یہ کہ تاجر اس سانحہ پر بھی سوداگری سے باز نہیں آئے۔ شہداء کے لواحقین کو رشوت دے رہے ہیں۔ شہداء کے خون کا سودا؟ لیکن سوداگروں کیلئے ہر شے سودا اور زندگی بھی جنس اور کموڈیٹی کے سوا اور کچھ نہیں۔

سلام شہداء کے ان مظلوم لواحقین پر جنہوں نے عوامی جیبیں کاٹ کر دی جانی والی اس جمہوری رشوت کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔ یہ میں نہیں اخبار کہہ رہے ہیں کہ اس قتل عام کے بعد پولیس اہلکار ’’مشن کی کامیابی‘‘ پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے رہے تو دوسری طرف منہاج القرآن کی باپردہ خواتین ہاتھ جوڑ جوڑ کر اپنے باوردی مسلمان بھائیوں سے زندگی کی بھیک مانگتی رہیں۔ کربلا او کربلا! ڈرو ظالمو ڈرو کہ محلات کو مقبروں میں تبدیل ہوتے وقت نہیں لگتا۔ امام خمینی کے چالیسویں پر ایرانی حکومت کی دعوت پہ تہران میں رضا شاہ پہلوی کا ’’جاتی عمرا‘‘ دیکھکر میں کانپ اٹھا تھا، شاہ کے محلات کے صدر درروازہ پر ایک بہت بڑا بورڈ نصب تھا جس پر ایسے حکمرانوں کی دو لفظی تاریخ لکھی تھی۔’’جائے عبرت‘‘ اس احمق کا خیال بھی یہی تھا کہ وہ ایران کیلئے ناگزیر ہے وہ بھی اپنے ’’ولی عہد‘‘ اور ’’ولی عہدیاں‘‘ یہی سوچ کر پروان چڑھا رہا تھا کہ وہ اور ان کی نسلیں صدیوں ایران پر حکومت کرینگی لیکن نہ کبھی ایسا ہوا نہ ہوگا ورنہ بل گیٹس نہیں آج بھی قارون کا دگڑ پوتا دنیا کا دولت مند ترین شخص ہوتا، کرہ ارض کا سب سے بااثر آدمی کالا براک اوبامہ، کسی فرعون کی اولاد ہوتا۔

پاکستان بالخصوص پنجاب اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کی بہت سزا بھگت چکا۔ عوام نسل در نسل غلام رہنے سے انکار کرتے ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی وسیع ترین پیمانے پر قبولیت و محبوبیت اسی باضمیر انکار کے شہکار اظہار کی مختلف شکلیں ہیں جنہیں سیاسی فنکار بروقت پہچان نہ سکیں گے کہ پہچان گئے تو مکافات عمل سے بچ جائیں گے۔ میں نے زندگی بھر ایک لمحہ کیلئے بھی کبھی یہ نہ سوچا تھا کہ وقت مجھے گھیر گھار کر، میرا ہانکا کر کے مجھے کسی ’’مولوی‘‘ کا ساتھ دینے پر مجبور کر دے گا لیکن شاید اسے ہی Destiny کہتے ہیں جس کے روبرو ہر انسان عاجز اور بےبس ہوتا ہے۔ بھٹو ہو یا عمران خان، قاضی صاحب ہوں یا الطاف حسین یا ڈاکٹر طاہرالقادری ........ میں نے جہاں بھی وطن اور ہم وطنوں کیلئے بہتری کی امید دیکھی بخل سے کام نہیں لیا۔ ’’ترے دوار کھڑا اک جوگی‘‘ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ خواہش شدید تر ہوتی جا رہی ہے کہ دنیا چھوڑنے سے پہلے پاکستان اور پاکستانیوں کو پوری طرح باوقار نہ بھی دیکھ سکوں تو وقار کی منزل جانب رواں دواں ہی دیکھ لوں اور آخری سانس اس سکون سے لے سکوں کہ میرے بچے اس پاکستان میں زندگی بسر کرینگے جو اس پاکستان سے بہتر ہوگا جس میں مجھے ہر روز جینا اور ہر روز مرنا پڑتا تھا۔ رہ گیا سانحہ ماڈل ٹائون فیم گلو بٹ تو اس میں حیرت کیسی کہ یہی تو نون لیگ کا حقیقی چہرہ ہے اور سچ پوچھیں تو ہر موروثی پارٹی کے اپنے اپنے گلو بٹ ہیں۔ پاکستان کی موجودہ مکروہ ترین جمہوریت کی گرامر ہی گلو بٹ ہے، عوام بیچارے تو پروف ریڈنگ کی غلطیاں ہیں۔

گلو بٹ کس کا ’’شیر لاہور‘‘ ہے؟ یہ دکانیں کھوکھے لوٹنے والا، آئی جی پنجاب‘‘ گلو بٹ کہتا ہے کہ صلح کرانے گیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں یہ بھتے لیتا اور قبضے کرتا ہے، پولیس کہتی ہے کہ ہمارا ٹائوٹ تھا۔ عوام ’’گلو بٹ جمہوریت‘‘ سے نجات چاہتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ گلو بٹ راج میں ایف آئی آر درج ہو گی یا نہیں؟ فیصلہ کن سوال کے سیانے بھٹو کی تپ دق زدہ FIR سے خوفزدہ ہیں۔ چمچے، کڑچھے چینلز پر کہتے ہیں ........’’ہمارا ماضی دیکھیں‘‘ جنرل ضیاء بلکہ جنرل جیلانی کی غلامی سے لیکر چھانگا مانگا تک، پولیس میں مجرموں کی بھرتی سے لیکر پنجاب پلاٹوں کی لوٹ سیل تک ایسا بھیانک سیاسی ماضی تو ہے ہی کسی کا نہیں لیکن پھر وہی گلو بٹ جسے ان کے ’’ڈس اون‘‘ کرنے پر مجھے کوئی حیرت نہیں کہ محاورہ کے مطابق بندریا کے پائوں جلنے لگیں تو بچے نیچے رکھ لیتی ہے۔ گاڑیاں توڑتا، بوتلیں پیتا، پولیس کو لیڈ کرتا یہ تو صرف گلو بٹ تھا۔ بڑا بڑا ڈھیٹ اور دروغ گو موجود ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ سب تو تجاوزات کے خلاف معمول کی کارروائی تھی۔ جو کبھی لاہور کی ایک گلی تجاوزات سے پاک نہ کرا سکے۔ الٹا ہمیشہ دکانداروں سے چھتر کھا کر لوٹے۔ انہوں نے تجاوزات کی صفائی میں پاکستانیوں کا قتل عام ہی نہ کیا، بیشمار زخمیوں کے علاوہ 3 ہزار لوگوں کے خلاف مقدمہ جس میں ڈاکٹر صاحب کا پی ایچ ڈی بیٹا حسن بھی شامل ہے۔ کبھی تو یوم حساب ہوگا اور بےحساب ہو گا لیکن فی الوقت دھیان ہٹنے نہ پائے۔ ضرب عضب سے ہٹنے نہ پائے کہ عوامی غیظ و غضب کو تو اب کوئی ٹال ہی نہیں سکتا۔

(بشکریہ از اردو کالم )
خبر کا کوڈ : 393753
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش