0
Tuesday 16 Oct 2012 12:48

شیعہ نسل کشی پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے علاوہ جلد ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط بھی لکھا جائیگا، علامہ عارف واحدی

شیعہ نسل کشی پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے علاوہ جلد ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط بھی لکھا جائیگا، علامہ عارف واحدی
علامہ عارف حسین واحدی شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، آپ کا شمار ملک کے نامور شیعہ علماء کرام میں ہوتا ہے، شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے بعد علامہ ساجد علی نقوی کے ہمراہ بھی مسلسل ملت کے حقوق کے حصول کیلئے سرگرم ہیں، علامہ صاحب اتحاد بین المسلمین کیساتھ ساتھ ملت تشیع کے اتحاد کیلئے بھی کوشاں رہتے ہیں، کچھ عرصہ قبل تنظیمی اہم ذمہ داری سنبھالنے کے بعد مسلسل ملک کے مختلف علاقوں کے دورہ جات پر ہیں اور تنظیم کو فعال کرنے میں سرگرم ہیں، آپ ملی یکجہتی کونسل کے رہنماء بھی ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ملک کی بدلتی سیاسی صورتحال، ملت تشیع کو درپیش مسائل اور آئندہ کے تنظیمی لائحہ عمل کے حوالے سے علامہ عارف حسین واحدی صاحب کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو یہ بتایئے گا کہ حال ہی میں شیعہ علماء کونسل کی مرکزی کابینہ کا جو اجلاس منعقد ہوا، اس میں کیا اہم فیصلے کئے گئے۔؟
علامہ عارف حسین واحدی: بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم، یہ مرکزی کابینہ اور صوبائی عہدیداران کا مشترکہ اجلاس تھا، اس کا ماشاءاللہ بہت تفصیلی ایجنڈا تھا، سب سے پہلے تنظیمی امور زیر بحث آئے کہ تنظیم نو کہاں تک پہنچی ہے، اس کا جائزہ لیا جائے، سب صوبوں اور علاقوں نے اپنی رپورٹس پیش کیں، اور جو کمزوریاں تھیں انہیں دور کرنے کی کوشش کی گئی، فیصلہ ہوا کہ یکم محرم تک پورے پاکستان میں تنظیم نو مکمل ہونی چاہئے، اس کے علاوہ ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے ہم کافی پرامید ہیں، اور ہماری کاوشیں اور کوششیں بھی ہیں کہ ایم ایم اے انشاءاللہ بحال ہو، اور آئندہ سیاسی میدان میں آئندہ الیکشن کے حوالے سے ایم ایم اے بھرپور کردار ادا کرے گی، جماعت اسلامی کے حوالے سے یہ تھا کہ وہ نہیں آ رہی، ہم نے فیصلہ کیا کہ اسلامی تحریک کی طرف سے ہم مولانا فضل الرحمان صاحب سے اور جناب سید منور حسن سے ملیں گے اور کوشش کرینگے کہ جماعت اسلامی کو بھی ایم ایم اے میں واپس لایا جاسکے، اور جو ان کے درمیان تھوڑے مسائل ہیں، انہیں حل کیا جاسکے۔ ایک دن پہلے سیاسی سیل کا اجلاس ہوا تھا، ان فیصلوں کی اس اجلاس میں توثیق کی گئی، اس کے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے مسائل بھی زیر بحث آئے۔

اسلام ٹائمز: کراچی اور کوئٹہ میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ کی جو صورتحال ہے، اس حوالے سے اس اجلاس میں کوئی احتجاجی لائحہ عمل تیار کیا گیا۔؟
علامہ عارف حسین واحدی: یکم محرم تک پورے پاکستان میں تنظیم نو مکمل کرنی ہے، اس کے بعد فوری طور پر ایک آل پاکستان تنظیمی کنونشن بلایا جائے گا، جس میں مرکز سے لیکر صوبوں اور حتٰی کہ یونٹس کے تنظیمی ساتھیوں کو بھی اس میں بلایا جائے گا، اس کے بعد انشاءاللہ اسلام آباد میں ایک بڑے عوامی اجتماع کا فیصلہ کیا جائے گا، ہم پہلے اعلان کر چکے ہیں کہ ہم ایک منظم انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور تنظیمی صورتحال کو مضبوط کرنے کے بعد سب سے پہلا ہمارا ٹارگٹ یہی ہے کہ اس دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان میں ایک موثر قوت کے طور پر ایک کردار ادا کیا جائے۔ پاکستان بھر سے ہم ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں اور جلد اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بھی جلد لکھا جائے گا، ہم نہیں چاہتے کہ کسی صورت اس معاملہ میں بیرونی مداخلت ہو، لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی جانب سے حال ہی میں شیعہ نسل کشی کا نوٹس لئے جانے کے بعد ہم اس حوالے سے انہیں خط لکھنے جا رہے ہیں، جس کی تیاری مکمل ہوگئی ہے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (س) کی عدم موجودگی کی صورت میں مجلس عمل کی افادیت ماضی کے مقابلے کس حد تک ہوگی۔؟
علامہ عارف حسین واحدی: دیکھیں، یہ تو یقینی ہے کہ جب دینی جماعتیں خصوصاً سب اکٹھی ہوں تو وہ ایک بڑی قوت ہوتی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جب ایک جماعت نہیں بھی آسکتی تو میرے خیال میں ہم اپنا کردار بھرپور ادا کرینگے، ہماری کوشش ہے کہ جماعت اسلامی بھی اس میں آجائے۔

اسلام ٹائمز: تنظیمی اسٹریکچر کو فعال کرنے میں آپ کو اب تک کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔؟
 
علامہ عارف حسین واحدی: الحمد اللہ، اکثر مقامات پر بہت اچھی پوزیشن تھی، خصوصاً صوبہ سندھ کو سب سے بہتر پایا گیا، ان کے بارے میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ انہیں مرکز کی طرف سے بہترین کاکردگی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے، باقی صوبے بھی اچھے رہے، ہم نے تنظیمی حوالے سے جو روڈ میپ دیا تھا کہ پہلے مرحلہ میں ضلعی آرگنائزرز بن جائیں گے، اس کے بعد تحصیل اور پھر یونٹس، اکثر مقامات پر یونٹس پر کام جاری ہے، نچلی سطح تک یونٹس بنائے جا رہے ہیں، الحمداللہ صورتحال بہت اچھی اور اطمینان بخش ہے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ الیکشن کے حوالے سے بتایئے گا کہ ماضی کے مقابلہ میں کتنی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے، اور اس حوالے سے تیاریوں کی کیا پوزیشن ہے۔؟
علامہ عارف حسین واحدی: مرکزی کابینہ کے اجلاس سے ایک دن پہلے مرکزی سیاسی سیل کا اجلاس تھا، اس میں بڑے اچھے فیصلے ہوئے اور یہ فیصلہ ہوا کہ اگلے الیکشن میں انشاءاللہ اسلامی تحریک ایک بھرپور قوت کے طور پر ابھرے گی اور کام کرے گی، کیونکہ اس کے درمیان میں ایم ایم اے کا مسئلہ آگیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر ایم ایم اے میں متفقہ فیصلے ہوں، اپنے امیدوار کھڑے کرنے ہیں یا کسی سے اتحاد کرنا ہے، اس حوالے سے متفقہ فیصلے ہوں تو ہم ان فیصلوں کے ساتھ چلیں گے، اور اگر متفقہ فیصلے نہ ہوں، ہر جماعت کے الگ الگ فیصلے ہوں تو پھر ہم بھی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں، لیکن فی الحال یہی فیصلہ ہے کہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے انشاءاللہ بھرپور کردار ادا کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: آغا صاحب ملک میں کالعدم تنظیموں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر اہل تشیع کے علاوہ اہل سنت (بریلوی) جماعتوں کی تشویش میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، آپ کے خیال میں کیا کالعدم تنظیموں کی اس فعالیت کو حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے، جس کی ایک مثال گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والا شرانگیز جلسہ ہے۔؟
علامہ عارف حسین واحدی: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتوں میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو ان کی سپورٹ کر رہے ہیں، ان کی سپورٹ کے بغیر اسلام آباد میں اتنا بڑا اجتماع اور اس طرح کی غلط اور غلیظ زبان استعمال کرنا میں سمجھتا ہوں کہ ممکن نہیں ہے، بدقسمتی اس ملک کی یہ ہے کہ یہاں قانون کی عملداری کہیں بھی نہیں ہے، ایسے گروہ کالعدم ہیں اور مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں وہ ملوث ہیں، وہ کھلے عام قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، اور جس وقت بعد میں ان کی اس صورتحال پر ہم احتجاج کرتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی، ایسا کچھ نہیں ہوا، بہرحال دبائو کے بعد فیصلہ ہوا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جائے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح ملی یکجہتی کونسل ہے، یا ایم ایم اے اب بحال ہو رہی ہے، اگر اس طرح کے اتحاد اسلامی کے پلیٹ فارمز جو ہیں وہ فعال ہوں تو کالعدم جماعتوں کی سرگرمیاں انشاءاللہ خود ہی ماند پڑ جائیں گی۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل نے اگلے ماہ بین الاقوامی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے، یہ اقدام پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کس حد تک بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور اس کانفرنس کے انعقاد سے تکفیری گروہوں کو دیوار سے لگایا جا سکتا ہے۔؟
علامہ عارف حسین واحدی: ہمارا ہدف اس کانفرنس سے البتہ یہ نہیں ہے کہ تکفیری گروپوں کو سائیڈ پر لگایا جائے، وہ تو ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے، ہم اسے کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے کہ اتنے بڑے ایشو کا مقصد اسے رکھا جائے، لیکن عالم اسلام کے خلاف اور امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے حوالے سے جو عالمی سامراجی قوتوں اور عالمی استعمار کی سازشیں جاری ہیں اس کے مقابلہ میں یہ کانفرنس ایک سنگ میل ثابت ہوگی، انٹرنیشنل سطح پر جہاں جہاں اسلامی قوتیں موجود ہیں اور اس وقت سامراجی قوتوں کے خلاف فعال ہیں، ان سب کو اس میں مدعو کیا جا رہا ہے، بڑا بھرپور اجلاس اس روز بھی رہا، اور انشاءاللہ امت مسلمہ کی وحدت، اور دشمنان اسلام کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بنانے کے حوالے سے یہ کانفرنس بہت اہم کردار ادا کرے گی۔
 
11 نومبر کو پہلے روز خطابات ہوں گے، پورے پاکستان سے دانشور، علماء، اسلامی اسکالرز، لیکچرارز، پروفیسرز، وکلاء، طلبہ تنظیمیں باقی ہر طبقہ فکر کے نمائندگان انشاءاللہ اس میں شریک ہوں گے، خطابات ہوں گے، امت مسلمہ کے مسائل پر گفتگو کی جائے گی، ان کے حل کے بارے میں سوچا جائے گا، امت مسلمہ کی وحدت اور وہ جو قرآن کا تصور ہے، امت واحدہ کے حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا کردار یہ کانفرنس ادا کرے گی، اور دوسرے دن انشاءاللہ ایک اہم اجلاس جس میں اڑھائی سو سے لیکر تین سو تک افراد شریک ہوں گے، بیرون ملک سے جو دانشور اور اسکالر تشریف لائیں گے، ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوگی اور انشاءاللہ عالمی سطح پر ایک لائحہ عمل بنایا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کو بحال ہوئے گو کہ اتنا عرصہ نہیں ہوا، آپ کے خیال میں یہ اتحاد ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں کس حد تک کارگر ثابت ہوا ہے۔؟
علامہ عارف حسین واحدی: اس روز بھی جو اجلاس ہوا، اس میں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ اتنے مختصر عرصہ میں ملی یکجہتی کونسل بڑے اچھے انداز میں فعال ہوئی ہے، البتہ یہ ذہن میں رہے کہ یہ کوئی انتخابی اتحاد نہیں ہے، دینی اور سیاسی ضرور ہے، لیکن انتخابی نہیں، اس حوالے سے جتنے اجتماع اور میٹنگز ہو رہی ہیں، احباب اور بزرگان بھرپور انداز میں شریک ہو رہے ہیں، اور بہت دلچسپی ہے ملی یکجہتی کونسل کے اجلاسوں میں سب بزرگان کی، ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری توقع سے زیادہ ملی یکجہتی کونسل کامیابی کی طرف گامزن ہے، اور اپنا کردار بھرپور ادا کر رہی ہے۔
 
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ملکی یکجہتی کونسل میں تکفیری گروپ شامل نہیں ہے، جو کسی وجہ سے بھی روڑے اٹکا سکیں یا فتنہ ڈال سکتے ہیں، یا فرقہ واریت کے حوالے سے ملی یکجہتی کونسل میں اختلاف ڈال سکتے ہیں، قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب کی کوششوں کی وجہ سے وہ اس مرتبہ شامل نہیں ہے، ملی یکجہتی کونسل کامیابی کی طرف جا رہی ہے اور ہمیں بہت زیادہ توقع ہے، ہمارا تو الحمداللہ یہ ہدف ہے اور ہم اتحاد بین المسلمین قائم کرنا اور امت واحدہ کیلئے کام کرنا ایک عبادت سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے امت مسلمہ کے اتحاد کی بات کی، پاکستان میں ملت تشیع کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے شیعہ علماء کونسل کیا کوششیں کرنے جا رہی ہے اور کیا مستقبل قریب میں نظر آرہا ہے کہ ملت اکھٹی نظر آئے۔؟
علامہ عارف حسین واحدی : میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال کئی مرتبہ ہو چکا ہے اور ہم بھی کئی مرتبہ وضاحت کرچکے ہیں، ہمارا پلیٹ فارم ایک قومی پلیٹ فارم ہے، اور وہی طریقہ کار جو مفتی جعفر حسین سے شروع ہوا تھا، پھر قائد شہید کا انتخاب ہوا تھا، اس کے بعد قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد علی نقوی صاحب کا انتخاب ہوا ہے، یہ بھی مدنظر رکھیں کہ امام (رہ) جس وقت موجود تھے تو ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ پاکستان کے علماء، پاکستان کے عمائدین ملت کسی شخص کو قائد بناتے تھے اور اس کے بعد حضرت امام (رہ) یا رہبر معظم بعد میں ان کو اپنا نمائندہ بناتے تھے، آغا صاحب (علامہ ساجد نقوی صاحب) کے حوالے سے بھی یہی ہے کہ ان کو ملت نے قائد بنایا پشاور میں علماء کرام اور بزرگان نے، بعد میں حضرت امام (رہ) نے اور پھر ان کی وفات کے بعد رہبر معظم نے انہیں اپنا نمائندہ بنایا، میں نے اس کی تفصیل اس لئے بتائی کہ ذہن میں رہے کہ وحدت کے حوالے سے ہماری کوششیں ہر وقت جاری ہیں۔
 
ہم ہر شیعہ کو اپنا ممبر تصور کرتے ہیں اور جو بھی علیاً ولی اللہ پڑھتا ہے، ہم اس کے ساتھ ہر مشکل میں کھڑے ہیں، البتہ میں سمجھتا ہوں کہ ملت میں بعض گروپ ہیں، ہوسکتا ہے کہیں جذباتی فیصلے ہوگئے ہوں، میں بہر حال سب کی قدر کرتا ہوں، لیکن یہ سوچنا چاہئے کہ نمائندہ ولی فقہہ کے دائرے میں آکر کام کریں تو وحدت و اتحاد بڑے اچھے انداز میں آگے بڑھ سکتا ہے، اور ہمارے دروازے ہر وقت کھلے ہوئے ہیں، ہمیں قائد ملت نے بھی یہ حکم جاری کیا ہوا ہے کہ کسی کے خلاف منفی بات قطعاً نہیں کرنی، یہ آغا کا حکم ہے، ہوسکتا ہے کہ کہیں چھوٹی موٹی ایسی بات ہوگئی ہو، لیکن قائد ملت کا یہ حکم ہے کہ کسی گروہ، کسی شیعہ یا کسی فرد کے خلاف کسی طرح کا منفی پروپیگنڈا یا بات نہیں کرنی، ہاں مثبت انداز میں اپنے پلیٹ فارم کو مضبوط کریں اور اسی پلیٹ فارم سے ملت تشیع کے جو مسائل ہیں، ان کو حل کریں، ان کے مفادات اور حقوق کا تحفظ کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، اور یہ نہ دیکھیں کہ وہ کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے، قومی پلیٹ فارم کے حوالے سے آپ کی ذمہ داری ہے کہ سب کے مسائل حل کریں، میری بعض بزرگان سے بات ہوئی ہے، اور وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ علامہ صاحب نمائندہ ولی فقیہ ہیں، ظاہر ہے کہ ولایت فقیہ میں آکر کام کرنا ہے تو سب مسائل حل ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 203904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش