3
0
Friday 26 Apr 2013 15:26
محب وطن قوتوں کی طاقت بنیں گے

دہشتگردوں اور تکفیری گروہوں کو پارلیمنٹ میں جانے سے روکنے والی معتدل قوتوں کیساتھ اتحاد ہوسکتا ہے، علامہ ناصر عباس

دہشتگردوں اور تکفیری گروہوں کو پارلیمنٹ میں جانے سے روکنے والی معتدل قوتوں کیساتھ اتحاد ہوسکتا ہے، علامہ ناصر عباس
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری آج کل انتخابی سرگرمیوں میں بھرپور مصروف عمل ہیں اور گیارہ مئی تک تنظیمی سطح پر ایمرجنسی کے نافذ کا اعلان کر رکھا ہے۔ تنظیم کے دوبارہ سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ انتخابات تک ایم ڈبلیو ایم کے تمام ادارے انتخابی عمل میں مصروف ہونگے، ایم ڈبلیو ایم تکفیرویوں اور ملک دشمن عناصر کو پارلیمنٹ میں پہنچنے سے روکنے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائے گی۔ اسلام ٹائمز نے عام انتخابات اور دوبارہ سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل جاننے کیلئے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے۔ یاد رہے کہ علامہ ناصر عباس جعفری کا ایم ڈبلیو ایم کا دوبارہ سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کے بعد کسی بھی ادارے کیلئے یہ پہلا انٹرویو ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کے دستوری تین سال مکمل ہو چکے ہیں، بطور مرکزی سیکرٹری جنرل تین سال میں آپ نے کیا اہداف حاصل کئے اور خود کو کہاں پاتے ہیں اور آئندہ آپ کی کیا حکمت عملی ہوگی۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: گذشتہ تین سال ایم ڈبلیو ایم کے تعارف کے سال تھے، لوگوں کو مایوسی سے نکالنا، لوگوں کو حوصلہ دینا اور میدان میں حاضر رہنا، پورے تین سال پورے ملک میں رابطہ مہم رہی، لوگ میدان میں حاضر ہوئے۔ لوگوں نے خوف کو توڑا، ناامیدی ختم کی، اپنی شہادت اور مظلومیت کو طاقت میں تبدیل کیا اور ملکی سطح پر رفاہ عامہ کو پھیلایا گیا۔ وہ قوتیں جو ہمیں تباہ کرنا چاہتی تھیں وہ خود رسوا ہوگئیں۔ بالخصوص کوئٹہ کے واقعات کے بعد ملکی سطح پر عوامی رائے عامہ تبدیل ہوئی، پرامن احتجاج کے ذریعے ظالم حکومت گرائی گئی اور لوگوں کو حوصلہ ملا کہ مقاومت اور عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کئے جاسکتے ہیں اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔ ان تین سالوں میں قوم نے پاکستان کے اندر دشمنوں کی گذشتہ
35برسوں کی کوششوں اور سازشوں کو ناکام بنایا۔ آپ نے دیکھا کہ لوگوں کو اس سے حوصلہ ملا اور وہ میدان میں حاضر ہوئے۔ پہلے ہم پاکستان میں مظلوم تھے اور ہمارے لوگ بھی اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کرتے تھے۔ ایم ڈبلیو ایم کی ان تین سال کی جدوجہد کے نتیجے میں اب لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، سیاسی پارٹیاں بولتی ہیں، سول سوسائٹی بولتی ہے، میڈیا پر ہمارے حقوق کی آواز اٹھائی جاتی ہے، اب ہماری آواز کو کوئی دبا نہیں سکتا۔ ہماری آواز میں طاقت پیدا ہوگئی ہے اور دشمن تنہا رہ گیا ہے۔

سیاسی جماعتوں پر اتنا دباؤ پڑا کہ وہ قوتیں جو افغانستان سے دہشت گردوں کو لاکر الیکشن لڑوانا چاہتی تھیں، وہ بھی مجبور ہوئیں کہ ان سے دوری اختیار کریں۔ پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو مکتب تشیع پاکستان کے وجود اور ان کی طاقت کا احساس ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے کی نسبت اس دفعہ بہت زیادہ سیاسی پارٹیوں نے اہل تشیع افراد کو اپنا امیدوار بنایا اور انہیں الیکشن لڑنے کا موقع دیا۔ اسکے علاوہ تنظیم سازی کا مرحلہ بھی تقریباً کافی حد تک مکمل ہوا۔ ہم نے ان تین سالوں میں فلاحی کام بھی کئے، جیسا کہ سال 2010ء میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں لوگوں کے گھر تباہ ہوئے، ہم نے سیلاب سے متاثرہ افراد کے گھر تعمیر کروائے اور ان کی خاطر خواہ امداد کی۔ اسی طرح آج بھی فلاح و بہبود کے کام سندھ، بلوچستان و پنجاب کے مختلف علاقوں میں جاری و ساری ہیں اور ان کی تفصیل آپ خیرالعمل فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔

آئندہ تین برسوں میں ہم سب سے پہلے یہ کوشش کریں گے کہ مضبوط ادارے بنائے جائیں۔ تربیت، تعلیم، فلاحی ادارہ، سیاسیات، شعبہ امور جوانان، اسکاؤٹس و دیگر شعبہ جات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے اور ان موجودہ سالوں میں اپنی سیاسی طاقت کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ جوانوں کے شعبے کو فعال سے فعال تر بنانا
ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اپنے نوجوانوں کو منظم کریں اور ان کی تربیت کیجائے۔ اس کے علاوہ عشق، عبادت خدا، دعا، مناجات، جو ہمیں اپنے مکتب کے قریب کرے، اسلام و خدا کے قریب کرے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندر ایک مضبوط سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے لوگوں کو آمادہ کریں گے اور انشاءاللہ العزیز آنے والے تین سال میں گذشتہ تین سالوں سے بہت بہتر انداز میں کام کریں گے۔ 
وطن دوستی کی ترویج کے لیے کام کریں گے۔ پاکستان کے تمام طبقات میں وحدت کے لیے کام کریں گے۔ پورے پاکستان میں ایسی تمام قوتوں کو اپنے ساتھ ملائینگے جو پاکستان کے اندر عالمی طاقتوں کا نفوذ روکنے میں مدد و معاون ثابت ہوں گی۔ ہم دہشت گردی کے خلاف معتدل قوتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گے۔ ایسی قوتوں کو ساتھ ملائیں گے جو گذشتہ 35 سال سے دہشت گردوں کے ٹولے کے خلاف ہیں اور اس ملک کو بچانا چاہتی ہیں۔ ہم مظلوموں کی جدوجہد کو طاقتور طریقے سے آگے بڑھائیں گے۔ ہم انسانی، اسلامی اور پاکستانی بنیادوں پر مظلوموں کی داد رسی کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے گذشتہ تین سال ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیں اور ملک کے بیشتر علاقوں میں سفر کیا اور لوگوں سے ملاقاتیں کیں، کیا لگتا ہے کہ عوام میدان عمل میں آنے کیلئے آمادہ ہیں۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: ہم نے یہ دیکھا کہ لوگ ہمیشہ یہی سوچتے تھے کہ قوم خوابیدہ ہے اور قوم بیدار نہیں۔ یہ بات بالکل غلط تھی، قوم بالکل بیدار تھی، قوم صرف یہ چاہتی ہے کہ ان کے رہنماء، لیڈر ایسے ہوں کہ ان میں شجاعت ہو اور وہ میدان میں حاضر رہنے والے ہوں، قوم یہ دیکھتی ہے کہ جس کے پیچھے وہ چلتی ہے وہ رہنماء کتنے کمیٹڈ ہیں۔ میرے خیال میں جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں، اس ملک میں خوفزدہ رہنے والے اور ڈرنے والے کبھی بھی اپنی قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتے۔ قوم چاہتی ہے کہ اس کی قیادت باوقار،
بہادر، بابصیرت اور شجاع ہو۔

اسلام ٹائمز: انتخابات کا وقت بہت قریب آچکا ہے اور انتخابی مہم عروج کو پہنچ چکی ہے، اس حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کی موجودہ اور اسٹریٹجک پالیسی کیا ہے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان کے حالات کو سمجھتے ہوئے کہ ملک اس وقت ایسے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے کہ جس میں اندرونی اور بیرونی قوتوں نے ملکر اسے جکڑا ہوا ہے۔ ان طبقات کی وجہ سے پاکستان میں ہمیشہ ناامنی، مشکلات اور بحران آئے ہیں۔ قتل و غارت گری پھیلی ہے، پاکستان انرجی، معاشی و دیگر بحرانوں سے دوچار ہوا ہے۔ لوگوں میں ناامیدی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسی قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے ہم جدوجہد کریں گے۔ گلگت سے لے کر کوئٹہ تک پورا پاکستان لہو لہو ہے۔ دہشت گردوں سے سنی، شیعہ حتیٰ کہ ہندو اور عیسائی بھی محفوظ نہیں۔ ہم پاکستان کو عالمی استعماری چنگل سے آزاد کرانے کے لیے بھرپور جدوجہد کریں گے۔ ہر معتدل قوت جو دہشت گردوں اور تکفیری گروہون کو پارلیمنٹ میں جانے سے روک سکتی ہے، ہم ہر اس قوت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اور اس کے ساتھ اتحاد کرسکتے ہیں۔ اس میں تحریک انصاف ہماری پارٹنر بن سکتی ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں ہمارے سنی بھائیوں کی بہت زیادہ اکثریت ہے۔ ہم اس الیکشن میں کوشش کریں گے کہ ایسی ہی قوتوں کا ساتھ دیں اور وہ ہمارا ساتھ دیں، تاکہ پاکستان کو دہشتگردوں سے پاک کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان کے حامی ہیں، آپ کیا کہیں گے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں ممکن ہے کہ تحریک انصاف کا طالبان کے ساتھ مکمل طور پر الحاق نہ ہو، ہم نے دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے تو اس میں کم برے بھی ہمارے ساتھ مل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شام کے اندر بشارالاسد کوئی اسلامی حکومت نہیں رکھتا لیکن دہشت گردوں کا راستہ روکنے کے لیے بشارالاسد کی حکومت کا ساتھ دیا جاسکتا
ہے، لہٰذا اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بعض چیزیں آیڈیل ضرور ہوتی ہیں لیکن عمل کے میدان میں دیکھ کر چلنا ہوتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے کسی عمل سے وہ قوتیں مضبوط ہوجائیں، جس کے نتائج ہم کئی برسوں برداشت کرتے آرہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی اس حوالے سے کیا آپشن ہوسکتی ہے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: پیپلزپارٹی صرف اس وقت ہی آپشن ہوسکتی ہے کہ جب وہ ان دہشتگردوں کا راستہ روکنے میں معاون و مددگار ثابت ہو۔ گذشتہ پانچ سال میں پی پی پی نے بہت زیادہ وقت ضائع کیا ہے اور کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب بھی اگر یہ ہوش کے ناخن لیں اور دہشتگردوں کا راستہ روکنے کے لیے تیار ہو جائیں تو یقیناً پی پی پی کے ہم مددگار ثابت ہوسکتے ہیں اور ہم اس کے ساتھ بھی اتحاد کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ایک ضابطہ اخلاق پر دستخط کئے تھے کہ جس پر تحریر تھا کہ ملت کے اجتماعی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرکے متفقہ فیصلہ کیا جائیگا، جبکہ شیعہ علماء کونسل نے پیپلز پارٹی کے ساتھ الحاق کر دیا ہے جبکہ آپ کی حکمت عملی کچھ اور ہے، تو ایسی صورتحال میں فائدہ کس کو ہوگا، کیا ووٹ بینک تقسیم نہیں ہوگا۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی یہ ہے کہ ہم الیکشن میں ان معتدل قوتوں کو سپورٹ کریں گے، چاہے وہ شیعہ ہوں یا غیر شیعہ۔ اس کے علاوہ وہ افراد جو تکفیریوں کا ووٹ کاٹنے میں موثر ہوں، ایسے افراد کو سپورٹ کریں گے۔ ہم دشمن کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے تمام ایسی قوتوں کو سپورٹ کریں گے جو دشمنوں اور دہشتگردوں کو پارلیمنٹ میں نہیں جانے دیں گی۔ یعنی ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو دہشتگردوں سے پاک کیا جائے۔ پس ہمارے ووٹ سے تمام محب وطن قوتوں کو فائدہ ہی ہوگا، نقصان کبھی بھی نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ایک خاص طبقے کا کہنا ہے کہ اس وقت الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے، چونکہ یہ نظام
ہی صحیح نہیں اور کربلا کا راستہ یہ نہیں ہے، اس پر آپ کا کیا مؤقف ہے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں! جب ایک طرف سے سیاسی یلغار ہو رہی ہے اور ایسی قوتیں پاکستان پر یلغار کر رہی ہیں جو پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ ان قوتوں نے عراق پر قبضہ کرنے کے لیے ایک عرب ڈالر خرچ کئے لیکن ان کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ لبنان میں بھی اسی قوت نے اس سے زیادہ خرچ کیا، تاکہ لبنان پر قبضہ کیا جائے لیکن لبنان کی عوام نے دشمن کے اس حملے کو بےضرر ثابت کر دیا۔ ہم نے ایسے حملوں اور ایسی قوتوں کو روکنے کے لیے معتدل قوتوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ اس حوالے سے جو کام ہم کر رہے ہیں وہ اس پورے خطے کے فائدے میں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اٹھے اور اس جگہ پر آئے، جہاں پر اس کا حق بنتا ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کی صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: شام میں عالمی قوتیں امریکہ، اسرائیل اور بعض عرب ممالک جن میں سعودی عرب و قطر اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود بھی بشارالاسد کی حکومت کو نہیں گرا سکے۔ آپ گذشتہ ادوار کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایران پر حملہ کروایا گیا لیکن اس کے باوجود ایران بجائے کمزور ہونے کے اور زیادہ مضبوط ہوگیا۔ فلسطین پر اسرائیلی حملے ہوئے اور اب بھی ہو رہے ہیں، لیکن فلسطین کے عوام پہلے سے زیادہ ثابت قدم ہیں۔ لبنان میں انہوں نے کئی بار حملے کیے لیکن حزب اللہ نے اسرائیل کے دانت کھٹے کر دیئے۔ اسی طرح انہوں نے اب شام میں حملہ کیا، شام میں بھی اسی طرح عوام کی ثابت قدمی سے ایک دن شام بہت زیادہ طاقتور ہو جائے گا۔ میرے خیال میں شام اس صورتحال سے بالکل باہر نکل آیا ہے کہ جب شام کی حکومت خطرے میں تھی۔ اب چند ایجنسیاں فعال ہیں اور وہ زیادہ عرصے نہیں چل سکتیں، چونکہ شام میں بشارالاسد کی عوامی حمایت بہت زیادہ ہے۔ بس اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں امریکہ شکست کھا چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 258096
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

mashallah raja sahab hum ap k hukum par labika kahen gy
United States
Wonderful! There is No doubt that Hazrat Allama Raja Nasir Abbas Jaffari is our National Hero I Salute Him i think he is an iron man and real Momin.may Allah Pak Bless Him with His unlimited blessings........... Amin!
Labaik Ya Hussain(A.S)
مولا حسین (ع) آپ کو اور زیادہ ہمت عطاء فرمائیں، تاکہ آپ ملت کے خدمت کرتے رہیں۔
ہماری پیشکش