0
Friday 30 Jun 2023 11:11

سانحہ تری منگل کے حوالے سے سابق سینیٹر علامہ عابد الحسینی کا خصوصی انٹرویو

سانحہ تری منگل کے حوالے سے سابق سینیٹر علامہ عابد الحسینی کا خصوصی انٹرویو
علامہ سید عابد الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ پاکستان میں صوبائی صدر اور مرکزی سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک جعفریہ کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے تری منگل میں پیش آنیوالے افسوسناک سانحے کے مختلف پہلووں پر انکے ساتھ خصوصی بات چیت کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! تری منگل میں ہونیوالے سانحے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ عابد الحسینی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، اسلام ٹائمز اور اسکی ٹیم کا بہت بہت شکریہ۔ تری منگل کے سانحے پر بہت کچھ کہا جاچکا ہے۔ تاہم اپنا نکتہ نظر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ بین الاقوامی سیاست کھیلتے وقت سرحدی علاقوں سے کھیل شروع کیا جاتا ہے۔ قبائلی علاقوں کی فضا کو خراب کرکے دنیا کو اپنی مرضی کا پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گذشتہ چار عشروں سے مجاہدین، طالبان، القاعدہ اور داعش کی صورت میں دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں اس سے پہلے یہی صورت حال پیدا کرکے ان کی قربانی پر سیاست چمکائی گئی۔ اسی ضمن میں کرم میں بھی یہ پتے استعمال کیے گئے۔ تاہم وہ پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے۔ سانحہ تری کا اگر ابتداء سے آج تک عمیق مطالعہ کیا جائے تو بالکل واضح ہو جائے گا کہ واقعہ کا محرک اور کھلاڑی کوئی اور ہے جبکہ تری منگل  ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سانحہ میں ملوث افراد میں سے آج تک کتنے افراد گرفتار ہوسکے ہیں۔؟
علامہ عابد الحسینی:
 سننے میں آیا ہے کہ آج تک درجنوں افراد گرفتار ہوکر دوبارہ رہائی پاچکے ہیں۔ تاہم اصل ملزمان میں سے اب تک ایک بھی گرفتار نہیں ہوا ہے۔ ابتدائی چند دنوں میں ذمہ دار اداروں نے تحریک حسینی اور انجمن حسینیہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ 90 فیصد کام ہوچکا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے بعد تقریباً 50 دنوں میں باقی 10 فیصد کام نہیں ہوسکا ہے۔ اب تک کوئی اصل مجرم پکڑا نہیں جاسکا ہے، جبکہ اس حوالے سے اشارہ کرچکے ہیں کہ اصل عوامل، محرکین اور کھلاڑیوں سے اپنے مہروں کے خلاف کام کرنے کی امید رکھنا عبث ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ اور متاثرہ قبائل نے اسکے ردعمل میں اب تک کیا کچھ کیا ہے۔؟
 علامہ عابد الحسینی:
مرحلہ وار احتجاج جاری ہے۔ تحریک اور انجمن نے اس حوالے سے مشترکہ منصوبہ سازی کی ہے۔ پہلے دو مرحلوں میں سکولوں کی سطح پر مختلف نوعیت کا احتجاج ہوا، جبکہ تیسرے مرحلے میں احتجاج کی نوعیت تبدیل کر دی گئی ہے اور اسے مزید وسعت دی گئی ہے۔ سانحے کے رد مل میں ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہمارے طلباء، علماء اور عمائدین نے احتجاج کرنے کے علاوہ پریس کانفرنسیں کی ہیں اور متعلقہ حکام کو مراسلوں کی صورت میں اپنی مظومیت سے آگاہ کیا ہے۔ عرفہ کے دن ہونے والی گرینڈ ریلی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ 

اسلام ٹائمز: اصل ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہ آسکی تو آپکا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
علامہ عابد الحسینی:
تحریک اور انجمن قوم کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرے گی، جبکہ اس حوالے سے جو کچھ کرنا ہے، اس پر کافی حد تک کام ہوچکا ہے۔ مرحلہ وار کام نیز احتجاج پر کام ہو رہا ہے۔ ایک سے ابتداء کی جاچکی ہے، دو تین اور آگے جاکر 10 تک مرحلہ وار جائیں گے، ہماری تحریک اور احتجاج میں مزید شدت آتی جائے گی اور پھر وہ شدت کسی کے کنٹرول میں نہیں رہے گی۔ ذمہ دار حکام مسئلہ حل کرنے اور ملزمان کو سزا دینے کے وعدے وعید کرکے احتجاج ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ ہمارے قومی ادارے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ڈٹے رہیں گے۔ تحریک کے رہنماؤں سے ہم نے سفارش کی ہے کہ اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے ہماری اپنی ایک پرانی روش ہے، جس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: آپکی اس مرحلہ احتجاجی تحریک کا کچھ اثر بھی ہوا ہے یا نہیں؟ اگر اسکا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو آپکا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
علامہ عابد الحسینی:
اثر ہو یا نہ ہو، ملک بھر بلکہ دنیا بھر کو اپنی آواز، فریاد اور مظلومیت پہنچانا ایک فریضہ ہے۔ طوری بنگش قبائل کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ظلم خصوصاً اساتذہ کے قتل کے حوالے سے ملک بھر میں ایک پیغام پہنچ چکا ہے۔ بنی امیہ کے طرز پر مخالفین کے منافقانہ پراپیگنڈہ کا توڑ ہوا اور ہو رہا ہے۔ ورنہ وہ تو اس شرمناک فعل پر پچھتانے اور شرم محسوس کرنے کے بجائے الٹا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کر رہے تھے، جبکہ ہمارے اس احتجاجی تحریک کی وجہ سیے دنیا اصل حقیقت سے روشناس ہوگئی۔ دوسری بات یہ کہ اگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو ہم کیا کریں گے، تو عرض ہے کہ آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرکے حکومت سے انصاف طلب کیا جا رہا ہے۔ اگر انصاف کی فراہمی ممکن نہ ہوسکی تو طوری بنگش قبائل کی حقیقت اور اصلیت سے سب واقف ہیں کہ وہ اپنے حقوق حاصل کرنے میں کیا کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہم خود اتر گئے تو راستے میں کسی بھی رکاوٹ کی حیثیت دریا کے آگے تنکے سے زیادہ نہیں ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 1066781
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش