0
Friday 7 Jun 2013 00:09

ایم پی اے فرید خان کا قتل، مشتعل افراد کا جے یو آئی کیخلاف شدید ردعمل، 9 ہلاکتیں

ایم پی اے فرید خان کا قتل، مشتعل افراد کا جے یو آئی کیخلاف شدید ردعمل، 9 ہلاکتیں
رپورٹ: محمد سعید

تین جون کو صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ہنگو میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے چند روز قبل رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے فرید خان کو ڈرائیور سمیت قتل کردیا جبکہ اس حملہ میں ان کا بھائی شدید زخمی ہو گیا۔ واقعہ کے بعد ہنگو شہر اور اس کے گرد و نواح میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور مشتعل افراد نے توڑ پھوڑ شروع کردی۔ اس توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو کا نشانہ براہ راست جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماوں اور کارکنوں کو بنایا گیا۔ واضح رہے کہ فرید خان صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 42 سے آزاد حیثیت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے آئینی تقاضوں کی وجہ سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ فرید خان کو ان انتخابات میں کالعدم سپاہ صحابہ کی مکمل سپورٹ حاصل تھی اور ان کے قتل کیخلاف احتجاج کرنے والوں کی اکثریت بھی اس کالعدم جماعت کے کارکنوں پر مشتمل تھی۔ ان مشتعل مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ فرید خان کے قتل میں جے یو آئی ملوث ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے جے یو آئی کا دفتر اور کارکنوں کی کئی دکانیں بھی نذر آتش کردیں۔

جن علاقوں میں توڑ پھوڑ ہوئی وہاں اکثریت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنوں اور حامیوں کے گھروں پر مشتمل ہے۔ مشتعل افراد کا غصہ رات گئے تک ٹھنڈا نہ ہوا اور اس گھیراو جلاو نے باپ بیٹے کی بھی جان لے لی۔ مظاہرین نے پرتشدد احتجاج جاری رکھا اور شدت پسند کمانڈر آصف سمیت دو افراد کے گھروں کو بھی آگ لگا دی۔ جس کے نتیجے میں شدت پسند کمانڈر سمیت 3 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے گذشتہ روز قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرید خان کے قتل کی مذمت کی اور کہا کہ مظاہرین نے تو قتل میں ملوث شخص کو ہلاک کردیا اور اب نہ جانے کیوں جے یو آئی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہنگاموں کی وجہ سے ہنگو شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری طلب کرلی گئی۔

فرید خان کے حامیوں نے ان کے قتل کا مقدمہ بھی سابق ایم پی اے اور حالیہ انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کے سابق امیدوار عتیق الرحمان کیخلاف درج کروا دیا ہے۔ ان پرتشدد واقعات میں اب تک 9 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب سکیورٹی فورسز نے ہنگو شہر اور اس کے گرد و نواح میں سرچ آپریشن کیا اور فرید خان کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث طالبان کمانڈر مفتی حامد کو چار ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وہ طالبان کمانڈرز جن کو مشتعل افراد نے اپنے غصہ کا نشانہ بنایا ماضی میں جے یو آئی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ فرید خان کے قتل کی وجہ سے دوسرے روز ہنگو میں تعلیمی ادارے بھی بند رہے اور پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ فائرنگ کے علاوہ راکٹ بھی فائر کئے گئے۔

فرید خان کی ہلاکت کے بعد شہر میں تیسرے روز بھی کرفیو نافد رہا اور ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کی گئی۔ تیسرے روز ہنگو شہر اور مضافاتی علاقوں میں فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں سپین خاورائی کے علاقے میں ہوئی ہیں۔ تیسرے روز کرفیو کی وجہ سے شہر میں تمام تعلیمی ادارے بھی بند رہے۔ ہنگو شہر میں حالات بدستور اب بھی کشیدہ ہیں جس پر قابو پانے کے لیے پولیس، ایف سی، سکاوٹس فورس اور فوجی جوان گشت کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر فرید خان کی شخصیت پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماضی میں کالعدم سپاہ صحابہ سے وابستہ رہے اور 2013ء کے عام انتخابات میں ''امن'' کے نعرے پر الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے کی ٹھانی۔ انتخابی مہم کے دوران ان کے سفید جھنڈے، جن پر صرف لفظ ''امن'' تحریر تھا۔ ضلع ہنگو کے کونے کونے میں لہراتے نظر آئے۔

فرید خان کے مقابلہ میں دو اہم سیاسی شخصیات جے یو آئی (ف) کے عتیق الرحمان اور اے این پی کے سید حسین علی شاہ حلقہ پی کے 42 سے میدان میں تھیں۔ تاہم فرید خان اس نشست پر کامیابی حاصل کرگئے۔ کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے سونامی میں شامل ہونے کو ترجیح دی۔ تاہم اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے دو روز بعد ہی وہ قاتلانہ حملہ میں مارے گئے۔ ضلع ہنگو میں گزشتہ چند روز کے مقابلہ میں صورتحال بہتر ہے تاہم کرفیو نافذ ہے۔ عوام میں خوف و ہراس برقرار ہے جبکہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن مہم کے دوران 7 مئی کو ہنگو کی تحصیل دوابہ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار مفتی جنان کے قافلہ پر خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں 12 افراد جاں بحق جبکہ 35 زخمی ہوئے تھے۔

علاوہ ازیں کرم ایجنسی کے حلقہ این اے 38 میں انتخابی مہم کے دوران جے یو آئی کے امیدوار منیر اورکزئی کے جلسہ میں بم دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں 19 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ ہنگو کے حلقہ پی کے 42 میں عام انتخابات کے موقع پر پرامن ماحول میں پولنگ کے بعد ایم پی اے کے قتل نے ماضی میں دہشتگردی اور پرتشدد واقعات کا نشانہ بننے والے ضلع ہنگو میں امن و امان کی صورتحال کو ایک مرتبہ پھر نازک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس واقعہ اور بعدازاں سامنے آنے والے ردعمل نے یقیناً جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت کو پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔ تاہم اس قتل کی درست سمت میں تحقیقات کے بعد ہی اصل حقائق سامنے آ سکیں گے۔
خبر کا کوڈ : 271148
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش