0
Thursday 30 Mar 2023 21:05

مجوزہ لینڈ ریفارمز، گلگت بلتستان کیلئے خطرے کی گھنٹی

مجوزہ لینڈ ریفارمز، گلگت بلتستان کیلئے خطرے کی گھنٹی
تحریر: لیاقت علی انجم

زمین کا معاملہ تو ویسے ہی نازک ہے، تاہم گلگت بلتستان میں زمینوں کا مسئلہ، مسئلہ کشمیر سے منسلک ایک ایسا معاملہ ہے، جس کی حساسیت انتہائی اہم ہے۔ مثال کے طور پر 1949ء کے معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ نتھی کیا گیا اور پھر وفاق کے انتظام میں دیدیا گیا۔ اس معاہدے میں جی بی کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا۔ اس لیے آج بھی اس معاہدے کو بدنام زمانہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے تین فریقوں میں سے ایک جی بی ہے۔ ریاست کے سرکاری موقف کے مطابق جی بی مسئلہ کشمیر کا ایک اہم حصہ اور متنازعہ خطہ ہے، جس کے مستقبل کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے جی بی ریاست کشمیر کا حصہ رہا، جہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ تھا، اس قانون کے تحت ریاست کشمیر میں کوئی بھی غیر مقامی زمین نہیں خرید سکتا تھا، یہ قانون آزاد کشمیر میں اس وقت بھی نافذ ہے، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019ء کے مودی ایکشن تک نافذ رہا۔

جی بی میں اس قانون کو کب ختم کیا گیا اور کس طرح، کس مقصد کیلئے؟ اس کی ایک الگ داستان ہے، جو بہت ہی چونکا دینے والی ہے۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کے دور میں گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو ختم کرکے غیر مقامی لوگوں کو بسانے کا سلسلہ عروج پر پہنچا۔ اس مقصد کیلئے یہاں سرکاری سرپرستی میں لشکر کشی بھی کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت جب کچھ صاحب فکر لوگوں نے خطے کی زمینوں پر غیر مقامی لوگوں کے قبضوں کیخلاف آواز بلند کی تو ان تمام لوگوں کو من پسند سرکاری پوسٹوں پر بھرتی کرکے انہیں چپ کرایا گیا۔ ایک شخص کو ڈائریکٹ ایس پی لگانے کا بھی ریکارڈ موجود ہے۔ بعد میں کچھ قوم پرستوں کی جانب سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کا مطالبہ کیا جاتا رہا، حالیہ کچھ عرصے میں گلگت بلتستان میں سیاسی شعور بڑھنے لگا ہے اور خصوصاً نوجوان نسل اس معاملے پر زیادہ حساس نظر آتی ہے۔

اب تو جی بی کے ہر طبقہ، ہر جماعت کی جانب سے اسی طرح کے مطالبات سامنے آرہے ہیں، جو کسی وقت میں قوم پرست جماعتیں ہی کرتی آرہی تھیں اور اس طرح کے مطالبات کو ماضی میں شجر ممنوعہ کا درجہ حاصل تھا۔ زمینوں کے معاملے کا پائیدار حل نکالنے کیلئے سابق نون لیگ کی حکومت نے لینڈ ریفارمز کمیشن قائم کیا، لیکن لیگی حکومت اپنے پورے حکومتی دور میں اس معاملے کو حل کرنے میں ناکام رہی۔ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس معاملے پر کچھ زیادہ ہی دلچسپی دکھائی اور ایک ڈرافٹ بل بھی فائنل کر لیا، جس پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ لینڈ ریفارمز بل کا جو ڈرافٹ سامنے آیا ہے، اس کے تحت تو گلگت بلتستان پہلے سے زیادہ مقبوضہ علاقہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ بل عوام کو زمینوں سے محروم کرنے اور گورنمنٹ لینڈ کے نام پر جی بی کی تمام اہم زمینوں پر حکومت قابض ہونے کی کوشش لگتا ہے۔

قانونی ماہرین اس ڈرافٹ کو نوٹوڑ رول 1978ء کا چربہ کہتے ہیں، جس کے ذریعے بیوروکریسی کو مزید بااختیار بنایا گیا ہے۔ اس ڈرافٹ میں بہت سی خامیاں ہیں۔ مثال کے طور پر ڈرافٹ کے مطابق جو زمین حکومت کے پاس ہے یا حکومت کا دعویٰ ہے، وہ ساری زمین گورنمنٹ لینڈ تصور ہوگی، جس پر عوام کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ سارا جھگڑا ہی یہاں ہے کہ گلگت بلتستان میں بہت سارے میدانوں، داس اور خالی جگہوں پر حکومت قابض ہے، جبکہ عوام کا کہنا ہے کہ یہاں کی ساری زمینوں کے مالک یہاں کے مقامی باشندے ہیں۔ اس مجوزہ بل کے ذریعے جی بی کے اہم ترین علاقے اور زمینیں حکومت کے پاس چلی جائیں گی اور عوام دیکھتے رہ جائیں گے۔ اس ڈرافٹ میں یہ نہیں لکھا گیا کہ کون کون گلگت بلتستان کے پشتنی باشندے ہونگے۔ رائٹ آف اپیل (اپیل کا حق) کا کوئی ذکر نہیں۔

جی بی کا ستر فیصد سے زیادہ رقبہ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہ پہاڑ مقامی لوگوں کی چراگاہیں ہیں، جہاں گرمیوں میں لوگ اپنے سارے مال مویشی لے کر پہاڑوں پر جاتے ہیں، پھر سردیوں میں واپس آتے ہیں۔ بل میں ان پہاڑوں کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ جو زمین جس کے قبضے میں ہے اور جہاں ہے، اس کے مالک وہاں کے مقامی لوگ ہونگے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ خود ریاست کے موقف کے مطابق یہ علاقہ آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے تو پھر ایک بے آئین خطے میں اس طرح کی قانون سازی کس طرح کی جا سکتی ہے، اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے، کون یہاں زمین خرید سکتا ہے، کون نہیں، اس بارے میں بھی کوئی نہیں لکھا گیا۔ انتظامیہ کو مزید بااختیار بنایا گیا ہے اور یہ نوتوڑ رول 1978ء سے ملتا چلتا کاپی ہے۔ غیر مقامی لوگوں کو جو لیز دی گئی ہے، اس کا کیا بنے گا، اس لیز کی کیا حیثیت ہوگی، کوئی نہیں بتایا گیا، کیونکہ پورے گلگت بلتستان کو لیز پر دیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1049648
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش