0
Monday 12 Nov 2012 22:38

اتحاد امت کانفرنس، اتحاد کا ٹھنڈا جھونکا اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے لئے روڈ میپ

اتحاد امت کانفرنس، اتحاد کا ٹھنڈا جھونکا اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے لئے روڈ میپ
رپورٹ: فیصل عمران چوہدری

امت مسلمہ میں اس وقت ترک، کرد، عرب، عجم، فارسی، پنجابی، پشتون، سندھی، بلوچ، مہاجر کی بنیاد پر فساد پھیلایا جارہا اور قتل و مقاتلہ کی نوبت پہچ چکی ہے۔ اور دوسری طرف طرف شیعہ سنی، بریلوی، دیوبند، مقلد غیر مقلد، اور سلفی اور صوفی کے جھگڑے کھٹرے کر دئے گئے ہیں، درباروں اور زیارات گاہوں، مساجد و امام بارگاہوں میں اجتماعات پر بم دھماکے کر کے نے گناہ افراد کا خون بہایا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کے آپس کے اختلافات کو ہوا دے کر دشمنی اور قتل و قتال تک نوبت پہچ جائے۔ ایسے وقت میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی جانب سے عالمی اتحاد امت کانفرنس کا انعقاد امت مسلمہ کے لئے ٹھنڈے جھونکے سے کم نہیں ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے زیراہتمام منعقد ہونے والی "عالمی اتحاد امت کانفرنس" میں مسلم دنیا کی اسلامی تحریکوں کے مختلف قائدین، دینی اور مذہبی اداروں کی سرکردہ شخصیات، تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء، مشائخ اور ملک کی بڑی درس گاہوں کے سجادہ نشینوں اور متعلقین کی بڑی تعداد میں شرکت نے امت کا ایک چہرا پیش کیا ہے اور امت مسلمہ کا امت واحدہ ہونے کا احساس بھی دلایا اور دوسری طرف دنیا کو امت کی طرف سے عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی باہمی تعاون کے ساتھ ساتھ ایک پر امن عالمی نظام تشکیل دینے کی دعوت بھی دی۔
 
اس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں اس امر کا اعلان کیا گیا کہ امت مسلمہ کی اصلی شناخت اسلام اور صرف اسلام ہے اور یہی ہماری وحدت کی بنیاد اور دنیا اور آخرت میں ہماری کامیابی کی ضامن ہے۔ کانفرنس کے دوسرے روز کی نشست میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقد ہوئی، جس میں خواص افراد کی شرکت تھی، میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی اتحاد امت کانفرنس نے آیت اللہ محسن اراکی کی تجویز کے مطابق اسلامی تحریکوں کے درمیان رابطوں کے فروغ اور موثر وحدت و یکجہتی کیلئے ملی یکجہتی کونسل کی طرز پر عالمی فورم کے قیام کیلئے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی، اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ، 2 ہزار سے زائد ممتاز و جید علمائے کرام نے انتخابات میں لادینی قوتوں کا راستہ روکنے کیلئے دینی و مذہبی جماعتوں کے درمیان انتخابی مفاہمت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ قوم کو دینی و مذہبی امیدواروں کو ووٹ دینا ہو گا۔ مذہبی و دینی جماعتوں کو ایک ہو جانا چاہیے۔ سیکولر حکمرانوں کے ایجنڈے میں تعاون فراہم کرنے کا راستہ بھی رکنا چاہیے۔ 1971ء میں پاکستان کی تقسیم کو روکنے والوں کی بنگلہ دیش میں گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان اور تمام اسلامی ممالک بنگلہ دیش میں اسلامی تحریکوں کو کچلنے کا نوٹس لیں۔ امریکہ اور بھارت بنگلہ دیش کو لادین ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار کانفرنس کے دوسرے روز چیلنجز،  مواقع اور مستقبل کے روڈ میپ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا گیا۔

ملی یکجہتی کونسل کے صدر قاضی حسین احمد نے کہا کہ اتحاد اور یکجہتی کا فارمولا بنانے کی ضرورت ہے کانفرنس کو نتیجہ خیز بنانے کے حوالے سے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ایران، ترکی اور افغانستان کے مندوبین کی جانب سے اہم تجاویز سامنے آئی ہیں۔ ترکی کی جانب سے وسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ شام اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہے، مسلمان مسلمانوں سے لڑ رہے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کی براہ راست مداخلت کا خدشہ ہے۔ افغانستان کی طرح امریکہ وہاں بھی اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، ان حالات میں بڑے اسلامی ممالک متحرک ہوں اور مشاورت سے ایسا راستہ تجویز کریں کہ نیٹو اور امریکی مداخلت سے بچ جائیں اور وہاں امن و خوشحالی پیدا ہو سکے۔

بنگلہ دیش کی صورت حال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ خطہ اب بھی ہمارے دلوں میں بستا ہے۔ 1971ء میں پاکستان کو ایک رکھنے کے لیے جن لوگوں نے قربانیاں دی تھیں وہاں ان لوگوں کو گرفتار کرکے یہاں 80 سالہ بزرگ پروفیسر غلام اعظم پر بھی مقدمہ چلایا جا رہا ہے، اور حکومت انہیں سزائے موت دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان، تمام اسلامی ممالک اور اپنی فوج سے کہنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں ان لوگوں نے بقاء کی جنگ لڑی تھی اور سب سے زیادہ تو اس معاملے پر فوج شامل تھی۔ ان لوگوں کو بنگلہ دیش کی حکومت سے تشدد سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ امریکہ اور بھارت بنگلہ دیش کو بھی سیکولر اور لادینی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے دینی قوتوں کو کچلنے کے لیے گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ ظلم کا نوٹس لیا جائے اور بنگلہ دیش کی حکومت کو اس سے باز رکھنے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے۔

ایران، ترکی، مصر اور سعودی عرب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شام کے معاملے کو عرب و عجم کا معاملہ نہ بنائیں۔ اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا اقدام اٹھایا جائے۔ او آئی سی انہی مسائل کے لیے بنی ہے۔ وہ خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے، اپنی افادیت ثابت کرے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بھی عالم اسلام کردار ادا کرے۔ ان کی رہائی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کیونکہ انہیں حکومت نے ہی امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ اپنے شہریوں کو دشمن کے حوالے کرنے اور اپنے لوگوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے سے بڑا کوئی جرم نہیں ہو سکتا۔ حکومت اس جرم کی تلافی کرے اور عافیہ صدیقی کو واپس لایا جائے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ دینی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے مفتی رفیع عثمانی نے مجھے فون کیا تھا۔ دینی جماعتوں اور شخصیات کو انتخابات میں منتشر نہیں ہونا چاہیے۔ انتخابات میں سیکولر قوتوں اور اسلام پسندوں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ قوم کو دینی و مذہبی امیدواروں کو ووٹ دینا ہو گا۔ مذہبی و دینی جماعتوں کو ایک ہو جانا چاہیے۔ تاکہ عوام میں بھی اس حوالے سے کوئی کنفیوژن پیدا نہ ہو۔ اور جب ہم اکٹھے ہوئے تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کے حوالے سے کسی کو کوئی شکایت کا موقع نہیں ملا تھا۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا کہ جید علمائے کرام آئندہ کے حوالے سے تجاویز دیں تاکہ ان پر عملدرآمد کے بارے میں کسی واضح لائحہ عمل کا اعلان ہو سکے۔ کسی بھی تحریک کا اعلان کرنے کے بجائے یہ معاملہ ہم خیال و دینی و مذہبی جماعتوں پر چھوڑ دیا جائے، عوامی تحریک انہی کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ کسی فورم کے بس میں نہیں ہے کہ کئی محاذوں پر کام کر سکے۔ اتحاد و اتفاق کی برکت سے آگاہ ہیں اور اس سے قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ووٹ تقسیم نہ ہوں اس حوالے سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا ہو گا۔ وقت کے طاغوت کا راستہ روکنا ہے کیونکہ طاغوت زندگی کے ہر مورچے اور محاذوں پر موجود ہے۔ اور اس نے اہل دین سے خود کو منوایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحاد کی بات کرتے ہوئے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اس بات کی نگرانی ہونی چاہیے اور موثر میکانزم ہونا چاہیے۔ زرداریوں کے ایجنڈے میں تعاون کا راستہ رکے اس حوالے سے پوچھ گچھ بھی ہونی چاہیے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ جائزہ لیے بغیر کوئی کام نتیجہ خیز نہیں ہو گا۔ زرداری اور وقت کے سیکولر کو سمجھا جائے۔ دینی قوت کو کسی اور کے پلڑے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اور جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر عملدرآمد نہ ہو تو اس پر محاسبہ بھی ہونا چاہیے۔ آنے والے دنوں میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا ہے یہ بھی سوچنا ہے کہ جو دینی گروہ انتخابی سیاست میں حصے نہیں لیتے ایسے گروہوں سے رابطے کا میکانزم ہونا چاہیے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ منبر و محراب کو ووٹ کے استعمال کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا۔ اس سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ممتاز عالم دین جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ کونسل کے ذریعے امت مسلمہ کو ایک ایسے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی تمناء پوری ہو رہی ہے جہاں مذہبی، سیاسی مسائل اور باہمی تنازعات کا بنیادی سبب تلاش کرکے مسلمانوں کو انتشار اور اختلاف سے بچایا جا سکے۔ مسلمانوں نے کبھی براہ راست دشمنوں سے شکست نہیں کھائی۔ اپنے باہمی انتشار نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم سب کا یہی مقصد ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کو ممکن بنایا جائے۔ تاہم زمینی حقائق یہی ہیں کہ مسلمانوں میں انتشار بڑھ رہا ہے۔ محص وحدت کا نعرہ لگانا اور نظریاتی طور پر اس اصول کو بیان کرنا کافی نہیں ہے بلکہ چیلنجز کی وجوہات کا ادراک کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ملی یکجہتی کونسل اس میں سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ عالم اسلام کے اہم مسائل میں فلسطین، کشمیر، افغانستان ہیں۔ اس وقت فوری نوعیت کا مسئلہ برما کے مسلمانوں کا ہے، وسیع پیمانے پر مظالم ڈھائے جار ہے ہیں۔ عالم اسلام ان کی مدد کے لیے موثر اقدام کرے۔ اس بارے میں امدادی کمیٹی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ جو بھی لوگ ضابطے سے انحراف کریں وہ مسلک ایسے لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان کرے۔ سب کا اتفاق ہے کہ اسلام کو بالادست ہونا چاہیے۔ دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ کم ازکم اتنی مفاہمت پیدا تو کریں کہ انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ کیونکہ فیصلہ کن انتخابات ہوں گے۔ ملک کو سیکولر طاقتوں کے حوالے کردیا جائے یا ان لوگوں کو اقتدار میں لایا جائے۔ جو ملک کو نظریاتی بنیادوں پر سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام کی بالادستی پر یقین رکھنے والی حکومت اس وقت تک موجود میں نہیں آسکتی جب تک مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کرنے سے نہ روکا جائے۔ دینی جماعتوں کے آپس میں مدمقابل آنے سے سیکولر قوتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ سیکولر عناصر کے خلاف ایک آواز بننے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ووٹوں کی تقسیم کیوجہ سے زخم کھائے ہیں۔ سب مجرم ہیں۔ متحدہ مجلس عمل نے بہتر نتائج دئیے تھے۔ دست و گریبان رہے تو سیکولر طاقتوں کے علاوہ کسی کو فائدہ نہیں ہو گا۔ نشستوں کی تقسیم کو تنازعہ نہ بنایا جائے۔ کسی جماعت کو اس حوالے سے نقصان ہوتا ہے تو اللہ کی خاطر اسے برداشت کیا جائے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ میرے نزدیک کسی مسلک چاہے وہ بریلوی ہی کیوں نہ ہو سیکولر کی حکومت سے ہزار ہا درجے بہتر ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ مسلمانوں کی آزادی اور خود مختاری کو ملیا میٹ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں اتحاد امت ناگزیر ہے۔ اسلامی تحریکوں کو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ فلسطین، مشرق وسطیٰ، کشمیر جنوبی ایشیاء اور افغان تنازعہ خطے کے بھی اہم مسائل ہیں۔ یہ مسائل مسلمانوں کی زندگی اور موت ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ عالمی استعمار عالمی اداروں کو اپنی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنا چکے ہیں۔ استعمار کے مقابلے میں ایک سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا سیاست میں دینی جماعتوں کی ہم آہنگی کی ضرورت سے کوئی انکار نہیں کر سکتی۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ دینی جماعتوں کو مروجہ سیاست کے بجائے اصول اور کردار کی بنیاد پر ایسا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے غلبہ کی راہ ہموار ہو سکے۔ ایرانی مندوب اور چہار باغ میں ایک بڑے مدرسے کے مہتمم علامہ عبدالرحمان ملازحی نے کہا کہ اتحاد امت کے بارے میں کانفرنس استعماری قوتوں کی شکست ہے۔ ایران کے بھائیوں کو پاکستان کے علماء کرام کی ان کاوشوں سے آگاہ کروں گا۔ ہم سب کی زندگیاں اسلام کے لیے وقف ہونی چاہیئں۔ نبی پاک (ص) کی تعلیمات کے مطابق صفات جن میں علم، تقویٰ کلیدی ہیں کو اختیار کرنا ہو گا۔ اسلامی تحریک کے سیکرٹری جنرل شیخ علامہ عارف واحدی نے کہا کہ امت میں مشترکات بہت زیادہ ہیں۔ عظمت و سربلندی مسلمانوں کے لیے ہے، دشمن کو پہچانیں۔ مسالک کی توہین جرم ہے۔ عوام میں بھی یہ پیغام جانا چاہیے کہ ملک میں اس طرح کی کانفرنسوں کو سالانہ بنیادوں پر ہونا چاہیے۔

جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے عربی میں خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔ وفاق المدارس سلفیہ کے سربراہ مولانا یاسین ظفر نے کہا کہ اصل معاملہ مسائل کا حل نکالنا ہے۔ تعلیمی، معاشی، دفاعی مسائل کے ساتھ وحدت کی کمی ہے۔ اشاعت و التوحید والسنتہ کے مولانا طیب نے کہا کہ علماء کرام وارث انبیاء (ع) ہیں۔ ذہنی اصلاحی انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ظلم و فساد کی ناانصافی سے دنیا کو نجات حاصل ہو۔ شر و فساد کی جگہ امن وسلامتی ہو۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر و ملی یکجہتی کونسل کشمیر کے سیکرٹری جنرل عبدالرشید ترابی نے کہا کہ بھارتی حکومت نے قائد حریت سید علی گیلانی کو سفری دستاویزات دینے سے انکارکر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ کانفرنس میں شریک نہ ہو سکے۔ انہوں نے شرکاء کانفرنس اور منتظمین کے لیے نیک تمناؤں اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ننگی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ تمام بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ دس ماہ سے سید علی گیلانی کو نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی گئی۔ قائدین حریت کو عمرے اور حج کی سعادت کے لیے جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ کانفرنس سے اہل کشمیر کو بڑا حوصلہ ملا ہے۔ اسلامی تحریکوں نے ہمیشہ کشمیریوں کی پشت بانی کی ہے۔ ساری دنیا کی نظریں مملکت پاکستان پر ہیں۔ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوتا تکمیل پاکستان نہیں ہو سکتی۔ سارے مظلومین اسلام آباد میں مضبوط اور مجاہدانہ کردار کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مضبوط پاکستان ہی کشمیر کی آزادی اور افغانستان میں قیام امن کا ضامن ہو سکتا ہے۔ ساری توقعات پاکستان سے وابستہ ہیں۔ اس موقع پر کل جماعتی حریت کانفرنس آزادکشمیر شاخ کے کنوینئر غلام محمد صفی نے کانفرنس کی کامیابی کے بارے میں حریت رہنما سید علی گیلانی کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ سید علی گیلانی نے مطالبہ کیا ہے کہ مختلف خطوں سے قابض اور جارح افواج کی بے دخلی کے لیے عالمی برادری اقدامات کرے۔
 
اسلامی پارٹی آف ملیشیا کے ڈائریکٹر رکن اسمبلی داتو قمر دین جعفر نے کہا کہ کانفرنس میں جس اسلامی یکجہتی و وحدت کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ مسلمان حکمرانوں بالخصوص امت مسلمہ کے لیے مثالی ہے۔ مسلمانوں میں یکجہتی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک سلگتے مسائل سے دوچار ہیں۔ جن کی شدت بڑھ رہی ہے۔ افغان تنازعے کی وجہ سے بھی خطے میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔ میانمر کے مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کو نذر آتش اور انہیں بے دخل کیا جا رہا ہے۔ مسلم معاشروں اور اسلامی تحریکوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اہم اسلامی ملک ہے۔ امہ کو اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہے۔ ملیشیا اور ترکی کی ترقی سب کے لیے رول ماڈل بن سکتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے ذریعے اسلامی گروپوں کی کامیابی کی خواہش رکھتے ہیں۔

تاجکستان کے مندوب و تاجک اسمبلی کے رکن ڈاکٹر محی الدین کبیری نے کہا کہ ہم سب کو پاکستان بالخصوص یہاں کی اسلامی تحریکوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ ان تحریکوں کا ہمیں ہمیشہ تعاون حاصل رہا ہے۔ وفاق المدارس العربیہ کے نائب صدر مولانا عبدالرزاق سکندر نے کہا کہ اسلام کے دفاع کے لیے ہم سب کوشاں ہیں، اجتماعی کوششوں سے آگے بڑھنا چاہیے۔ افغان مندوب محمد زمان مزمل نے کہا کہ مسائل کے حل کے بارے میں عالم اسلام متحرک کیوں نہیں ہوتا۔ ہمیں امن و سلامتی کے حوالے سے جارح قوت کا سامنا ہے امہ کے پاس کیا کچھ نہیں ہے، ہماری مدد کے لیے آئے۔ اتحاد رحمت ہے اور انتشار سے بچنا ہو گا۔ ترکی کی اپوزیشن جماعت سعادت پارٹی کے سربراہ اوغورزھان اصل ترک نے کہا کہ عالم اسلام کو شام کا مسئلہ خود حل کرنا ہو گا۔ ظالموں کی نشاندہی ہونی چاہیے۔ تاہم نیٹو اور امریکی فوج کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور ہم سب کو شام میں بیرونی مداخلت کی مخالفت کرنی چاہیے۔ مظالم کا خاتمہ ضروری ہے۔ مشاورت سے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اسلامی تحریکوں کے درمیان رابطوں کے فروغ کے لیے کوئی میکانزم قائم کرنے کی تجویز دی۔

ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل حافظ حسین احمد نے مختلف ایشوز کے بارے میں کونسل کے تحت قائم پانچوں کمیشن کی سرگرمیوں سے شرکاء کانفرنس کو آگاہ کیا اور کہا کہ پانچوں وفاق المدارس اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی معاونت سے خطبات جمعہ میں ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ سیکولر جماعتوں کے نمائندے پارلیمنٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی نہیں ہونے دیں گے بلکہ یہ ان میں رکاوٹ ہیں۔ سفارشات قانونی زبان میں موجود ہیں۔ باہمی تنازعات کے حل کے لیے اسی طرح تعلیمی معاملے پر بھی کمیشن کام کر رہے ہیں۔ تاکہ مدارس اور تعلیمی جامعات میں خلیج کو دور کیا جا سکے۔ حافظ حسین احمد نے کانفرنس میں مجلس علماء برما کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔ صدر تنظیم المدارس مفتی منیب الرحمان ،وفاق المدارس الشیعہ کے رہنما علامہ سید نیاز حسین نقوی، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار حسین نقوی، پیر عبدالشکور نقشبندی، ناظم اعلیٰ جمعیت اہلحدیث ابتسام الہی ظہیر، تحریک تحفظ حرمت رسول (ص) کے چیئرمین مولانا امیر حمزہ، پیر سلطان احمد علی، مولانا فخر جمیل اور جماعت اسلامی کے شعبہ خارجہ امور کے ڈائریکٹر عبدالغفار عزیز نے بھی خطاب کیا۔ 

کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ثاقب اکبر نے قرار داد پیش کی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اتحاد امت کی کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے اسلامی تحریکوں کا مشترکہ فورم قائم کیا جائے۔ پاکستان میں اس کا سیکرٹریٹ قائم کیا جائے ۔ قرار داد کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا ۔ دو روزہ اتحاد امت کانفرنس میں ملک بھر سے 2 ہزار سے زائد جید علمائے کرام، مشائخ عظام نے شرکت کی۔ آخر میں سلطان احمد علی نے دعا کرائی، جس کے بعد اس بامقصد اور عظیم الشان کانفرنس کا اختتام ہو گیا۔
خبر کا کوڈ : 211321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش