0
Monday 12 May 2014 23:44

بلوچستان کیلئے ایران لازمی!

بلوچستان کیلئے ایران لازمی!

رپورٹ: این ایچ حیدری

پاکستان اور ایران ایک دوسرے کیساتھ زمانہ قدیم سے ثقافتی، علاقائی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے انتہائی قریب رہے ہیں۔ خصوصاً انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران کے بعد دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ مسئلہ کشمیر، مسئلہ سیاچین سمیت دیگر سیاسی و اقتصادی مسائل میں ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کو جب بھی پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی ہے، تو اس نے بھی ایک اچھے دوست کی مانند اپنے برادر اسلامی ملک کا ساتھ نبھایا ہے۔ البتہ یہ بعض متعصب سیاسی و مذہبی مائنڈ سیٹ کی نادانی ہی تھی، جنہوں نے اپنے دوست ممالک کیساتھ تعلقات اور اپنے ملکی و ریجنل مفادات کو پس پشت ڈال کر سات سمندر پار دیگر ممالک کیساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی غلطیاں کی ہیں۔ اگر اس خطے میں آباد دونوں ممالک کے اسٹریٹیجک مفادات اور اندرونی و بیرونی مسائل پر نظر ڈالی جائے تو ایران کی بہ نسبت پاکستان کیلئے اپنے وسیع تر مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنے ہمسایہ ملک ایران کیساتھ تعلقات کو فروغ دینا، زیادہ ضروری ہے کیونکہ پاکستان اب انڈیا اور افغانستان کے بعد اپنے کسی اور ہمسایہ ملک کیساتھ خراب تعلقات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس تناظر میں اگر پاکستان کے سب سے بڑے معدنیات سے مالامال صوبہ بلوچستان پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ریاست، ایران کیساتھ اپنے مضبوط تعلقات کو کیونکر فروغ دینا چاہے گی۔؟ اس صوبے میں گذشتہ کئی سالوں سے بلوچ برادر اپنے حقوق کی جنگ ریاست کیخلاف لڑ رہے ہیں۔ اگرچہ بلوچ عوام کیساتھ ناانصافیاں ہوئی ہیں اور کسی حدتک پاکستان شاید "اب" انکی ناانصافیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہے لیکن پرانے زخموں کو بھرنے میں ابھی کافی وقت اور عملی اقدامات درکار ہیں۔ دوسری جانب چند بلوچ مسلح گروہ آزادی کے علاوہ کسی اور نقطے پر مذاکرات کیلئے راضی نہیں۔ دریں اثںاء وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے بلوچ باغیوں کو کسی بھی طرح مذاکرات کی میز پر لانے کی ذمہ داری فراہم کردی گئی ہیں جبکہ انہوں نے بھی یہ شرط سامنے رکھ دی ہے کہ جبری گمشدگیوں کی روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی تک ناراض بلوچوں سے مذاکرات ممکن نہیں۔

بلوچستان کے کُل 32 اضلاع میں سے 22 اضلاع پر بلوچ آبادی واقع ہیں۔ دوسری جانب یہی بلوچ آبادی ایران کے علاقے سیستان بلوچستان میں بھی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اگر خدانخواستہ ایران سیستان کے صوبے کو آزادی دیتا ہے تو اقوام متحدہ کے رکن ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی ریاست کو نہ چاہتے ہوئے بھی بلوچستان کو آزادی دینا ہوگی۔ لہذا پاکستانی ریاست کبھی بھی بلوچستان کو اپنے ہاتھ سے جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ اسی طرح بلوچ باغیوں پر پہلے ہی انڈیا اور افغانستان سے امداد لینے کے الزامات ہیں اور اب پاکستان ان بلوچ باغیوں کیلئے مزید کسی ملک کی سپورٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ریاست کا ایران کیساتھ مضبوط تعلقات کے خواہاں ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایران کی جانب سے بلوچستان میں پاک ایران مشترکہ تجارتی مرکز کے قیام کی پیش کی گئی تھی۔ اس پیشکش کو حکومتی سطح پر تو کوئی توجہ نہیں ملی۔ لیکن کورکمانڈر بلوچستان کمانڈر سدرن کمانڈ جنرل ناصر خان جنجوعہ کی جانب سے باقاعدہ اس پیشکش کو نہ صرف سراہا گیا، بلکہ پاک افواج کی جانب سے ہرممکن امداد کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک ایران تعلقات میں مضبوطی دونوں ممالک کے بہترین مفاد میں ہیں۔

اسی طرح ایک اور مسئلہ ایران سے بجلی خریدنے کا ہے۔ 15 سالوں بعد وفاقی حکومت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ایران سے دو ہزار میگا واٹ بجلی خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ سو میگا واٹ بجلی الگ سے گوادر کے لئے ایران سے خریدی جائے گی۔ ایران ایک لاکھ چوبیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور خطے کے آٹھ ممالک کو بجلی برآمد کرتا ہے۔ اس میں ستر میگا واٹ بجلی مکران کیلئے بھی شامل ہے۔ لہذا بجلی کی خریداری اس بار ضرور ہوگی اور یہ بجلی بلوچستان سے گزر کر ملک کے دوسرے حصوں میں جائے گی۔ جبکہ پاکستان میں فرقہ وارنہ کشیدگی کی صورت میں درپیش مشکلات کے حل اور اتحاد بین المسلمین کی کوششوں میں ایران کے کردار کو نظر انداز نہیں‌ کیا جا سکتا۔ لہذا پاکستان خاص طور پر بلوچستان کے معاملے میں ایران کیساتھ کسی بھی صورت سخت گیری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

خبر کا کوڈ : 381836
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش