0
Thursday 19 Dec 2013 23:00
راولپنڈی جلوس کا روٹ تبدیل ہوگا نہ جلوس محدود ہوگا

ایک کروڑ شہید بھی دینے پڑے تو دینگے لیکن عزاداری پر حرف نہیں آنے دینگے، علامہ ناصر عباس جعفری

ایک کروڑ شہید بھی دینے پڑے تو دینگے لیکن عزاداری پر حرف نہیں آنے دینگے، علامہ ناصر عباس جعفری
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، ملت پر جب بھی مشکل وقت آیا تو آپ میدان عمل میں نظر آئے، بغیر کسی خوف کے عوام کو حوصلہ دیا اور یہ باور کرایا کہ ہمیشہ میدان میں رہنے والی قومیں ہی کامیاب و کامران ہوا کرتی ہیں۔ سانحہ راولپنڈی کے بعد جب ہر طرف مایوسی کے بادل گہرے ہونے لگے اور تو آپ ایک بار پھر امید کی کرن بن کر سامنے آئے اور ان قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو عزاداری سیدالشہداء کو بند کرنے یا محدود کرنے کی سازشیں کر رہے تھے۔ راولپنڈی سانحہ کے پہلے دن سے لیکر تاحال میدان عمل ہیں۔ ہر روز سات سے آٹھ گھنٹے راولپنڈی ایشو کو دے رہے ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اپنے دوٹوک موقف کی بدولت بیحد سراہے جاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس جعفری سے سانحہ راولپنڈی کی اصل سازش اور محرکات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے پورے معاملے میں آپ شریک رہے ہیں، اس پورے سانحہ کو کس طرح سے دیکھتے ہیں اور دشمن کی اس سازش کے پیچھے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں انتہاء پسند لوگوں کا ہمارے ریاستی اداروں کے ساتھ جو اتحاد بنا اور ایک پارٹنر شپ وجود میں آئی، اس کے نتیجے میں یہ متشدد لوگ دہشت گرد بن گئے اور پاکستان سمیت افغانستان و دیگر ممالک میں ان سے کام لیا جاتا تھا۔ اسٹبیلشمنٹ کی خیانت سے یہ لوگ پاکستان میں اجتماعی اور مذہبی طور پر طاقتور بن گئے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں نفرت، ناامنی اور تفرقہ پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ جس میں مکتب تشیع کے پیروکاروں کو اور ان کے ساتھ دیگر مکتب یعنی اہل سنت برادران کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہاں سے پاکستان کے اندر تکفیر، قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوا، ان سب لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ اہل تشیع کو دبایا جائے اور یہ لوگ ہماری فوج کے ساتھ مل کر اس ملک میں طاقتور ہو کر اپنی مرضی اور اپنے خاص نظریات کے مطابق سسٹم بنائیں اور حکومت کریں۔

افغانستان میں ان کا حوصلہ بڑھایا گیا جبکہ پاکستان میں ان کا ٹارگٹ اہل تشیع براہ راست تھے اور
پورے ملک میں اہل تشیع کے خلاف ہر حوالے سے کام شروع کیا گیا۔ ان کے اہداف یہ تھے کہ پاکستان میں شیعوں کی سیاسی، سماجی طاقت ختم ہو جائے، ہماری عزاداری کو کنٹرول کیا جاسکے۔ پہلے یہ عزاداری کے جلوسوں کو ختم کریں اور پھر آہستہ آہستہ سارا سلسلہ ختم کر دیا جائے۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے طاقت والے علاقوں میں لشکر کشی کی گئی، مثلاً گلگت بلتستان میں ہماری طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی طرح سے پاراچنار میں بھی یہی عمل جاری رہا۔ اسی طرح کوئٹہ، کراچی و دیگر علاقے بھی شامل ہیں۔ دہشت گردوں کا جنوبی پنجاب میں وسیع تر نیٹ ورک بنا دیا گیا۔ بہرحال ان سب کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل تشیع کو کمزور کر دیا جائے اور اس قوم کو بہت زیادہ کمزور کر دیا جائے۔ الحمداللہ یہ دہشت گرد نہ ہمیں تنہاء کرسکے اور نہ ہی ہمیں اس معاشرے سے الگ کرسکے۔ یہ دہشت گرد اہل تشیع سمیت دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کو بھی خوفزدہ کرنا چاہتے تھے۔

یہ کوششیں بین الاقوامی سطح پر بھی چلتی رہی ہیں۔ 2006ء کی حزب اللہ کی جنگ میں اہل تشیع کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ دہشت گردوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی تفرقہ بازی اور شیعہ سنی کے مسائل کو بھڑکانے کی کوشش کی، تاکہ اہل سنت بھائیوں میں جو مقاومت کا اثر پیدا ہو رہا ہے، اس کو ختم کیا جاسکے اور اس کے خلاف دیوار کھڑی کی جاسکے۔ علاقائی اور عملی طور پر بھی اس حربے کو استعمال کیا گیا۔ اس طرح کے اور بھی حربے جس میں بم بلاسٹ، ٹارگٹ کلنگ اور لوگوں کو خوفزدہ کرتے رہے۔ لوگ ان سے نہیں ڈرے اور لوگ ہمیشہ میدان میں رہے۔ ہر جگہ پر دہشت گرد ذلیل ہوتے رہے اور حتٰی کہ میڈیا میں بھی ذلیل ہوگئے اور اپنی جگہ نہیں بناسکے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ راولپنڈی کے پیچھے کیا سازش چھپی ہوئی ہے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: راولپنڈی کا سانحہ ایک نیا انداز تھا اور نیا حربہ استعمال کیا گیا۔ اس وار سے کوشش یہ کی گئی کہ ظالم مظلوم بن جائے اور مظلوم ظالم بن جائے اور ان دہشتگردوں کو تحرک کا موقع مل جائے۔ قرائن سے بھی پتہ چلتا ہے کہ راولپنڈی کا واقعہ ایک طے اور پلان شدہ واقعہ تھا۔ اس واقعے کی تیاری پہلے سے کی گئی تھی،
بعد والے حالات بھی یہ بتاتے ہیں کہ بعض لوگوں کو پہلے سے بلایا گیا تھا۔ پھر جمعہ کے خطبے میں اسپیکر کا آن رکھنا اور اس تقریر کا ہونا جس میں توہین نواسہ رسول (ص) کی گئی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ گراؤنڈ پہلے سے تیار تھا، بس صرف آگ لگانا باقی تھی۔ واقعہ میں ایک مخصوص ٹولہ نے نسبتاً مظلوم بننے کی کوشش کی اور برما میں ذبح شدہ بچوں کی تصاویریں سوشل میڈیا پر دکھائی گئیں کہ یہ راجہ بازار والے واقعہ میں شیعوں نے ذبح کئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ان کی ساری قوتیں، اجتماعی قوت، مدرسے کھل کر سامنے آگئے۔ اس کے بعد میڈیا پر دباؤ ڈالا گیا، یہ ازخود مظلوم بن رہے تھے اور جو واقعاً مظلوم تھے اور گذشتہ کئی دہائیوں سے مظلوم ہیں اور کبھی بھی قتل و غارت گری نہیں کی ہے اور قانونی طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں، ان کو ظالم ثابت کرنے میں اپنی تمام تر قوت ان دہشت گردوں نے لگا دی۔

دہشت گرد 30 سال سے ہدف لے کر چل رہے ہیں کہ ملت جعفریہ کو تنہا کر دیں، قتل و غارت گری ہو، ہماری عزاداری کو روک سکیں، ہمارے جلوسوں کو بند کر دیا جائے۔ حتٰی کہ ان کے سرپرستوں نے ٹی وی چینلز پر کھلم کھلا یہ کہا کہ ان کے جلوسوں پر پابندی لگائی جائے، عزاداری نہ ہو، غم سیدالشہداء (ع) نہ منایا جائے اور اس مسئلے کو شیعہ سنی مسئلہ بنایا جائے۔ اہل سنت کو لا کر اہل تشیع کے مقابلے میں کھڑا کر دیا جائے۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا، جو الحمداللہ خدا کی مدد اور امام زمانہ علیہ السلام کی تائید سے دہشت گرد اس مقصد میں ناکام رہے۔ دہشت گرد جلوسوں کو محدود نہیں کرسکے۔ الحمداللہ عزاداری آج بھی بالکل پاکستان میں اسی طرح سے ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی دہشت گردوں نے جو کوشش کی تھی کہ ہمیں تنہاء کر دیا جائے۔ خدا کے فضل سے اہل سنت، بریلوی اور عوام اکٹھے ہوگئے، چونکہ دہشت گرد صرف عزاداری کے جلوسوں کو ہی ختم تو نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ یہ عید میلادالنبیؐ کے جلوسوں کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔

اس وقت جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے، اس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف حسینی قوت ہے اور دوسری طرف یزیدی قوت ہے۔ اہل سنت بریلوی حسینی ہیں چونکہ یہ امام حسین (ع) سے عشق کرتے ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ سانحہ راولپنڈی کے بعد سازش کو بھانپتے ہوئے شیعہ اور سنی اکٹھے ہوگئے اور دہشت گرد تنہا رہ گئے۔ اہل سنت برادران نے جمعہ کے خطبوں میں ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ جو بہت زیادہ ان کے حامی افراد تھے، انہوں نے بھی امن کی آواز بولنا شروع کر دی۔ اس سے پتہ چلا کہ ان کو یہ معلوم ہوگیا ہے کہ وہ شکست کھا رہے ہیں، لیکن کچھ دہشت گرد جو رہ گئے ہیں، یہ خودکشی کرنے کے چکر میں ہیں۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹی وی پر آ کر ہمارے دوستوں نے کافی اچھے پروگرام کئے اور ان کے مثبت جوابات دیئے۔ رابطہ مہم شروع ہوگئی۔ سیاسی جماعتوں سے ملے۔ اے این پی، مسلم لیگ قاف، تحریک انصاف، اہل سنت کے علمائے کرام اور مختلف اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی گئیں، تاکہ اس یلغار سے بچا جاسکے اور اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔

الحمداللہ بڑی حد تک اس پر قابو پا لیا گیا۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ قانون سازی ہونی چاہیے کہ صحابہ کرام، امہات المومنین، خلفائے راشدین اور اہل بیت علیہم السلام کے خلاف بات نہیں ہونی چاہیے اور اس پر قانون سازی ہونی چاہیے۔ دیکھیں پہلے یہ لوگ کہاں کھڑے تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں۔ پہلے کہتے تھے کہ عزاداری نہیں ہونے دیں گے، جلوس نہیں نکلنے دیں گے اور آج کہتے ہیں کہ قانون سازی ہونی چاہیے۔ مکتب کے اندر ہمارے فقہاء نے قانون سازی کر دی ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے، گناہ کبیرہ ہے۔ دہشت گرد کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے ہدف تک پہنچیں، لیکن اب وہ اتنی آسانی سے حاصل نہیں کرسکتے۔ ریاستی اداروں کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ اب پاکستان ایسی لڑائیوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب ریاستی اداروں اور سکیورٹی فورسز کو پتہ چل چکا ہے کہ کبھی بھی شیعہ سنی آپس میں ایک دوسرے کو نہیں مارتے ہیں بلکہ یہ ایک دہشت گرد طبقہ ہے جو یہ سارے کام کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس سارے واقعے میں ایم ڈبلیو ایم تنہاء کیوں رہی، باقی بڑی تنظیموں کو کیوں ساتھ نہ ملا سکی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ ہم نے سیاسی لوگوں سے روابط کئے۔ ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں، چاہے اس میں پیپلز پارٹی،
اے این پی و پاکستان کی تمام دیگر سیاسی جماعتیں سب سے یا تو خود جا کر ملے ہیں یا پھر ہمارے دوست ملے ہیں۔ اہل سنت علمائے کرام سے ملاقاتیں کی گئیں۔ اندرونی طور پر کوشش کی کہ اس وقت جتنی بھی شیعہ تنظیمیں ہیں، وہ سب آئیں اور اس واقعے کے خلاف اسٹینڈ لیں اور اس یلغار کا مقابلہ کرنے میں اپنا مؤقف بیان کریں۔ لاہور اور کراچی میں بانیان مجالس و عزاداران نے پریس کانفرنس کی۔ اسی طرح فیصل آباد میں بھی پریس کانفرنس کی گئی اور اندرونی طور پر ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اسی لیے ہم نے بھی کوشش کی کہ اپنے بزرگوں سے اور علمائے کرام سے رابطہ کریں۔ خود میں نے شیخ محسن صاحب کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ آج کل جو ملکی سطح پر حالات چل رہے ہیں، ہمارے دشمن اکٹھے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی اکٹھا ہونا ہوگا اور ہمیں بھی ان کے خلاف اسٹینڈ لینا ہوگا۔ جس پر شیخ محسن صاحب نے کہا کہ ہاں یہ کسی جماعت پر حملہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے مکتب و مذہب پر حملہ ہے اور ہمارے حقوق کو غصب کرنے کی تمام تر موومنٹ شروع ہوئی ہے۔ میں نے ان سے باقاعدہ ٹائم لیا اور ان سے ملاقات کی۔

ہماری موجودگی میں شیخ صاحب نے علامہ عارف واحدی صاحب کو فون کیا اور کہا کہ میں علامہ ساجد نقوی صاحب سے بات کرنا چاہتا ہوں، جس پر جواب ملا کہ وہ کسی میٹنگ یا کسی پروگرام میں مصروف ہیں اور بعد میں بات کرواتا ہوں۔ بعد میں شیخ محسن نجفی صاحب نے کہا کہ کل جامعہ الکوثر میں دن 12 بجے بیٹھیں گے اور آپ تشریف لے آئیں۔ اس وقت آئی ایس او کے مرکزی صدر اطہر عمران طاہر بھی ہمارے ساتھ تھے، جنہوں نے اس وقت حیدر آباد جانا تھا۔ شیخ صاحب نے ان کو بھی روک لیا۔ رات کو ہم نے شیخ صاحب سے رابطہ کیا تو شیخ صاحب نے فرمایا کہ آغا ساجد علی نقوی صاحب سے میری بات ہوئی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ کل صبح 9 بجے ان سے ملاقات کریں گے اور اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ جس پر ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے اکٹھا ہونا ہمارا ہدف ہے۔

اگلی رات پھر ہم نے شیخ صاحب سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ علامہ ساجد نقوی صاحب نے کہا ہے کہ چونکہ حافظ ریاض صاحب پاکستان میں نہیں ہیں، اس لیے جب وہ پاکستان آجائیں گے تو پھر انشاء اللہ عزیز
ہم مل کر کچھ بات کریں گے۔ علاوہ ازیں ہم نے علامہ حامد علی موسوی صاحب کے رفقاء کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ ہماری امام بارگاہیں جل چکی ہیں اور شہر کے اندر خوف و ہراس کی فضاء ہے اور ہمارے سارے مخالفین اکٹھے ہوچکے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی اکٹھا ہونا چاہیے اور آپس میں بات چیت کرنی چاہیے۔ اسی حوالے سے ہم آغا حامد علی موسوی صاحب سے ملنا چاہتے ہیں، جس پر جواب ملا کہ ہم آپ کی بات اوپر پہنچا دیتے ہیں۔ بعد ازاں دونوں تنظیموں نے پریس کانفرنسیں کیں اور اسٹینڈ لیا، یہ بےحد خوشی کی بات تھی کہ تینوں جماعتوں نے اس حوالے سے اسٹینڈ لیا۔ اس کے علاوہ مجلس وحدت مسلمین نے قومی اتفاق رائے کیلئے لاہور میں آل شیعہ پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا اور دشمن کو واضح پیغام دیا کہ عزاداری سیدالشہداء پر پابندی قبول ہے اور نہ ہی کسی ایسے ضابطہ اخلاق کو تسلیم کرتے ہیں جس میں شیعہ و سنی مسلمانوں کے عقائد کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ اے پی سی میں بلوچستان، خیبر پختونخوا، کشمیر، سندھ و شمالی علاقہ جات سے تنظیموں کی بڑی اچھی نمائندگی تھی۔

اسلام ٹائمز: چہلم امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے کیا پروگرام ہے، بعض لوگوں کی خواہش ہے کہ عزاداری اور میلاد النبی ؐ کے جلوس نہ ہوں یا پھر انکا روٹ تبدیل ہو جائے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: پورے پاکستان میں بالعموم اور راولپنڈی میں بالخصوص چہلم سیدالشہداء (ع) منایا جائے گا، چونکہ یہ عزاداری پر حملہ ہے اور اس حملے سے عزاداری کو محدود کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ لوگوں میں بڑا جوش و ولولہ ہے، رابطے ہو رہے ہیں، میٹنگز ہو رہی ہیں اور اربعین کا دن انشاءاللہ اچھے طریقے سے منایا جائے گا۔ دشمن نے یہ کوشش کی ہے کہ ہم ڈر جائیں اور اس عزاداری سے دستبردار ہو جائیں، لیکن دشمن یہ جان لے کہ اگر ہمیں عزاداری کی حفاظت کے لئے ایک کروڑ سے بھی زیادہ شہید دینے پڑے تو ہم دیں گے، لیکن کسی بھی صورت عزاداری سیدالشہداء پر حرف نہیں آنے دیں گے، ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے بازو کٹا کر بھی نواسہ رسول (ص) کے روضہ کی زیارت کی اور اس پیغام کو ہم تک منتقل کیا، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس پر ہم کوئی کمپرومائز کریں۔
خبر کا کوڈ : 332320
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش