0
Tuesday 20 Nov 2012 01:12

محرم الحرام اور امن و امان کی مخدوش صورتحال

محرم الحرام اور امن و امان کی مخدوش صورتحال

بلوچستان کے علاقے خضدار میں ٹارگٹ کلنگ کے دوران تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنماء ہاشم علی کو لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے شہید کر دیا۔ پولیس کے مطابق اتوار کو خضدار کے علاقے جناح روڈ پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے مقامی امام بارگاہ کے اہم رہنماء ہاشم علی کو شدید زخمی کر دیا، جنہیں اسپتال پہنچایا جا رہا تھا کہ وہ راستے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی۔ دریں اثناء تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بلوچستان کے سیکرٹری اطلاعات طارق احمد جعفری نے خضدار میں امام بارگاہ کے مقامی رہنماء ہاشم علی کو قتل کرنے کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔

دوسری جانب کراچی کے علاقے عباس ٹاﺅن میں امام بارگاہ کے نزدیک بم دھماکے میں 2 افراد شہید اور 5 رینجرز اہلکاروں سمیت 27 زخمی ہوگئے۔ دھماکہ کیلئے مبینہ طور پر موٹر سائیکل استعمال کی گئی، جسے امام بارگاہ کے نزدیک کھڑا گیا تھا۔ زور دار دھماکے سے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور لوڈشیڈنگ کے باعث کچھ دیر قبل ہی آنے والی بجلی کی فراہمی منقطع ہوگئی، جس کی بنا پر تاریکی میں امدادی سرگرمیوں میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ دھماکے کے بعد شدید فائرنگ کی گئی، جس سے بھگدڑ مچ گئی۔ دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی اور قریبی عمارتوں کے ساتھ کئی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ یہاں قیامت صغریٰ کا منظر دیکھا گیا۔ دھماکے کے بعد شہر بھر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی الرٹ کر دیا گیا۔

اس دھماکے کے بعد عباس ٹاﺅن اور اطراف کے لوگوں میں سخت اشتعال پایا گیا اور مذکورہ علاقوں میں دکانیں بند اور کاروبار زندگی معطل ہوگیا۔ ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم نے بتایا بم موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا اور اسے ریمورٹ کنٹرول یا موبائل فون ڈیوائس کے ذریعے بلاسٹ کیا گیا۔ ایڈیشنل آئی جی اقبال محمود نے کہا جس وقت دھماکہ ہوا پورے علاقے میں پولیس اور رینجرز کی سخت چیکنگ جاری تھی، جس کی وجہ سے دہشت گرد دھماکے میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل کو گلی کے اندر امام بارگاہ کے بالکل نزدیک لے جانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اسی وجہ سے بہت زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا، جس وقت دھماکہ ہوا امام بارگاہ میں مجلس عزاء جاری تھی۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق دھماکہ کے لئے 4 کلو گرام سے زیادہ بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ دھماکے کے ہونے کے باوجود مجلس عزاء جاری تھی۔

موت کا کھیل چاروں جانب رقصاں ہے۔ رات گئے پچاس کے قریب ٹیلی ویژن چینلوں پر گفتگو کے بازار سجتے ہیں۔ جذبات سے عاری اور موت کی تلخی سے بے خبر سیاسی رہنماء خود کو معصوم اور دوسروں کو ظالم ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ کسی کے لہجے میں دکھ ہے اور نہ چہرے پر پشیمانی۔ گزشتہ دس سالوں سے میڈیا اور سیاست کی لغت میں چند لفظ آگئے ہیں۔ جن کا جب اور جس وقت چاہا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ دہشتگرد، شدت پسند، طالبان وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں صرف ایک قسم کے گروہ پر اپنی جانب سے لعنت کی ہے۔ فرمایا "جھوٹوں پر اللہ کی لعنت"،  لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیئے کہ روزانہ لاشیں گرتی ہیں اور روزانہ اس المیہ پر اس قدر جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں شرما جاتی ہیں۔ سوال کرنے والے اینکرز اور بستیوں، گلیوں اور بازاروں میں گھومنے والے رپورٹروں کو لوگوں کی روتی آنکھوں، سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان سچ مل جاتا ہے۔
 
لوگ چیخ چیخ کر بتا رہے ہوتے ہیں کہ ان کے پیاروں کو کون قتل کرگیا ہے اور گزشتہ پچیس سال سے کون کر رہا ہے۔ لیکن ان عوام کے بتائے ہوئے سچ کو بیان کرتے ہوئے ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی مصلحت کے تحت جس کو چاہتا ہے مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ سب سے آسان نام طالبان یا دہشتگردوں کا ہے۔ کسی بھی ضلع میں اگر کوئی شخص قتل کرکے مفرور ہو جائے تو پولیس کے لوگ ہر قتل، چوری یا ڈکیتی کو تفتیش سے پہلے ہی اس مفرور ملزم کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے، نہ وہ سامنے آئے گا، نہ پکڑا جائے گا اور نہ ہی ان سے کوئی کہے گا کہ مجرم کو ڈھونڈ کے لاؤ، بند کرو، مقدمہ چلاؤ۔ اور اگر بدقسمتی سے مقدمہ چل بھی جاتا ہے تو ایسا کوئی قانون ہی موجود نہیں کہ ان شرپسندوں کو سزاء دے سکے۔
 
ہر علاقے کے اپنے اپنے مفرور ہوتے ہیں اور ان کے کھاتے میں روز نئے جرم ڈل کر فائل دن بدن موٹی کر دی جاتی ہے۔ اگر کسی ذمہ دار شخصیت سے پوچھا جائے کہ بلوچستان میں ایسا کیوں ہو رہا ہے تو کہتے ہیں کہ کراچی میں ہم سے زیادہ ہو رہا ہے۔ اور اگر کراچی کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ایسا تو پنجاب میں بھی ہوتا ہے۔ یہی سوال اگر کسی مرکزی رہنماء سے کرو تو ملکوں کے نام گنوانا شروع کر دے گا کہ فلاں فلاں ملکوں کی مداخلت ہے۔ دنیا میں وہی معاشرے پروان چڑھتے ہیں جن میں لوگوں کو انصاف ملتا ہو، جان و مال کا تحفظ ہو اور آزادی اظہار ہو، اگر ہم اپنے وطن عزیز کی طرف نظر دوڑائیں تو ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے نظر آتے ہیں جہاں ناانصافی ہے، مگر انصاف کی خواہش بھی موجود ہے۔ جہاں طاقت سے لوگوں کی آواز دبائی جاتی ہے، لیکن بولنے کی خواہش اور کوشش موجود ہے، جہاں پر دہشت گردی، چوریاں، ڈکیتیاں اور بدامنی کے واقعات عام ہیں مگر لوگ امن و امان اور تحفظ کی طلب رکھتے ہیں۔

پاکستان میں جاری دہشتگردی سے کوئی بھی اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔ ماضی میں سب نے غلطیاں کی ہیں۔ اس لئے حکومت، انتظامیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کو ملکر ایسے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ کوئٹہ اور کراچی میں اس سے قبل بھی محرم الحرام کے دوران دہشتگردی کے واقعات ہوئے ہیں۔ جس سے بے انتہاء انسانی جانوں کا ضیائع اور لوگوں کے املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ لہذا ملکی بقاء کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے تمام اداروں کو اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا کرنی چاہیئے۔

خبر کا کوڈ : 213313
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش