0
Wednesday 24 Aug 2011 07:05

امت مسلمہ جب یکجان ہو کر قدس کی آزادی کی آواز اٹھائے گی، اسرائیل اور امریکہ کو اپنی دھرمی سے پسپا ہونا پڑے گا، علامہ امین شہیدی

امت مسلمہ جب یکجان ہو کر قدس کی آزادی کی آواز اٹھائے گی، اسرائیل اور امریکہ کو اپنی دھرمی سے پسپا ہونا پڑے گا، علامہ امین شہیدی
 علامہ محمد امین شہیدی مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں، اسلام ٹائمز نے اسرائیل کے ناپاک وجود، یوم القدس، فلسطین کا مستقبل اور دیگر اہم موضوعات پر ان سے انٹرویو کیا ہے، جو اسلام ٹائمز کے قارئین کے استفادے کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:سب سے پہلے آپ اپنے ابتدائی حالات زندگی کے بارے میں قارئیں کو آگاہ کریں، تعلیم کہاں سے حاصل کی اور عملی زندگی میں کیسے آمد ہوئی۔؟
محمد امین شہیدی:سب سے پہلے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے ان ایام کے حوالے سے تعزیت پیش کروں گا اور ساتھ میں شب ہائے قدر کے حوالے سے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان شبہائے قدر کی قیمتی ترین ساعات میں بندگی کے تقاضے پورے کرنے، اپنی باطنی دنیا کو ان ساعات اور ان ایام کی نورانیت سے منور کرنے اور دنیا و آخرت دونوں کے لئے اپنی تعمیر کرنے کی توفیق و سعادت نصیب فرمائے۔ والدین نے میرا نام محمد امین رکھا۔ پیدائش سنکیانگ چائنہ میں ہُوئی۔ والدین اور ان کے آباﺅاجداد کشمیری ہیں۔ بنیادی طور پر تجارت اور زراعت ان کا پیشہ رہا ہے۔ تقسیم پاک و ہند سے پیشتر مقبوضہ کشمیر (سری نگر اور بڈگام) کے علاقوں سے ان کا تعلق رہا۔ یہاں سے وہ مالِ تجارت لے کر چائنہ جایا کرتے تھے۔ چائنا کے تبت سے آگے جو مسلمان نشین علاقے ہیں آج کی دنیا میں اس خطے کو سِنکیانگ کہا جاتا ہے۔ اس کے تاریخی علاقوں میں کاشغر ہے، خوتنگ ہے، یارکن ہے۔ اس طرح بہت سے شہر ہیں جہاں بالعموم ”اوئی گور“ قوم بستی ہے۔ جو بولی وہاں پر رائج ہے وہ بھی ترکی ہے، تو اس اعتبار سے چونکہ ہمارے دادا یہاں سے مال ِتجارت لے کر جاتے تھے۔ یہ ان کا آبائی پیشہ تھا۔ اس اعتبار سے بنیادی طور پر ہمارا تعلق کشمیر سے ہے لیکن میری اپنی پیدائش چائنا کی ہے۔ 
جب تقسیم پاکستان ہوئی تو اُس وقت ہمارے والدین وہیں پر تھے۔ چونکہ وہ تقسیم کے پہلے والے environment سے گئے تھے اور ان کے پاس برٹش پاسپورٹ تھا، کیونکہ تب یہ سارا علاقہ برطانیہ کے زیرِ قبضہ تھا۔ جب پاکستان بن گیا تو اُنہوں نے واپس آنا چاہا۔ اُن دنوں وہاں پر کیمیونسٹ انقلاب آیا تھا۔ اس انقلاب کے اثرات رونما ہونا شروع ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد اسی برٹش پاسپورٹ پر ہم وہاں قیام پذیر رہے۔ لیکن جب انقلاب آیا اور اس انقلاب کے نتیجے میں تمام تر دولت لوگوں کی چھین لی گئی اور کیمیونزم نظامِ حکومت کا باقاعدہ آغاز ہوا تو اس کے بعد انہوں نے بھی علمِ بغاوت اُٹھایا اور کہا کہ ہم اپنے وطن پاکستان جانا چاہ رہے ہیں، اس میں رُکاوٹ ڈالنا ناقابلِ قبول ہے۔ تو 12 سال یہ گورنمنٹ سے لڑتے رہے۔ آخر کار فیصلہ ہو گیا اور اُن کو پاسپورٹ واپس دے دئیے گئے لیکن جب واپس آنے کا قصد کیا تو اس وقت ان کے پاس پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ چاروناچار یہ لوگ خچروں اور گھوڑوں پر اپنا سامان لاد کر دشوار گزار پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے بصورتِ قافلہ خنجراب پاکستان میں داخل ہُوئے۔ تھوڑی بہت جمع پونجی اور سونا لے کر یہاں سکونت اختیار کرنے کے لئے انہوں نے گلگت کی سرزمین کا انتخاب کیا۔ ہمارے آباواجداد اور دادا مرحوم اس سرزمین کو بلدِ اہلِ بیت ع سمجھتے تھے، یعنی اہلبیت ع کی سرزمین۔ اس بنا پر ان کی آرزُو تھی کہ دِینی زندگی ایک رُوحانی ماحول میں گزار سکیں۔ اِس علاقے کو اپنے آبائی خطہ کشمیر پر ترجیح دینے کا سبب یہی تھا۔
مَیں اُس وقت کمسن تھا یہ بات ہے ساٹھ کی دھائی کی۔ اس کے بعد باقاعدہ زندگی وہاں پر نئے سرے سے شروع ہُوئی۔ میرے باقی بہن بھائی گلگت میں پیدا ہوئے اور تعلیم بھی مَیں نے وہاں ڈگری کالج میں حاصل کی، ڈگری کالج کے بعد 85ء میں ایران سے ایک ٹیم حوزہ علمیہ میں داخلے کے لئے انٹرویو کرنے آئی۔ اس میں مختلف علاقوں کے اٹھارہ بیس نوجوان انٹرویو کے لئے آئے، لیکن جب ریزلٹ آیا تو انہوں نے صرف مجھے منتخب کیا تھا۔ 85 سے 95 تک میں ایران میں رہا۔ جہاں تک قم کی زندگی کا تعلق ہے تو وہاں کالج سے فارغ التحصیل لوگوں کی تعداد کم تھی، لہٰذا وہاں پر ہمارا اپنا ایک ماحول بنا، جس میں اُستاد مطہری کی کتابوں کا مطالعہ اور ان پر مباحث اور اس پر کام، ہم نے حوزوی دروس سے ہٹ کر کیا تاکہ طالبعلموں کے اندر دینی معارف کے حوالے سے ایک عمق اور مزید وسعت پیدا ہو کیونکہ  شہید مطہری نے جس طرح سے اسلام کو سمجھا اور بیان کیا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ اسی دوران میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا، پھر سلطان الافاضل کی ڈگریاں بھی لیں، تاہم ان ڈگریوں کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عملی زندگی کا تعلق لکھنے پڑھنے گفتگو کرنے اور اجتماعی معاملات سے تھا جہاں ڈگریوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ انسان کو اس کا ارادہ اس کا vision اور اس کی آرزوئیں زیادہ اہم ہوتی ہیں۔
اسلام ٹائمز :آغا صاحب آپ نے تصنیف و تالیف میں اپنے جوہر آزمائے یا خطابت میں۔؟
محمد امین شہیدی: (کسرنفسی سے)....مَیں نے کہیں پر جوہر نہیں آزمائے اور دونوں شعبوں میں ناکام رہا، البتہ لکھنے کا شوق ضرور ہے۔ رسمی خطیب تو نہیں ہوں، گفتگو اپنی استطاعت کے مطابق کر لیتا ہوں۔ چونکہ ذوق اور شوق تھا اس لئے اس ذوق اور شوق کی وجہ سے پڑھائی لکھائی کا سلسلہ جاری رہا اور مختلف کتب کا ترجمہ کیا۔ اب تک دو درجن سے زائد کتب کا ترجمہ میں کر چکا ہوں۔ بعض کتابیں چھپ گئیں اور بعض کا مسودہ پڑا ہوا ہے۔ جتنا وقت میسر ہو اس کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کی ضروریات کے مطابق مختلف قسم کے لٹریچر کا ترجمہ کرتا ہوں اور لوگوں تک پہنچانے کی جدوجہد جاری رہتی ہے۔ اس وقت بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
اسلام ٹائمز:21 اگست عالمِ اسلام کی تاریخ کا سیاہ دن ہے، جب غاصب صیہونیوں نے تاریخی مسجد اقصیٰ کو نذرِ آتش کیا، آپ کے خیال میں ان کی یہ گھناﺅنی حرکت کس بات کی غماز ہے۔؟
محمد امین شہیدی: بنیادی طور پر صیہونیت ایک ایسی لابی ہے جس کا مقصد دنیا پر غلبہ حاصل کرنا، دنیا کے اقتدار و سائل پر قبضہ اور اپنی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے کہیں پر دین کام آئے تو وہ دین سے استفادہ کرتے ہیں، کہیں پر قومیت کام آئے تو وہ قومیت سے کام لے لیتے ہیں کہیں پر لسانیت کام آئے تو وہ لسانیت سے استفادہ کر لیتے ہیں۔ چونکہ ان کی اپنی ideology اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہر ہتھیار ہر ذریعہ اور ہر وسیلہ استعمال کرنا ہے۔ اس حوالے سے وہ نعرہ تو یہی لے کر اُٹھے کہ ہم بنی اسرائیل کی قوم ہیں اور بنی اسرائیل کے مظلوم لوگوں کو ہم ایک سرزمین پر آباد کرکے ان کے حقوق ان کو دلائیں گے، لیکن اس نعرے کے ساتھ انہوں نے جو ظلم کی داستانیں رقم کیں ان کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے نہ عیسائیت میں اس کی گنجائش ہے اور نہ ہی ان کے اپنے دین و مکتب یہودیت میں ایسی بربریت، ظلم، وحشت اور گھناﺅنی حرکتوں کی کوئی گنجائش ہے۔ 
چونکہ ان کا مقصد ان کی خواہشات کی تکمیل اور دنیا کا اقتدار حاصل کرنا ہے، وہ اس حوالے سے خواب دیکھتے ہیں، لہٰذا اس خواب کی تکمیل کے لئے جہاں پر جو ظالمانہ کارروائی، چاہے کسی بھی قیمت پہ ہو، انہیں اس کی پروا نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہم آج کے دن میں دیکھتے ہیں کہ وہ بیت المقدس میں تخریب کاری شروع کر دیتے ہیں، وہاں پر مسجد کو آگ لگا دیتے ہیں، مسجد کے اندر تاریخی آثار کو جلا دیتے ہیں اور مسجد کے اندر اس محراب و منبر کو جلا دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے نزدیک دینی قدریں، دینی مراکز اور دینی آثار کی کوئی حیثیت اور کوئی قیمت نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو ان کے مقاصد کی تکمیل کی قیمت ہے۔ جس کی نگاہ میں ان کے اپنے دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہ ہو، اس کے لئے دینی قدروں کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔ جن افراد نے یہودیت سے نشوونما پا کر میدان میں قدم رکھا ہے اگر وہ یہودیت کے اپنے مقدسات کا احترام نہیں کرتے اور اس کو جلاتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ کتنا گھناﺅنا جرم کر رہے ہیں۔ عبادت گاہ کو جلانا، ممبر کو جلانا، انبیا ع کی قبور کی بے حرمتی کرنا، ان کی نگاہ میں جرم نہ ہو تو ان سے آ پ عیسائیت میں موجود قدروں اور اسلام میں موجود قدروں کی حفاظت کی امید کبھی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بیت المقد جیسی جگہ پر اس طرح کے ظلم و بربریت کا مظاہر ہ کر کے دنیا پر یہ بات عیاں کر دی کہ ان کا مقصد دین نہیں ہے، بلکہ ان کے صیہونی مفادات ہیں۔
اسلام ٹائمز:صہونیت کا ایک مفروضہ ہولوکاسٹ، جسے انہوں نے قانون کی شکل دی، جس کے مطابق یہ اپنے آپ کو مظلوم تصور کرتے تھے، لیکن فلسطینی عوام پر اِنسانیت سوز مظالم کے بعد ان کا یہ دعویٰ باطل ثابت ہوا ہے۔ اس بارے میں فرمائیں۔؟
محمد امین شہیدی: نظریاتی طور پر اسلام جب بات کرتا ہے تو کسی مقدس ہدف کے حصو ل کے لئے وہ غیر مقدس راہوں کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے مثلاً آپ یہ نہیں کر سکتے کہ کسی یتیم کی کفالت کسی گھر سے چوری کر کے کریں، مسجد بنائیں اور لوگوں کے گھروں سے ستون اتار کے لے آئیں۔ اسلام کہتا ہے کہ جو مقدس کام تم کرتے ہو، اس تک پہنچنے کا راستہ بھی مقدس ہونا چاہیے۔ صیہونیوں نے اس کے برعکس راستہ اختیار کیا۔ ان کی نگاہ میں جو چیزیں اہم ہیں اس کے لئے انہوں نے ہر جھوٹ کا سہارا لیا، تہمت کا سہارا لیا، ظلم کا سہارا لیا، بربریت کا سہار ا لیا۔ ہولوکاسٹ بھی اسی طرح سے ایک مسئلہ ہے۔
 ہولوکاسٹ میں جو تھیوری ہے وہ یہ ہے کہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کو بے دردانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ سوال یہ کہ ساٹھ لاکھ یہودی تھے کہاں؟ جن کو قتل کیا ہے، اور اگر قتل کیا ہے، فرض کریں ہٹلر نے یہ اقدام کیا، نازیوں نے کیا، روسیوں نے کیا یا کسی اور نے قتل کیا، اگر ایسا ہے کہ ساٹھ لاکھ یہودی قتل ہوئے تو اس جرم کی سزا فلسطین کے مظلوم بچوں کو دینے کا جواز کیا ہے؟ دنیا کی کونسی عدالت ہے جو اس بات کی اجازت دے کہ ظلم تو ہوا ہو جرمنی میں، ظلم ہوا ہو روس میں اور آپ اس کی سزا دیں فلسطین کی سرزمین میں، ان مظلوم مسلمانوں کو، یہ سو فیصد عقل انسانی کے خلاف ہے، شعور انسانی کے خلاف ہے، یہ ایک ڈرامہ تھا جس میں مغرب والے پوری طرح سے شامل تھے۔ تمام مغربی ممالک میں آج بھی ایسا نہیں ہے کہ ہولوکاسٹ جو اُن کی نگاہ میں بہت مقدس تھیوری ہے، دعویٰ ہے، اس کے خلاف کچھ کہنے یا اس کا انکار کرنے کی بعض ممالک میں سزا قید ہے، بعض میں ممالک میں جرمانے کی سزا معین ہے۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کا انکار کرنے سے کوئی جرمانہ عائد نہیں ہوتا۔ الہامی کتابوں کی بے حرمتی کرنے سے کوئی جرمانہ نہیں لگتا، حتٰی کہ انجیل اور زبور کی بے حرمتی کرنے والوں کی کوئی سزا کہیں بھی معین نہیں ہے، جبکہ یہ انہی کی مقدس کتب ہیں، لیکن ہولوکاسٹ کو تسلیم نہ کرنے کو وہ قابلِ سزا جرم سمجھتے ہیں۔ یہ طاقتیں عالم اسلام اور اس سرزمیں پر بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کو دوام دینا چاہتی ہیں، یہ ایک باطل پروپیگنڈا ہے، گویا ہولوکاسٹ کا حیلہ فلسطینیوں کے قتل عام کا پروانہ ہے۔
اسلام ٹائمز:دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست ہے، اس بارے میں فرمائیں۔؟
محمد امین شہیدی:بدر میں کم تعداد کے باوجود فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ فتح کربلا کے میدان میں بھی 72 کو نصیب ہوئی، اگرچہ وہ قتل ہوئے مگر آج پوری دنیا ان سے محبت کرتی ہے اور یزیدیت پوری دنیا میں گالی اور نفرت کا سمبل ہے، لہٰذا جنگوں میں اسلحہ اہم سہی، لیکن اسلحے سے  ایمانی حرارت کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کو شکست دینے کے لئے اسلحے کی نہیں بلکہ ایمانی حرارت کی ضرورت تھی، حزب اللہ نے اپنے چند ہزار مخلص جوانوں کے ذریعے اسے ثابت کر دکھایا، اس سے دنیا کو یہ سبق مل گیا کہ نہ صرف اسرائیل قابل شکست ہے بلکہ بقول سید حسن نصر اللہ کے اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔
اسلام ٹائمز:اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے قرارداد لائی جا رہی ہے، جس کو 140 ممالک نے ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
محمد امین شہیدی: اصل بات ہے اسلامی امہ کی یکجہتی کی۔ اب امت مسلمہ کی دو categories ہیں۔ ایک امت مسلمہ کے افراد ہیں اور ایک امت پر مسلط حکمران ہیں۔ پوری امت کے دل فلسطینوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر سامراجی گماشتہ حکمران استعمار کے ایجنٹ اور اپنے بیرونی آقاﺅں کے مفادات کے محافظ ہیں۔ استعماری طاقتیں کبھی بھی نہیں چاہتیں اس خطے میں ایک مسلمان ریاست معرض وجود میں آئے۔ اب یہاں دو صورتیں ہیں کہ یہ جدوجہد جاری رہے اور خود اس کے نتیجے میں اسرائیل کا وجود ختم ہو اور پوری مقبوضہ سرزمیں پر فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے اور اسلامی حکومت قائم ہو۔ یہ ideal situation ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے آثار کم نظر آتے ہیں۔ حکمران ساتھ نہیں دیتے، سعودی عرب اور غلامانہ ذہنیت کی حامل دیگر عرب ریاستوں کی صورتِحال آپ کے سامنے ہے، جو حق کے لئے کمربستہ مسلمانوں کو پیچھے سے چھرا گھونپنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اُردن والے اسرائیل کا ساتھ دیتے ہیں۔ مصر میں اگرچہ حکومت تبدیل ہو چکی ہے، لیکن حسنی مبارک کی باقیات اب بھی وہاں سرگرم عمل ہیں۔ لہٰذا کوئی بہت زیادہ امید ہمیں نہیں رکھنی چاہتے۔ 
جہاں تک اقوام متحدہ میں کسی ایسی قرارد اد پر دستخط ہونے کی بات ہے تو فرض کریں یہ قرارداد لائی جاتی ہے، جس سے فلسطینی cause کی پوری دنیا میں برتری ثابت ہو گی اور ان کی داد رسی ہو گی، لیکن سوال یہ ہے کہ جن ممالک کے ہاتھوں میں ویٹو پاور ہے، وہ اس قرارداد کو روکیں گے اور تمام ممالک جنہوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا ہو گا ان کا استحقاق مجروح کریں گے اور اسرائیل کو تحفظ دیں گے۔ لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ تبلیغ کے ذریعے سے، پروپیگنڈا کے ذریعے سے، میڈیا کے ذریعے سے لوگوں کو mobilize کرنے کی ضرورت ہے، جس سے امریکہ اور اسرائیل پر pressure بڑھے گا۔
 امام خمینی رہ نے جب یوم القدس کو منانے کا اعلان کیا، اُس وقت ان کے پیش نظر یہی بات تھی کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک دن اسرائیل کے خلاف اکٹھے ہو کر ان کی ناجائز خواہشات کے خلاف آواز بلند کریں اور قدس شریف کی رہائی کے لئے اسکی آزادی کے لئے جدوجہد کریں۔ جب ایک ارب سے زیادہ لوگ یکجہتی کے ساتھ آواز اٹھائیں گے تو اس کے اثرات سامنے آئیں گے۔ امریکہ و اسرائیل نے اس آواز کو دبانے کوشش کی اور سعی کی کہ اس آواز کو ایران تک محدود کر دیا جائے، لیکن یہ اللہ کا کرم ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں یوم القدس مسلم امہ کی ایک شناخت کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس میں شیعہ سنی دونوں اکٹھے ہو کر کسی نہ کسی شکل میں فلسطینیوں کے ساتھ اور قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند کرتے ہیں۔ ایک دن آئے گا جب امت مسلمہ پوری طرح یکجان ہو کر قدس کی آزادی کے آواز اٹھائے گی پھر اسرائیل اور امریکہ کو اس ہٹ دھرمی سے پسپا ہونا پڑے گا اور انہیں سر اُٹھانے کی جرات نہیں ہو گی۔
جو لوگ نفسیاتی جنگ جیت جاتے ہیں وہ اسلحے کے میدان میں بھی خود بخود جیت جاتے ہیں یہ انسانی معاشرے کی مجموعی نفسیات ہے، اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے صیہونیوں نے سب، سے پہلے دنیا بھر میں نفسیاتی جنگ شروع کی۔ پروپیگنڈا وار شروع کی اور اس میں اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے۔ انہوں نے سب سے پہلا کام یہی کیا اور اس میں امریکیوں اور مغربی ممالک نے پوری طرح سے ان کا ساتھ دیا۔ ساٹھ کی دہائی میں عرب اسرائیل کی جنگ ہوئی، اس جنگ میں جن ممالک نے حصہ لیا وہ خود امریکہ کے under pressure تھے، لہٰذا وہ یہ جنگ ہار گئے اور اس نفسیاتی جنگ کو مزید تقویت ملی کہ اسرائیل دنیا کی چوتھی بڑی قوت ہے۔
 اب جو بدلے ہوئے حالات عرب ممالک رونما ہو رہے ہیں، ان میں ہر ملک کی اپنی ایک خاص situation ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس ملک کا تجزیہ ضروری ہے لیکن مجموعی طور پر یہ ایک حقیقت ہے کہ امام خمینی رہ جو بیداری کی آواز تیس سال قبل بلند کی تھی، آج کی نسل اس آواز پر لبیک کہہ کر میدان عمل میں آ چکی ہے اور آج کی نسل کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ امام خمینی رہ کی آواز عزت نفس کی آواز تھی اور قوموں کی بیداری کے لئے بلند ہُوئی تھی۔ آج کی نسل اس امر سے بخوبی آگاہ ہے۔ ان کے حکمران امریکی کاسہ لیس ہیں اور اپنی قوموں کی عزت سے کھیلتے ہیں، یعنی قوموں کو اپنی ذلت کا احساس اپنے حکمرانوں کے رویوں سے ہو چلا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی مفادات کے محافظوں کا قلع قمع کیا جائے، تاکہ اسرائیلی ریاست خود اپنی موت مر جائے اور انشاءاللہ وہ دن ضرور آئے گا۔
اسلام ٹائمز:دُنیا کے مختلف حصوں سے جو امدادی کارواں اور فلوٹیلاز فلسطینیوں کی مدد کے لئے جا رہے ہیں، آ پ کیا سمجھتے ہیں ان کا خاطر خواہ فائدہ ہو گا۔؟
محمد امین شہیدی:یقینی طور پر اِس کے اثرات ہوں گے کیونکہ جب پوری دنیا میں ایک بیداری کی لہر اٹھتی ہے اور جب ایک کاروان چلتا ہے تو اس کا ایک مقصد اور پیغام ہوتا ہے۔ جن جن آبادیوں سے یہ کاروان فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی و یگانگت کا پرچم ہاتھوں میں لے کر اور ان کی حمایت کا نعرہ زبانوں پہ جاری کرتے ہوئے گزرتا ہے تو اس علاقے میں تبدیلی بھی آتی ہے اور لوگوں میں Awareness بھی پیدا ہوتی ہے۔ لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ ہماری ایک ذمہ داری ان قدروں کی حفاظت اور فلسطینیوں کی حمایت بھی ہے۔ اس سے دنیا کو پتہ چلے گا کہ فلسطین کا مسئلہ ایک مردہ مسئلہ نہیں ہے اور اس کو بزور اسلحہ مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس سے وسیع پیمانے پر یہ احساس اُجاگر ہو گا کہ دنیا کے تمام باضمیر لوگ مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ انشاءاللہ اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
اسلام ٹائمز:محصورین پاراچنار کے لئے دوسرا کاروان مجلسِ وحدتِ مسلمین روانہ کر رہی ہے۔ اس کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات سے آگاہ کریں۔؟
محمد امین شہیدی: ہمارا یہ دوسرا کاروان جو آٹھ ٹرکوں پر مشتمل ہو گا، جس میں 6000 آٹے کی بوریاں ہیں۔ انشاءاللہ 23 رمضان المبارک کو شب قدر گزار کے یہ کاروان وہاں پہنچ جائے گا اور وہاں کے مظلوم اور مجبور لوگوں میں یہ تقسیم بھی ہو گا۔ پہلا کاروان 11 ٹرکوں پر مشتمل تھا، جس کا سامان وہاں کے تین ہزار مستحق گھرانوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس دوسرے کاروان کے بعد ہم نے ایک اور مہم شروع کی ہے جس میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں فطرانہ، خمس، زکوٰة، صدقات اور باقی مدوں میں جو لوگ غریبوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ آئیں اور پاراچنار کی مظلوم قوم کی حتی المقدور مدد کریں، تاکہ عید کے بعد شوال میں تیسرا کاروان پاراچنار کی طرف لے جایا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 94045
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش