1
0
Sunday 1 Sep 2013 16:36

شام میں استعمال ہونیوالے کیمیائی ہتھیار سعودی عرب نے فراہم کئے، شامی باغیوں کا اعتراف

شام میں استعمال ہونیوالے کیمیائی ہتھیار سعودی عرب نے فراہم کئے، شامی باغیوں کا اعتراف
اسلام ٹائمز- حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شامی باغیوں نے دمشق کے نواح الغوطہ الشرقیہ میں استعمال ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں انتہائی حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں۔ معروف خبر رسان ادارے منٹ پریس کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں شامی باغیوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے دمشق کے نواح میں پھیلنے والی زہریلی گیس سیرائن انہیں سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ بندر بن سلطان نے فراہم کی تھی۔ انٹرویو دینے والے شامی باغیوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ سعودی عرب کی جانب سے فراہم کئے جانے والے ہتھیاروں میں زہریلی گیس سیرائن بھی شامل ہے، لہذا انہوں نے خاص احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں۔ سعودی عرب سے ملنے والے فوجی سازوسامان کو معمول کی طرح ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل کیا جا رہا تھا کہ اچانک سیرائن گیس کا حاوی سلنڈر پھٹ گیا اور یہ زہریلی گیس چاروں طرف پھیل گئی، جس کی زد میں آ کر کئی افراد ہلاک ہوگئے۔ 
 
شامی باغیوں کے یہ سنسنی خیز انکشافات ایسے وقت سامنے آ رہے ہیں جب امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک شام حکومت پر نہتے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگا کر اس پر فوجی حملہ کرنے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ یہ رپورٹ جسے ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی نے بھی شائع کیا ہے، اس حقیقت کو نئے رخ سے پیش کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دمشق کے نواحی علاقے مشرقی الغوطہ میں زہریلی گیس کا پھیلاو ایک حادثہ تھا، جو شام باغیوں کی بے احتیاطی اور لاپرواہی کی وجہ سے رونما ہوا۔ اگر ایسا ہو تو یہ اس واقعے کی ایک نئی روایت ہے جو پہلی بار سامنے آرہی ہے۔ 
 
اب تک امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ان کے اتحادی یورپی اور عرب ممالک گذشتہ ہفتے دمشق کے نواح میں زہریلی گیس کے پھیلاو کو شامی فوج کی جانب سے نہتے عوام پر کیمیائی حملے کے طور پر ظاہر کرتے آئے ہیں اور اس الزام کو بنیاد بنا کر شام کے خلاف ایک بڑی فوجی کاروائی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ اس وقت امریکی جنگی کشتیاں بحیرہ روم میں داخل ہو چکی ہیں تاکہ شام حکومت کو ان کے بقول نہتے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی سزا دے سکیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس واقعے کے بارے میں انجام پانے والی تحقیقات کے نتیجے کا انتظار بھی کرنا نہیں چاہتے اور بغیر سوچے سمجھے اس کی ذمہ داری شام حکومت پر لگا رہے ہیں۔ جیسا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کری نے کچھ روز قبل اعلان کیا ہے کہ دمشق کے نواح میں زہریلی گیس کے پھیلاو میں شام حکومت کا ملوث ہونا ایک یقینی امر ہے جسے تمام دنیا والے قبول کر چکے ہیں!!!
 
لیکن شام کے خلاف اس جھوٹے اور زہریلے پروپیگنڈے کے برعکس منٹ پریس کی جانب سے مشرقی الغوطہ کے مکینوں، ڈاکٹرز، حملے کا نشانہ بننے والے افراد کے اہلخانہ اور حتی شامی باغیوں کے ساتھ انجام پانے والے انٹرویوز کچھ اور ہی ظاہر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا خیال ہے کہ یہ زہریلی گیس شامی باغیوں کو سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ بندر بن سلطان نے فراہم کی اور وہی اس گیس کے پھیلاو کے حقیقی ذمہ دار بھی ہیں۔ صدر بشار اسد کے خلاف برسرپیکار ایک شامی باغی کے والد ابو عبدالمعین کا کہنا تھا:
"میرا بیٹا دو ہفتے قبل میرے پاس آیا اور مجھ سے اپنے پاس موجود جنگی سازوسامان کے بارے میں کچھ سوالات پوچھنے لگا"۔ 
 
ابو عبدالمعین نے کہا کہ اس کا بیٹا اپنے دوسرے 12 ساتھیوں سمیت اس سرنگ میں مردہ پائے گئے جسے وہ ہتھیار ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ ہتھیار ایک سعودی باغی دہشت گرد ابوعائشہ نے فراہم کئے تھے اور وہی دوسرے دہشت گردوں کا کمانڈر بھی تھا۔ ابو عبدالمعین نے مزید بتایا کہ ان کے پاس کچھ ایسے قسم ہتھیار بھی تھے جو گیس کے سلنڈر کی مانند تھے اور بعض ہتھیار گیس کی ٹیوبز کی طرح تھے۔ 
 
اسی طرح دمشق کے نواح میں واقع مشرقی الغوطہ کے مکینوں نے منٹ پریس کے صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ شامی باغی مساجد اور گھروں کو سونے اور سستانے کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ اپنے ہتھیار ان سرنگوں میں رکھتے ہیں جو اسی مقصد کیلئے کھودی گئی ہیں۔ ابو عبدالمعین نے بتایا کہ اس کا بیٹا اپنے ساتھیوں سمیت کیمیائی حملے میں مارا گیا ہے۔ اس دن القاعدہ سے وابستہ النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ شامی فوج سے بدلہ لینے کیلئے لاذقیہ پر ان کے خلاف کاروائی کریں گے۔ لاذقیہ شام کے مشرق میں واقع ساحلی علاقہ ہے جو شامی فورسز کے زیرکنٹرول ہے۔ 
 
ایک خاتون شامی باغی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرف پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "ہمیں فراہم کئے جانے والے جنگی سازوسامان کی نوعیت کے بارے میں بالکل آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں کس طرح استعمال کرنا ہے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس جنگی سازوسامان میں کیمیائی ہتھیار بھی موجود ہو سکتے ہیں"۔ 
اس خاتون شامی باغی نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا: "جب سعودی شہزادے بندر بن سلطان نے یہ جنگی سازوسامان ہمیں فراہم کیا تو اسے چاہئے تھا کہ وہ ایسے ہتھیار ان کے ہاتھ میں دیتا جو یہ جانتے ہوتے کہ اس قسم کے ہتھیاروں کو کیسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہے"۔ 
 
مشرقی الغوطہ میں شام باغیوں کا ایک اہم کمانڈر بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوا نظر آیا۔ اس نے منٹ پریس کے صحافیوں کو بتایا: "النصرہ فرنٹ کے جنگجو شامی فوج کے خلاف مسلح کاروائیوں کے سوا کسی اور چیز میں دوسرے باغی جنگجووں سے تعاون نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اپنے پاس موجود خفیہ معلومات دوسروں کو فراہم کرتے ہیں۔ النصرہ فرنٹ کے باغی جنگجووں نے بعض دوسرے باغی جنگجووں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان ہتھیاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کریں"۔ 
اس باغی کمانڈر نے مزید بتایا: "ہم ان ہتھیاروں کے بارے میں شدید مشکوک تھے۔ بدقسمتی سے بعض باغی جنگجووں نے ان ہتھیاروں کی منتقلی میں بے احتیاطی سے کام لیا جس کی وجہ سے دھماکہ ہو گیا اور زہریلی گیس چاروں طرف پھیل گئی"۔ 
 
جفری اینگرسل بزنس انسائڈر میں شائع ہونے والی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں لکھتا ہے کہ سعودی شہزادے بندر بن سلطان جو سعودی انٹیلی جنس ادارے کا سربراہ بھی ہے نے گذشتہ دو سالوں کے دوران شام میں جاری خانہ جنگی میں انتہائی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اکثر سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن سے انتہائی قریبی تعلقات ہونے کے باعث شام کے خلاف امریکہ کو فوجی کاروائی پر اکسانے میں بندر بن سلطان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اینگرسل نے برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع ہونے والے روس اور سعودی عرب کے درمیان خفیہ مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ دعوا کیا ہے کہ بندر بن سلطان نے اپنے حالیہ روس کے دورے کے دوران روسی صدر جناب ولادیمیر پیوٹن کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرانے میں ان کے ساتھ تعاون کریں گے تو سعودی عرب روس کو سستا تیل فراہم کرے گا۔ جناب جفری اینگرسل اس بارے میں لکھتے ہیں:
"شہزادہ بندر بن سلطان نے روسی صدر کو یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے میں معاونت فراہم کرنے کی صورت میں شام میں واقع روسی فوجی اڈے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اسی طرح بندر بن سلطان نے جناب ولادیمیر پیوٹن کو یہ دھمکی بھی لگائی کہ اگر روس شام کے خلاف ان کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نہ ہوا تو اس صورت میں چچن دہشت گرد موسم سرما میں روس میں ہونے والی اولمپک گیمز کو نشانہ بنا سکتے ہیں"۔ 
 
کہا جاتا ہے کہ شہزادہ بندر بن سلطان نے روسی حکام کو کہا ہے کہ ہمارے ساتھ تعاون کرنے کی صورت میں میں آپ کو یہ ضمانت فراہم کر سکتا ہوں کہ اگلے سال روس میں برگزار ہونے والی اولمپک گیمز میں کسی قسم کی کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ بندر بن سلطان نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ چچن دہشت گرد جنہوں نے ان اولمپک گیمز کو نشانہ بنانے کی دھمکی لگا رکھی ہے مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ 
جناب اینگرسل لکھتے ہیں: "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکام کے ساتھ ساتھ امریکی حکام نے بھی سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان کو روسی حکام کے ساتھ اس قسم کی باتیں کرنے کیلئے سبز جھنڈی دکھا رکھی تھی اور اس میں تعجب والی کوئی بات نہیں"۔ 
وہ مزید لکھتے ہیں: "شہزادہ بندر بن سلطان نے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ وہاں پر فوجی ٹریننگ بھی مکمل کی ہے اور اس کے بعد امریکہ میں گہرے اثرورسوخ کے حامل سعودی سفیر کے طور پر خدمات بھی انجام دی ہیں۔ کلی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بندر بن سلطان امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کا چہیتا ہے"۔
 
وال اسٹریٹ جورنل نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی جاسوسی ادارہ سی آئی اے اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ سعودی عرب شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرانے میں انتہائی سنجیدہ ہے کیونکہ شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی باگ ڈور سعودی شہزادے بندر بن سلطان نے سنبھال رکھی ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:
"سی آئی اے سمجھتی ہے کہ شہزادہ بندر بن سلطان جو دوسرے ممالک کے خلاف سازشیں کرنے میں انتہائی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور عرب دنیا سے وابستہ ایک گھاگ سفارتکار بھی ہے شام میں وہ کام سرانجام دے سکتا ہے جسے انجام دینے سے سی آئی اے بھی قاصر ہے یعنی اسلحہ اور ڈالرز سے بھرے جہازوں کا ارسال"۔ 
 
اخبار وال اسٹریٹ جورنل اپنی اس رپورٹ میں لکھتا ہے کہ شہزادہ بندر بن سلطان سعودی سیاست خارجہ کے بعض اہم اہداف کے حصول کیلئے سرگرم ہے جو صدر بشار اسد اور اس کے حامی یعنی ایران اور حزب اللہ لبنان کو شکست دینا ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ اس مقصد کے حصول کیلئے شہزادہ بندر بن سلطان ایک وسیع منصوبہ بندی کے تحت اردن کے ایک فوجی اڈے کے ذریعے شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کو بھاری مقدار میں اسلحہ اور پیسہ فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ وال اسٹریٹ جورنل کی اس رپورٹ میں آیا ہے کہ شہزادہ بندر بن سلطان نے اردن میں موجود اس فوجی اڈے کے بعض اہم افسران سے ملاقات کی ہے۔ اردن کے دارالحکومت امان میں شہزادہ بندر بن سلطان اور شاہ عبداللہ کی ملاقات بعض اوقات 8 گھنٹے تک جاری رہتی ہے۔ 
سعودی عرب کے ساتھ اردن کی مالی وابستگی اور سعودی مالی امداد پر انحصار وہ اہم عنصر ہے جس کو بنیاد بنا کر سعودی حکام اردن کو اپنی مرضی کی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 2012ء میں سعودی عرب نے اردن میں ایک بہت بڑا فوجی اڈہ بنایا ہے جس میں ایک رن وے ہونے کے علاوہ اسلحہ جمع کرنے کیلئے وسیع گودام بھی بنائے گئے ہیں۔ وال اسٹریٹ جورنل کی رپورٹ کے مطابق ان گوداموں میں سعودی ساختہ اے کے 47 گن کے علاوہ دوسرا سعودی اسلحہ بھرا پڑا ہے۔ 
 
اگرچہ سعودی عرب نے رسمی طور پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ صرف شام حکومت کے مخالف معتدل گروہوں کی حمایت کرتا ہے لیکن وال اسٹریٹ جورنل کی رپورٹ کے مطابق اردن کے فوجی اڈے میں موجود سعودی اسلحہ شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں تک پہنچایا جاتا ہے اور انہیں بڑے پیمانے پر پیسے بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے شام میں برسرپیکار مسلح باغیوں کی حمایت کا مقصد قطر کے حامی شامی باغی گروہوں کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ 
 
دمشق کے نواح مشرقی الغوطہ میں منٹ پریس کے صحافیوں سے بات چیت کرنے والے مسلح باغیوں نے اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ القاعدہ اور النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں نے شہزادہ بندر بن سلطان کا نام "الحبیب" رکھا ہوا ہے۔ 
 
پیٹر اوبورزن نے اخبار ڈیلی ٹیلیگراف میں منگل کے دن شائع ہونے والے اپنے مقالے میں واشنگٹن کو خبردار کیا ہے کہ اسے صدر بشار اسد کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کاروائی میں جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ امریکہ کے بقول ان محدود فوجی حملوں کا مقصد صدر بشار اسد کی حکومت کو سرنگون کرنا نہیں بلکہ شام حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی صلاحیت کو نابود کرنا ہے۔ پیٹر اوبورزن لکھتا ہے کہ اس فوجی کاروائی کا فائدہ صرف شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کو پہنچے گا کیوںکہ وہ اس وقت حکومت کے خلاف جاری جنگ میں مکمل طور پر شکست سے دوچار ہو چکے ہیں لہذا ان کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کو شام کے خلاف جنگ کی آگ میں دھکیل دیں۔ پیٹر اوبورزن مزید لکھتا ہے کہ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دمشق کے گردونواح میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے ہیں لیکن کوئی یہ یقین سے نہیں کہ سکتا کہ یہ ہتھیار کس نے استعمال کئے ہیں۔ 
ڈیلی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے اس مقالے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اس سے پہلے بھی شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہو چکا ہے جن کے بارے میں شام میں اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی کارلا ڈی پونٹے کا دعوا ہے کہ یہ کیمیائی ہتھیار شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی جانب سے استعمال کئے گئے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 297575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

M agreed
ہماری پیشکش