0
Tuesday 15 Nov 2011 00:12

فاٹا میں فورسز کی کارروائیاں، ہلاک ہونیوالوں کی اکثریت جرائم پیشہ

فاٹا میں فورسز کی کارروائیاں، ہلاک ہونیوالوں کی اکثریت جرائم پیشہ
اسلام ٹائمز۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان پر 2001ء میں حملہ آور ہونے کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقے بری طرح متاثر ہوئے، یہاں صدیوں سے آباد پرامن قبائل جنہیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ملکی سرحدوں کا بغیر اجرت کا محافظ قرار دیا تھا وہ آج بھی حکمرانوں کی امریکہ نواز پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، پاراچنار سے شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی سے باجوڑ تک ایک عجیب سی صورتحال ہے، 2004ء سے اب تک سیکورٹی فورسز کی جانب سے دہشتگردوں کیخلاف قبائلی ایجنسیوں میں آپریشنز کئے گئے ہیں، جن میں ا ب تک ہزاروں دہشتگرد اور شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں، گزشتہ دو ماہ کے دوران فاٹا میں فورسز کی مختلف کارروائیوں میں ہلاک ہونیوالوں کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے عناصر کی ہے جو ملک کے مختلف علاقوں میں قتل، اغواء برائے تاوان اور مسلح ڈکیتی کی وارداتوں کے بعد قبائلی علاقوں میں روپوش ہو گئے تھے، ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ انکشاف ملک کے انٹیلی جنس اداروں نے وفاقی وزارت داخلہ کو بھجوائی گئی رپورٹس میں کیا ہے۔
قبائلی علاقوں میں گزشتہ دو ماہ کی کارروائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 300 سے زائد بتائی جا رہی ہے، تاہم انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق ان افراد کی اکثریت مختلف وارداتوں میں ملوث تھی اور وارداتوں کے بعد جرائم پیشہ عناصر قبائلی علاقوں میں روپوش ہو گئے، جہاں وہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر تنظیموں میں شامل ہوئے، جو انہیں قتل، اغواء برائے تاوان اور دیگر سنگین وارداتوں میں استعمال کر رہی ہیں، قتل، اغواء اور مسلح ڈکیتی جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث ان ملزمان کو پولیس گرفتار نہیں کر سکی، جس کے بعد متعلقہ عدالتوں نے انہیں اشتہاری قرار دیا ہے، وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ان اشتہاری ملزمان کی زیادہ تر تعداد قبائلی علاقے وزیرستان میں روپوش ہے، انٹیلی جنس رپورٹس میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائی کی وجہ سے ان تنظیموں کے پاس فنڈز کی کمی ہو گئی ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ان اشتہاری ملزمان کو اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق فاٹا میں پناہ لینے والے اشتہاری ملزمان میں اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے، جن کی تعداد 3000 زائد ہے جبکہ صوبہ سندھ میں ایسے اشتہاریوں کی تعداد 1000 سے بھی زیادہ ہے، صوبہ خیبر پختونخوا کی عدالتوں میں اشتہاری قرار دیئے جانے والے ملزمان کی تعداد 400 سے زائد ہے، انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے وزارت داخلہ کو ارسال کی گئی رپورٹس میں کہا گیا کہ ان اشتہاری ملزمان میں سے کچھ شدت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں ہلاک بھی ہو چکے ہیں، جن میں زرزمین، عطا اللہ، سعید عباسی، شمیم جٹ، ظفیر احمد، انصر محمود اور ہدایت خان شامل ہیں، یہ افراد پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں قتل اور بینک ڈکیتی کے مقدمات میں اشتہاری قرار دیے گئے تھے، تاہم اس رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ ان افراد کو عدالتوں نے کب اشتہاری قرار دیا تھا؟
خفیہ اداروں کی رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ان افراد کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات تھے، ان رپورٹس میں پولیس کی جانب سے ان افراد کی گرفتاری میں حائل رکاوٹوں کے علاوہ پولیس کی بے بسی کا بھی ذکر کیا گیا، واضح رہے کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمہ میں تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود سمیت دیگر 7 افراد کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا، تاہم پنجاب پولیس کی جانب سے صرف ایک اہلکار نے پشاور جا کر قبائلی علاقوں کے سیکرٹریٹ میں عدالتی وارنٹ جمع کروائے، جنہیں اس علاقے میں آویزاں نہیں کیا گیا، جہاں بیت اللہ محسود یا دیگر ملزمان رہائش پذیر تھے۔
 اس ضمن میں پولیس کا موقف ہے کہ تین پولیس انسپکٹرز کو ان عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے وزیرستان بھجوایا گیا تھا جو متعلقہ علاقے میں اشتہار لگا کر آئے تھے، بینظیر بھٹو کے قتل مقدمہ میں اشتہاری قرار دیئے جانے والے سات ملزمان میں سے بیت اللہ محسود سمیت پانچ افراد ڈرون حملوں اور فوجی کارروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق دو ملزمان ابھی زندہ ہیں، جن میں اکرام اللہ اور فیض محمد شامل ہیں۔
شہر کراچی میں گذشتہ دو سال کے دوران ہونے والی بعض بنک ڈکیتیوں کے حوالے سے بھی انکشاف ہوا تھا کہ ان وارداتوں میں ایسے عناصر ملوث ہیں جن کے کالعدم اور دہشتگرد تنظیموں کیساتھ تعلقات ہیں، انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ کو پیش کی جانے والی رپورٹس بھی ایسے ہی حقائق کی طرف اشارہ کر رہی ہیں، ملک میں دہشتگردی اور جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث ملکی سلامتی کے اداروں کیساتھ پولیس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، اس کے علاوہ حکومت کو بھی دہشتگردی اور جرائم کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس حوالے سے سب سے اہم امر ملک اور قوم کے مفاد میں پالیسیاں تشکیل دے کر ان پر من و عن عمل کرنا ہے، تاکہ پہلے جرائم کی ان بڑھتی ہوئی وارداتوں پر قابو پایا جائے، جو دہشتگردی کی وجہ بن رہی ہیں اور پھر دہشتگردی کے اس عذاب سے جان چھڑائی جائے، جو ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 113719
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش