0
Tuesday 7 Jun 2011 09:01

سابق طالبان حکومت کے پولیس سربراہ محمد قلم الدین اور سابق وزیر تعلیم ارسلا رحمانی سمیت 18 رہنماوں پر پابندیاں ختم ہونے کا امکان

سابق طالبان حکومت کے پولیس سربراہ محمد قلم الدین اور سابق وزیر تعلیم ارسلا رحمانی سمیت 18 رہنماوں پر پابندیاں ختم ہونے کا امکان
کابل:اسلام ٹائمز۔ طالبان رہنماؤں پر پابندی اٹھائے جانے کے لیے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے امریکہ اور برطانیہ، اقوامِ متحدہ کی جانب سے طالبان سے تعلق رکھنے والی اٹھارہ شخصیات پر عائد کی گئی پابندیاں اٹھائے جانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ مغربی طاقتوں کے اِس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک طرف طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنے ماتحت اور کٹھ پتلی ادارے اقوام متحدہ پر دباو ڈال رہے ہیں۔
برطانوی اخبار دی گارڈین نے جمعہ کے اپنے شمارے میں سرِورق کی خبر میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق طالبان رہنماؤں پر پابندی اٹھائے جانے کے لیے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور یہ افغان جنگ کا طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کے لیے کی جانے والی درپردہ کوششوں کا سب سے واضح اشارہ ہے۔
ان اٹھارہ طالبان رہنماؤں یا سرکردہ ارکان میں طالبان دور میں شرعی پولیس کے سربراہ محمد قلم الدین کا نام بھی شامل ہے جن پر طالبان کے دور میں بدترین مظالم ڈھانے کا الزام ہے۔
اخبار نے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے خیال میں یہ طالبان شدت پسندوں کے لیے واضح اشارہ ہو گا کہ اگر وہ ہتھیار چھوڑ کر افغان معاشرے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ ان کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں اس سے قبل بھی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں خبریں شائع ہوتی رہی ہیں۔
امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان گزشتہ دو ماہ میں تین ملاقاتیں ہوئی ہیں دو قطر میں اور ایک جرمنی میں۔ حال ہی میں جرمنی سے شائع ہونے والے ایک مقتدر اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے کم از کم تین دور ہو چکے ہیں۔
گارڈین میں شائع ہونے والی تازہ خبر میں کہا گیا ہے کہ پابندیوں کو ہٹایا جانا طالبان کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے اور اس کو افغان حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ طالبان سے تعلق رکھنے والے اشخاص پر پابندیاں لگائِے جانے کا سلسلہ طالبان کے دورِ اقتدار میں انیس سو ننانوے میں شروع ہوا تھا۔ امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد ان پابندیوں کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا اور اس وقت ایک سو انچاس شخصیات ایسی ہیں جن پر بین الاقوامی سفر کرنے اور بینک اکاؤنٹ کھولنے پر پابندیاں عائد ہیں۔
قلم الدین جیسے طالبان رہنماؤں پر پابندیاں اٹھایا جانا یقیناً ایک متنازعہ عمل ہو گا۔ گو کہ قلم الدین 2005ء میں جیل سے رہائی کے بعد خاموش زندگی گزار رہے ہیں۔ طالبان کی تشریح کے مطابق ’اسلامی معاشرے کے نفاذ کے لیے قلم الدین کی سربراہی میں پولیس نے مردوں اور خواتین پر بڑی سختیاں کی تھیں۔ بعض اوقات ملا قلم الدین خود بھی فتوے جاری کرتے تھے اور انھوں نے عورتوں کے بناؤ سنگھار اور اونچی ایڑی کی جوتیاں پہننے کو بھی غیر اسلامی قرار دے دیا تھا۔ قلم الدین کے علاوہ جن شخصیات پر سے پابندیاں اٹھائے جانے کی بات کی جا رہی ہے ان میں کئی ایسی شخصیات بھی ہیں جو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان رابطہ کار رہے ہیں۔ ان ہی شخصیات میں طالبان دورِ حکومت کے وزیر تعلیم ارسلا رحمانی کا نام بھی شامل ہے۔ چنانچہ یہ طالبان شدت پسندوں کے لیے واضح اشارہ ہو گا کہ اگر وہ ہتھیار چھوڑ کر افغان معاشرے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ ان کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔
اخبار نے ایک افغان وزیر کا نام ظاہر کیے بغیر ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پابندیاں اٹھائے جانے کی صورت میں طالبان کسی دوسرے ملک میں اپنا سیاسی دفتر کھولنے کے قابل ہو جائیں گے اور بہت سے ایسے سابق طالبان رہنما جو اس وقت کابل میں موجود ہیں بیرون ملک سفر کر سکیں گے۔
گارڈین نے کابل میں موجود مغربی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی، ترکمانستان اور قطر نے اپنے ملک میں طالبان کا دفتر کھولنے کے لیے جگہ فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے۔
کابل میں اعلیٰ افغان اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ طالبان سے ہونے والے تازہ رابطوں کو ماضی کی بے ربط کوششوں کے مقابلے میں منظم اور قابل قدر پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔
کابل میں اس مذاکراتی عمل کا پوری طرح علم رکھنے والے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ موجودہ مذاکرات کے لیے تجاویز اور جوابی تجاویز کے تبادلے کے لیے ایک ایلچی پاکستان اور افغانستان کے درمیان باقاعدگی سے سفر کرتا رہا ہے۔ حال ہی میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان گزشتہ دو ماہ میں تین ملاقاتیں ہوئی ہیں، دو قطر میں اور ایک جرمنی میں۔
ایک اور اہم پیش رفت میں حقانی نیٹ ورک کے نمائندوں نے حال ہی میں کابل کا دورہ کیا تھا۔ حقانی نیٹ ورک کو شدت پسندوں کے گروپوں میں سب سے مؤثر اور فعال تصور کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کو اس کے سربراہ جلال الدین حقانی کی وجہ سے حقانی نیٹ ورک کا نام دیا گیا ہے اور اس گروپ کا مبینہ طور پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے قریبی تعلق ہے۔
گزشتہ چھ برس میں صرف پندرہ طالبان رہنماؤں کے نام معتوب افراد کی فہرست سے نکالے گئے ہیں۔ واشنگنٹن میں اب اس مسئلہ پر واضح تبدیلی آئی ہے اور اب امریکی حکام کی تقریباً متفقہ رائے یہی ہے کہ طالبان رہنماؤں پر سے پابندی اٹھائی جائے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد ان پابندیوں کو ہٹانے کے لیے سلامتی کونسل کے مستقل پانچوں رکن ممالک کی اجازت درکار ہے۔ روس بڑی تعداد میں طالبان رہنماؤں پر پابندی اٹھائے جانے کے حق میں نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی کسی کوشش کو روکنے کی بھی کوشش کرے۔ فرانس اس حق میں ہے جبکہ چین اس مسئلہ پر لاتعلق ہے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ ایسے کسی رہنماء کا نام تجویز نہیں کیا جائے گا جو اب بھی جنگ میں سرگرم ہے۔ افغان حکومت، اس ماہ کی سولہ تاریخ کو ایک اہم اجلاس سے قبل اقوام متحدہ کی سینکشن کمیٹی کو سینتالیس افراد کے ناموں کی فہرست پیش کرنے والی ہے جن کے بارے میں سفارش کی جائے گی کہ ان کے ناموں کو معتوب افراد کی فہرست سے خارج کر دیا جائے۔
افغان حکام کے مطابق ابھی تک صرف اٹھارہ افراد کی دستاویزات مکمل کی جا سکی ہیں اور باقی افراد کی دستاویزات بعد میں جمع کرائی جائیں گی۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ ایسے کسی رہنماء کا نام تجویز نہیں کیا جائے گا جو اب بھی جنگ میں سرگرم ہے۔ افغانستان میں طالبان کے رہنماوں پر سے پابندی ہٹائے جانے کی تجویز پر لوگ پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ملا قلم الدین جیسے لوگوں پر سے پابندی اٹھائی گئی تو اس کا مطلب ہو گا کہ افغانستان کو اسی دور کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 77156
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش