0
Monday 11 Jul 2011 20:34

لاحاصل مذاکرات اور امریکہ

لاحاصل مذاکرات اور امریکہ
 تحریر:محمد علی نقوی
بحرین میں آل خلیفہ کی فوج کے ساتھ ہی سعودی عرب اور اردن کے فوجیوں کی موجودگی نے اس ملک کو ایک فوجی اڈے میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عرب ممالک کے ایجنٹوں کو بھی تعینات کرنے سے آل خلیفہ کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ بحرینی عوام پر تشدد کے پہاڑ توڑے۔ اس وقت دنیا دیکھ رہی ہے کہ آل خلیفہ بحرینی عوام پر کیسے کیسے مظالم ڈھا رہی ہے۔ بحرین میں انسانی حقوق کے ایک فعال کارکن مریم الخواجہ نے اس ملک کے عوام پر مظالم کا جائزہ لینے کے لئے برلن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کہا کہ اس وقت بحرین میں تیرہ سو افراد جیلوں میں ہیں، جن میں تقریباً ایک ہزار افراد پر آل خلیفہ کی جانب سے شدید تشدد کیا جا رہا ہے اور ان میں سے بعض کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔
درایں اثناء بحرین کے سب سے بڑے مخالف گروہ جمعیت الوفاق نے فاش کیا ہے کہ تقریباً چار سو افراد کو کورٹ میں حاضر کیا جا چکا ہے، جن میں پچاس افراد کو بحرین کے حالیہ مظاہروں میں شرکت کے الزام میں سزائے موت کا حکم دیا جا چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مظاہرین پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ادھر بحرین میں قومی مذاکرات کو شروع ہوئے ایک ہفتہ گذرنے کے باوجود عوام اور سیاسی جماعتیں ان مذاکرات کو ایک ڈرامہ سے تعبیر کر رہی ہيں۔ بحرین کے اکثر سیاسی گروہوں نے اعلان کیا ہے کہ منتخب عوامی حکومت کی تشکیل اور آزاد و شفاف انتخابات پر مبنی پارلیمانی نظام ان کا سب سے اہم مطالبہ ہے۔ بحرین کے ایک بزرگ عالم دین عیسی قاسم نے موجودہ شکل میں قومی مذاکرات پر تنقید کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ جب تک اس ملک کے سیاسی نظام میں تبدیلی کا عوامی مطالبہ پورا نہيں ہوتا، اس وقت تک مذاکرات نتیجہ خيز نہيں ہوں گے۔
بحرین کے انسانی حقوق کے مرکز کے سربراہ نبیل رجب نے کہا ہےکہ آل خلیفہ مذاکرات کے ذریعے بحرینی عوام کے اندر اختلاف و تفرقہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
 نبیل رجب نے آل خلیفہ کے اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے مقصد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بحرین کے عوام آل خلیفہ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو کوئی اہمیت دیئے بغیر اس حکومت کا تختہ الٹنے تک اپنے مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔  بحرین کے انسانی حقوق کے مرکز کے سربراہ نے کہا کہ کوئي بھی مذاکرات کا مخالف نہيں ہے لیکن انقلابیوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات حقیقی اور سنجیدہ اور مطالبات کے حصول پر منتج ہونے چاہئے اس دوران یہ بھی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ آل خلیفہ کے کارندے بیرونی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر قومی فوٹبال ٹیم کے کھلاڑیوں کو وحشیانہ طریقے سے جسمانی ایذائيں پہنچا رہے ہیں۔ گرفتار شدہ قومی فوٹبال کھلاڑیوں کے رشتہ داروں اور دوستوں نے انکشاف کیا ہے کہ ان قومی کھلاڑیوں کو مظاہرے کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گيا ہے اور بری طرح جسمانی ایذائيں پہنچائي گئي ہیں۔ اغیار کو بھی اعتراف ہے کہ بحرینی حکومت کسی بھی عنوان سے مظاہروں میں شریک ہونے والوں یا اس کی حمایت کرنے والوں کو ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچاتی ہے۔
 امریکی دانشور لارنس ڈیوڈسن نے پریس ٹی وی سے انٹرویو میں کہا کہ بحرین کی حکومت اپنے مخالفین کو جسمانی ایذائيں پہنچانے کی بنا پر فاشسٹ حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آل خلیفہ کی حکومت وہائٹ ہاوس کی ایما پر انقلابیوں کو کچل رہی ہے اور وہائٹ ہاوس بحرین میں انقلاب کو اپنے مفادات کے منافی سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بحرینی قوم کے حقوق پامال کر رکھے ہیں۔ لھذا امریکہ کو آل خلیفہ کے جرائم میں شریک قرار دیا ج اسکتا ہے۔ در ایں اثناء بحرین کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت جمعیت الوفاق نے گذشتہ ایک مہینے کے اندر بحرین میں چار زبردست اجتماعات منعقد کر کے قومی مذاکرات کی مخالفت کا اعلان کیا۔ جمعیت الوفاق کے ایک رہنما خلیل مرزوق نے کہا کہ بحرین میں یکے بعد دیگرے کابینہ تشکیل پاتی ہے لیکن کابینہ کے اراکین میں کوئي تبدیلی نہيں آتی، چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومتیں موروثی ہیں اور ان میں کسی طرح کی لیاقت نہيں پائی جاتی۔
خلیل مرزوق نے منامہ میں ہزاروں مخالفین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم معاشرے کی درجہ ایک اور درجہ دو میں تقسیم اور قبائل پرستی اور نسل پرستی کے مخالف ہیں، آل خلیفہ ملک کی قومی دولت کو لوٹ رہی ہے، معاشی مواقع کو تباہ و برباد کر رہی ہے اور اس نے سیاسی و سیکورٹی بحران پیدا کیا ہے۔ انھوں نے وضاحت کی کہ موجودہ حالات میں شہری نظام معطل ہے اور اس کی جگہ فوجی حکومت نے لے لی ہے۔ جمعیت الوفاق جو بحرین کا سب سے بڑا پارلیمانی دھڑا بھی شمار ہوتا ہے،اعلان کیا ہے کہ اس سیاسی دھڑے نے قومی مذاکرات کے اجلاس کے سربراہ کو اپنے مطالبات پیش کر دیئے ہيں۔
بحرین کی جمعیت الوفاق کا مطالبہ ہے کہ حکومت کے انتخابات میں پارلیمانی دھڑے بالخصوص سیاسی پارٹیوں کا کردار ہونا چاہئے، کابینہ کے لئے اعتماد کا ووٹ لینا لازمی ہونا چاہئے، وزیروں اور وزيراعظم کی کارکردگی پر پارلیمنٹ کی نگرانی لازمی قرار دی جانی چاہئے اور پارلمینٹ کو اتنی طاقت ملنی چاہئے کہ وہ وزیروں سے جواب طلب کر سکے یا ان سے اعتماد واپس لے سکے۔
جمعیت الوفاق جو سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے، بحرین کے قومی مذاکرات میں شامل ہے، قومی مذاکرات میں مشارکت کا مقصد پوری دنیا تک ملت بحرین کی آواز پہنچانا ہے۔ جمعیت الوفاق کے سربراہ نے تاکید کی ہے کہ ملت بحرین موجودہ بحران کو حل کرنے کے لئے سیاسی طریقہ کار کی خواہاں ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ آل خلیفہ حکومت نے مکر و فریب کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ایک طرف تو اس نے مذاکرات کا ڈھونگ رچا رکھا ہے اور دوسری جانب قومی کھلاڑیوں تک کو مختلف ذرائع سے اذیت پہنچا رہی ہے، بحرینی عوام آل خلیفہ کی چال پوری طرح سمجھ رہی ہے، اسی بنا پر جہاں ایک طرف اس کی حامی سیاسی جماعتیں مذاکرات میں شامل ہو کر عوام کے مطالبات پیش کر رہی ہیں اور حکومت کو کوئی بہانہ نہيں دینا چاہ رہی ہیں، وہیں عوام مسلسل مظاہرے کر رہے ہيں گذشتہ کئی مہینوں سے جاری مظاہرے مذاکرات کے ڈھونگ کے بعد بھی رکنے کا نام نہيں لے رہے ہیں، کوئی جمعہ ایسا نہیں گذرتا جب بحرینی عوام آمریت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ نہ کرا رہے ہوں۔ بحرین کے مسئلے کے حل کے لئےقومی مذاکرات گذشتہ سنیچر سےشروع ہوئے جس میں حکومت کے تین سو نمائندے، شہری ادارے، اور سیاسی و قومی پارٹیاں بھی شریک ہیں۔ گذشتہ ہفتے مذاکرات کے کئی دور ہونے کے باوجود آل خلیفہ کے نمائندوں، خلیفہ الظہرانی، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور قومی مذاکرات کے سربراہ کی جانب سے سطحی موضوعات چھیڑنے کی بنا پر مذاکرات لاحاصل رہے ہيں۔
 جمعیت الوفاق جس نے مذاکرات میں عوامی مطالبات پیش کرنے کے لئے شرکت کی، دھمکی دی ہے کہ موجودہ شکل میں مذاکرات جاری رہنے کی صورت میں وہ اس کا بائیکاٹ کر دے گی اور اس میں کوئی شک نہيں کہ اگر عوامی مطالبات پورے کئے بغیر نمائشی مذاکرات ہوتے رہے تو عوام اسے ہرگز تسلیم نہيں کریں گے۔ اور اس کے نتیجے میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا اور پھر وہ دن دور نہيں جب آل خلیفہ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور یہی نہيں، بلکہ شاید امریکہ کو بھی اس ملک سے اپنا بوریا بستر باندھنا پڑے۔ اس بات میں کسی طرح کا شک نہیں ہے کہ شمالی افریقہ اور خلیج فارس کے بعض ملکوں میں عوامی تحریکيں ایک بڑی تبدیلی کی مظہر ہیں، جس کے علاقے کی قوموں کی تقدیر پر گہرے اثرات پڑیں گے۔ وہائٹ ہاوس ان تحریکوں سے بری طرح خائف ہے کیونکہ یہ تحریکیں استبدادی حکومتوں کو اکھاڑ پھینکنے کا ھدف رکھتی ہیں۔ امریکہ ان تحریکوں کو ہائي جیک کر کے اپنے فائدہ میں استعمال کرنا چاہتا ہے، البتہ امریکہ کی یہ کوششیں خلیج فارس میں تیل کے بے پناہ ذخائر پر اپنے تسلط کے خاتمے کے خوف سے سامنے آ رہی ہیں اور وہ لاحاصل مذاکرات کے ذریعے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 84361
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش