0
Saturday 28 May 2011 23:49

پاک فوج میں شدت پسندوں کا نفوذ اور نقصانات (1)

پاک فوج میں شدت پسندوں کا نفوذ اور نقصانات (1)
تحریر:سید علی شیرازی
پاکستان آرمی اور انٹیلیجنس ادارے کچھ عرصے سے پوری دنیا کے میڈیا کا ہدف بنے ہوئے ہیں، ہر طرف سے زہریلے تیروں کی بوچھاڑ جاری ہے، دوسری طرف داخلی سکیورٹی بھی عجیب صورتحال سے دوچار ہے۔ کبھی جی ایچ کیو جیسا ہائی سکیورٹی زون دہشت گردوں کا نشانہ بنتا ہے، کبھی اسامہ ایبٹ آباد میں ملٹری کی ناک کے نیچے سے برآمد ہوتا ہے اور کبھی مہران بیس جیسا المیہ پیش آتا ہے۔ یہ ساری صورت حال پاک فوج کو کیوں جھیلنا پڑ رہی ہے اس کا تجزیہ آنے والی سطروں میں پیش کر رہے ہیں۔ لیکن امید ہے یہ نشتر جراحی کے نشتر کے طور پر لئے جائیں گے اور ذمہ دار اداروں کو سوچنے پر مجبور کریں گے۔
پاکستان آرمی میں شدت پسند دیوبندیوں کا نفوذ جنرل ضیاء الحق کے دور سےشروع ہو چکا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے دیوبندی شدت پسند جماعتوں کو فوج سمیت ملک کے مختلف شعبوں میں ہونے والی بھرتیوں میں باقاعدہ کوٹہ دیا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے مختلف اداروں میں دیوبندی مذہبی جماعتوں کے تربیت یافتہ افراد داخل ہوئے۔ فوج میں بھی اسی طرح کے افراد مختلف مدارج طے کرتے ہوئے اہم پوسٹوں پر تعینات ہونا شروع ہو گئے۔ لیکن فوج پر مجموعی طور پر سیکولر چھاپ ہونے کی وجہ سے یہ افراد کھل کر سامنے نہ آ سکے، لیکن اندرون خانہ شدت پسند دیوبندی جہادیوں کو سپورٹ کرتے رہے۔
شدت پسند دیوبندی عناصر شروع سے ہی اس سوچ کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے کہ اگر پاکستان میں مبینہ "دیوبندی انقلاب" لایا جا سکتا ہے تو وہ فوج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسی سوچ کے تحت میجر جنرل ظہیرالاسلام عباسی کے ساتھ حرکت الجہاد الاسلامی کے کمانڈر مولانا سیف اللہ اختر نے ایک آپریشن تشکیل دیا، جس کا نام "آپریشن خلافت" رکھا گیا۔ اس آپریشن کے تحت ملک میں بے نظیر بھٹو کا تختہ اُلٹ کر مارشل لاء لگایا جانا تھا اور بعد میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ظہیر الاسلام عباسی ملک میں دیوبندی اسلام کے نفاذ کا اعلان کر دیتا، اس سازش کو کامیاب بنانے کے لئے حرکت الجہاد اسلامی کے امیر سیف اللہ اختر نے اسلحہ اور شدت پسند جہادی فراہم کرنے تھے، لیکن یہ سازش ناکام ہوئی اور اس سازش کے اہم کرداروں کو سزا سنائی گئی، لیکن سیف اللہ اختر کو کسی قسم کی سزا نہ سنائی گئی۔ یہ پہلی مرتبہ تھا جب دیوبندی شدت پسندوں نے اسٹیٹ کے خلاف کاروائی میں باقاعدہ عملی حصہ لیا اور فوج کو فوج کے خلاف استعمال کیا۔
فوج میں شدت پسندوں کے نفوذ کی دوسری مثال خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد سامنے آئی۔ بعض اطلاعات کے مطابق خالد شیخ محمد پکڑے جانے سے پہلے کوہاٹ چھاونی میں ایک کرنل لیول کے عہدے دار کے گھر چھپا ہوا تھا۔ خالد شیخ محمد کی راولپنڈی سے گرفتاری کے بعد اس کو پناہ دینے کے الزام میں 6 کے قریب فوجی آفیسرز گرفتار کیے گئے جو کرنل اور میجر رینک کے تھے، لیکن ان گرفتاریوں کو پاک فوج نے انتہائی خفیہ رکھا۔
پاک فوج میں نفوذ کرنے والی اسی سوچ کا حامل ایک دیوبندی ملی ٹینٹ گروپ 2001ء سے فوج کے اندر کام کرتا رہا ہے۔ یہ گروپ فوج میں تبلیغی جماعت کے ذریعے نچلے درجے کے کیڈرز میں نفوذ کر کے اُن کو اپنے ساتھ ہم آہنگ کر لیتا ہے، اگرچہ اس گروپ کی کوئی واضح آوٹ لائن نہیں بنائی جا سکی، نہ ہی واضح قیادت کبھی میڈیا میں آسکی ہے لیکن گزشتہ 7 سالوں میں پاکستانی فوج کے خلاف ہونے والی کاروائیوں میں اس گروپ کی خطرناکی کھل کر سامنے آئی ہے۔ ابتداء میں یہ گروپ امجد فاروقی کی قیادت میں کام کرتا رہا، امجد فاروقی فوج کے نچلے لیول کے آفیسرز میں تبلیغ کے نام پر کافی نفوذ کر چکا تھا، پاکستان ائیر فورس، ایس ایس جی ونگز اور نیوی اس کے خاص ٹارگٹ تھے، جہاں پر اس گروپ کے تربیت یافتہ پیش نماز فوج کی متعلقہ ونگ کی مسجد میں تعینات کیے جاتے۔ یہ امام مسجد اور خطیب حضرات دیوبندی ذہنیت کے حامل افراد اور کمانڈوز کی شناسائی شروع کر دیتے۔ 
ان ونگز میں تبلیغی جماعتیں بھی آتیں، جہادی فضائل بیان کیے جاتے، ان شدت پسند تبلیغی لیکچرز سے متاثر ائیر فورس کے گروپ نے امجد فاروقی کی قیادت میں 15 دسمبر 2003ء کو راولپنڈی میں جھنڈا چیچی پل پر پرویز مشرف کے قافلے کو بم حملے کا نشانہ بنایا، لیکن مشرف کے قافلے کا سکیورٹی نظام ٹائیٹ ہونے کی وجہ سے حملہ کامیاب نہ ہوسکا اور یہ گروپ منظر عام پر آ گیا۔ اس گروپ کے اہم افراد میں سارجنٹ میجر اسلام الدین شیخ عرف عبدالسلام صدیقی، اسٹاف سارجنٹ مشتاق احمد، 198 ائیر ڈیفنس رجمنٹ حوالدار محمد یونس، زبیر احمد، غلام سرور بھٹی اور اخلاص احمد عرف روسی بھی شامل تھے۔
اسلام الدین شیخ عرف عبدالسلام صدیقی گرفتار ہوا اور کورٹ مارشل کے بعد 25 اگست 2005ء کو سزائے موت دی گئی۔ مشرف پر حملوں کا دوسرا ملزم مشتاق احمد پہلی دفعہ جنوری 2005ء میں گرفتار ہوا، لیکن ملٹری انٹیلجنس کی جیل میں اسی گروپ کے افراد نے اسے فرار کروا دیا۔ 5 مارچ 2005ء کو دوبارہ گرفتار ہوا اور اس کو سزائے موت سنائی گئی۔ حوالدار محمد یونس کو مارچ 2005ء کو دس سال کی سزا سنائی گئی، یہ شخص ابھی تک جیل میں ہے۔
کافی نقصانات اٹھانے کے بعد خفیہ اداروں نے امجد فاروقی نیٹ ورک کے اہم فرد مولانا راشد قریشی کی شناسائی کی، جو ایس ایس جی کی مختلف ونگز میں جا کرتبلیغ کرتا اور جہاں ضرورت پڑتی امجد فاروقی کو بھی بلوا لیتا۔ پکڑے جانے سے قبل راشد قریشی ایس ایس کے اندر کافی "کام کے بندے" ڈھونڈ کر امجد فاروقی سے ملوا چکا تھا۔ کمانڈو نائیک ارشد محمد انہی کام کے بندوں میں سے ایک تھا۔ جو مشرف پر دوسرے قاتلانہ حملے کے الزام میں آئی ایس آئی کے ہاتھوں مئی 2005ء میں گرفتار ہوا۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ بندے گرفتار ہوتے رہے لیکن تبلیغی نیٹ ورکس کی آڑ میں پاک فوج میں لگی سیندھ/ نقب کو کسی نے بند نہ کیا۔
 امجد فاروقی  اکتوبر 2004ء کو غلام حیدر کالونی، نواب شاہ میں سکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ مقابلے میں اپنے انجام کو پہنچا، لیکن اس کا نیٹ ورک پاک فوج کے اندر پوری طرح فعال رہا۔ اسی تبلیغی نیٹ ورک نے پاکستان آرمی کے میڈیکل کور سے تعلق رکھنے والے محمد عقیل سکنہ مٹور گاوں کہوٹہ کو اپنے ساتھ ملا لیا، یہ محمد عقیل بعد میں ڈاکٹر عثمان کے نام سے جی ایچ کیو راولپنڈی پر حملہ آور ہونے والا تھا۔      (جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 75218
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش