1
Wednesday 31 Jan 2024 21:30

انتخابی موسم

انتخابی موسم
تحریر: سید حسین نقوی

موسم کی سردی کے ساتھ ساتھ سیاست اور انتخابات کی فضا پر بھی بہت عرصے تک برف جمی رہی ہے بلکہ سیاسی موسم تو 9 مئی سے ہی جمود کا شکار ہے، جسے نہ ہی تیر کی اڑان جانبر کر سکی، نہ شیر کی چنگار اور نہ ہی تبدیلی کی پکار تبدیل کرسکی۔۔۔ مگر الیکشن کے قریب آتے ہی کچھ گہما گہمی اور جوش و خروش نظر آنے لگا ہے۔۔۔ البتہ اس شور میں سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور آئندہ کی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور لعن طعن کی صدائیں زیاد بلند ہیں۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انتحابات کا میدان غربت میں پستے مظلوم عوام کی خدمت، ترقی اور خوشحالی میں سبقت لینے کی بجائے گالی، الزام تراشی اور کیچڑ اچھالنے کا مقابلہ ہے اور جو بھی اس میں سبقت لے گیا، اسے آئندہ 5 سالوں کی حکمرانی سونپ دی جائے گی۔۔۔

افسوس کے ساتھ اجتماعی عوامی رویہ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔۔۔ ہم بطور قوم اس قدر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوگئے ہیں کہ اختلاف نظر کا اظہار کرتے ہوئے "شیر سا چیرتے پھاڑتے"، "زبان سے تیر برساتے" اور "ہاتھوں اور بازووں کو بلے" کی طرح استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔۔۔ ہم من حیث القوم صبر کے وٹامن سے عاری اور جذبات کے پریشر سے سرشار ہیں۔۔۔ اپنی سوچ اور نظریئے کو حرف آخر، اپنی پارٹی کو حق اور اپنے رہبر کو پیر کامل سمجھ کر دوسروں کی سوچ اور نظریئے کو پست، دوسروں کی پارٹی کو باطل اور دوسروں کے رہبر کو کم فہم و ناحق قرار دینا ذہنی پستی، خود پسندی اور احساس کمتری کی علامت ہے۔۔۔

آیا الیکشن، پاکستانی عوام اور ان کے مسائل کے لیے امید کی کرن ہیں یا نہیں۔؟؟ اس سوال کا جواب سمجھ سے بالاتر ہے، چونکہ انتخابات کے نتیجے میں جن ہستیوں کو بطور حکمران مسلط کیا جاتا ہے اور امید کی کرن قرار دیا جاتا ہے، انہی ہستیوں پر ہی مجرم، غدار اور لٹیروں کے تمغے سجے ہوتے ہیں۔۔۔ تو سوال یہ ہے کہ ایک دور حکومت میں مجرم، غدار اور لٹیرے کا اعزاز پانے والی شخصیت اگلے دور حکومت اجالوں، خوشحالی اور ترقی کی امید کیوں کر ہوسکتی ہے۔۔۔؟ اس وقت پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں اور ان کے قائدین ان اعزازات سے ہمکنار ہوچکے ہیں، جبکہ یہی شخصیات "پاکستان کی نجات اور امید آخر" بھی قرار پاتے رہے ہیں۔۔۔ یعنی 
صبح کے تخت نشیں شام کے مجرم ٹھہرے

اور صبح ہوتے ہی وہی عدالتی سند یافتہ مجرم اور گنہگار رات کی تاریکی میں "بارگاہ بزرگ" میں توبہ تائب ہو کر اگلی صبح تخت نشیں ہوتے ہیں اور ہم بادشاہ سلامت کے درباری اک نئے عزم کے ساتھ تالیاں بجانے پر مامور ہو جاتے ہیں۔۔۔ ہمارے معصوم عوام جو کہ "اندھوں میں کانا راجہ" اور "بدترین میں بد" کے انتخاب کو بہتر سمجھتے ہیں۔۔۔ حتیٰ کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ آج کا بد کل کا بدترین رہ چکا ہے۔۔۔ اور اس چیز سے بھی واقف ہیں کہ ان کے نزدیک بد کی منزل پر فائز "بارگاہ بزرگ" میں بدترین کی مسند کا حامل ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ عوام کے نزدیک بدترین تصور کیے جانے والے کو "بارگاہ بزرگ" میں مقبول ترین، قبول ترین اور موزوں ترین کا مقام حاصل ہو۔۔

اس لیے بد اور بدترین کی جنگ میں جان کی بازی لگا دینے کی بجائے دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔۔ البتہ انتخابات بھی پاکستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا اور غموں کا مرہم ہوسکتے ہیں کہ جب اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والے حکمران قانون کی بالادستی، عدل و مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں اور سب سے بڑھ کر خوش گفتار، با کردار اور بااخلاق ہوں، چونکہ جو اچھا انسان نہیں بن سکتا، وہ اچھا حکمران بھی نہیں بن سکتا۔
خبر کا کوڈ : 1112989
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش