1
Thursday 11 Apr 2024 10:42

ریاست چاہیئے تو نظریات بچایئے

ریاست چاہیئے تو نظریات بچایئے
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

اگر ہم واقعتاً اس ملک سے کرپشن اور شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سنجیدگی سے یہ سوچنا پڑے گا کہ آخر ہماری نئی نسل میدانِ عمل میں آتے ہی کرپشن کی شکار کیوں ہو جاتی ہے اور شدت پسندوں کے پیچھے کیوں چلنا شروع کر دیتی  ہے!؟ ہمارے دینی مدارس اور کالجز کے طالب علم طالبان، القاعدہ اور داعش کے نظریات سے کیسے متاثر ہو جاتے ہیں!؟ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس وقت مسلک وہابیت اور مکتب سلفی کے مرکز سعودی عرب میں کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ، طالبان اور خودکُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے لئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دیوبندی مکتب کا مرکز دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں بھی کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ، طالبان اور خودکُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سعودی عرب یا ہندوستان میں اہلحدیث، دیوبندی اور وہابی مسالک کے لوگ کبھی بھی اسلحہ نہیں اٹھاتے! کیوں آخر کیوں!؟ اس کے لئے ہمیں اپنی درسی کتابوں پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے نصابِ تعلیم اور ماحول میں ایسا کیا ہے کہ ہم کرپٹ بھی ہیں اور شدّت پسند بھی۔؟ سی ٹی ڈی صوبہ سندھ کے مطابق اس وقت مدارس کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طالبعلم لے رہے ہیں۔ ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق پہلے جو مدارس سے پڑھتے تھے، وہ افغانستان یا وزیرستان جا کر جہاد کرتے تھے، لیکن اب یہ نئی کھیپ جامعات سے تعلیم یافتہ ہے اور انھوں نے یہ جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کراچی میں داعش کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور ناظم آباد میں داعش سے متاثر لوگ موجود ہیں اور شدت پسندی اب مدرسے سے یونیورسٹی تک آگئی ہے۔

کراچی میں سیاسی جرائم اور جہاد پر ناول کے مصنف اور محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے ایس ایس پی عمر شاہد حامد کا کہنا تھا جامعات کا طالبعلم مدارس کی جگہ لے رہا ہے۔ یہ جو آن لائن نسل ہے، اس کے پاس نظریات و دلائل ہیں، یہ قبائلی علاقے کے مدرسے کے بچے نہیں، جو کہیں جاکر خودکش بم حملے کر دیں۔ ایس ایس پی راجہ عمر خطاب نے بتایا ایک لڑکے سعد عزیز کی ایک لڑکی سے دوستی تھی، وہ اس کے مطالبے پر پورا نہیں اترا اور اس نے مذہب کا رخ کر لیا، اس کی خواہش پر والدین نے عمرے پر بھیج دیا۔ واپسی پر اس نے قرآن کی ترجمے کیساتھ کلاس لینا شروع کی، لیکن اس کو تسلی نہیں ہوئی، اس کے بعد اس کی ایک جگہ انٹرن شپ ہوئی، جہاں اسے ایک لڑکا ملا، جو اسے القاعدہ کی ایک شخصیت کے پاس لے گیا اور اس کے دماغ میں یہ بیٹھ گیا کہ اسوقت تک خلافت نہیں آئے گی، جب تک عسکریت نہیں آئے گی۔

انکا کہنا تھا ایک جامعہ کا استاد نیپا چورنگی کے قریب گھریلو ساختہ بم بناتا تھا اور اس نے یہ تربیت اپنے بیٹے اور بھتیجے کو بھی دی تھی، اس وقت وہ تینوں مفرور اور انتہائی مطلوب ہیں۔ اسی طرح ایک استاد یونیورسٹی کی پارکنگ میں القاعدہ کو فنڈ دیتا تھا، جس کو گرفتار کیا گیا۔ ایس پی مظہر مشوانی نے بتایا کہ انھوں نے کلفٹن سے ایک یونیورسٹی کے استاد کو گرفتار کیا، جو کمپیوٹر سائنس کا مضمون پڑھاتا تھا، اس کا تعلق حزب التحریر سے تھا اور لیکچر کیساتھ ساتھ وہ دس منٹ اپنی تبلیغ کرتا، اس کے علاوہ نمازِ جمعہ کے بعد مساجد کے باہر پمفلٹ تقسیم کیا کرتا تھا، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔

اسی طرح باوثوق ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ٹاپ رینکنگ میں موجود اسلام آباد کی تین اہم یونیورسٹیوں میں داعش کے منظم نیٹ ورک کا انکشاف ہوا، غیر ملکی طلبہ یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور رہائشی علاقوں میں بنائے گئے ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہیں۔ یونیورسٹیوں میں دہشت گردوں کے تبلیغی نیٹ ورکس کے یہ چند نمونے ہیں، اگر ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے تو پھر ہمیں اپنے نصابِ تعلیم پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ نصاب تعلیم ہی کسی قوم کو کسی بھی راستے پر لگاتا ہے۔ ہمارے نصابِ تعلیم میں آخر ایسا کیا ہے کہ ہم نے خود ہی اپنے ملک کو نوچنا، چبانا اور کاٹنا شروع کر دیا ہے؟ ہم ملک و قوم کے دشمنوں کے راستے پر کیوں چل پڑے ہیں۔؟

یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے عیاں ہے کہ ہمارے نصابِ تعلیم میں دشمن شناسی کی کمی ہے۔ دشمنوں کو پہچانے بغیر ہم اپنے دوستوں میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ کسی پلاٹ پر پڑے ہوئے کچرے کے ڈھیر کو اٹھائے بغیر وہاں پر دلکش عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ دشمنوں کی شناخت کے بغیر سب لوگوں کو دوست نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اُن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر دشمنوں کی شناخت نہیں ہوگی تو دوستوں کی صفوں میں جا بجا دشمن گھس جائیں گے۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو قیامِ پاکستان کے دشمنوں اور مخالفین سے آگاہ ہی نہیں کیا۔ چنانچہ ہمارا نوجوان بڑی آسانی کے ساتھ پاکستان کے دشمنوں کے لشکروں میں شامل ہو جاتا ہے اور اپنے ہم وطن پاکستانیوں کو ہی روندنے لگتا ہے۔

ہم بے شک سارے بلوچوں کو ملک دشمن کہہ کر جیلوں میں ڈال دیں، سارے پختونوں کو غدار کہہ کر پابندِ سلاسل کر دیں، سارے سندھیوں کو علیحدگی پسند کہہ کر ٹارچر سیلوں میں جھونک دیں، سارے پنجابیوں پر عدمِ اعتماد کرکے اُنہیں پانچوں دریاوں میں دریا بُرد کر دیں تو اس کے باوجود اس مُلک میں سے کرپشن، دہشت گردی اور شدت پسندی ختم نہیں ہوگی۔ کسی بھی ملک کے پڑھے لکھے بچے اُس ملک کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھاتے۔ حتی کہ ہمارے ہاں کی جتنی بھی شدّت پسند کالعدم تنظیمیں ہیں، وہ اپنے مرکزی ممالک میں کسی بھی مسلک یا مذہب کے خلاف کوئی لشکر یا سپاہ نہیں بناتیں۔ وہاں پر اُن کی امن پسندی کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان کی سعودی عرب اور ہندوستان کے ساتھ ایک ہم آہنگی اور انڈر سٹینڈنگ ہے، جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ بالکل نہیں۔

پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ مکاتب اور شدّت پسند تنظیمیں پاکستان بننے کے ہی خلاف تھیں، سو پاکستان بن تو گیا لیکن ان کی مخالفت اپنی جگہ ایک نئے روپ میں ظاہر ہوگئی ہے۔ ہم نے اپنے نصابِ تعلیم کے ذریعے اپنی قوم کے نونہالوں کو نہ صرف یہ کہ قیامِ پاکستان کے مخالفین سے آگاہ ہی نہیں کیا بلکہ قیامِ پاکستان کے مخالفین کو مطالعہ پاکستان اور تاریخ پاکستان میں بطورِ ہیرو پیش کیا گیا۔ ہمیں سب سے پہلے اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ہوگا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے سلفی و دیوبندی تنظیمیں اور مکاتب قیامِ پاکستان کے خلاف تھے، صرف خلاف ہی نہیں بلکہ کانگرس کے ہم  رکاب، ہم قدم اور ہم خیال بھی، صرف کانگرس کے ہم قدم اور ہم خیال ہی نہیں تھیں بلکہ انہوں نے قائداعظم کو کافراعظم کہا اور پاکستان کو کافرستان کہا!

اِن کانگرس نواز تنظیموں اور مکاتب کو ماضی کی طرح آج بھی سعودی عرب اور ہندوستان کے ساتھ کوئی مشکل نہیں ہے، اُنہیں اگر کوئی مشکل ہے تو آج بھی صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہے۔ جو لوگ جس طرح قیامِ پاکستان سے پہلے قائداعظم کو کافر اعظم کہتے تھے اور پاکستان کو کافرستان، یہ اسی طرح پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قائداعظم کی ریذیڈنسی کو دھماکوں سے اڑایا جاتا ہے، آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا جاتا ہے اور پاک فوج کو ناپاک اور پلید فوج کہا جاتا ہے۔ آج ضروری ہے کہ پاکستان کے نصابِ تعلیم میں خصوصاً تاریخِ پاکستان اور مطالعہ پاکستان میں نئی نسل کو اُن شخصیات، مدارس، مکاتب اور تنظیموں سے آگاہ کیا جائے، جو روزِ اوّل سے ہی قیامِ پاکستان کے مخالف ہیں اور آج بھی پاکستان کے جوانوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے میں مصروف ہیں۔

یہ لوگ ماضی میں بھی کانگرس اور ہندوستان کے دوست اور خیرخواہ تھے اور آج بھی ہندوستان میں یہ ایک اینٹ تک نہیں اکھاڑتے جبکہ آئے روز پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ ٹی ٹی پی کے متعدد دہشت گردوں اور کلبھوشن یادو کے اعترافات اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن دراصل ہندوستان نواز مکاتب اور تنظیموں کے ہی لوگ ہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جیسا بیج بویا جاتا ہے، ویسی ہی فصل تیار ہوتی ہے، اگر ہم اپنی نوجوان نسل کی فصل سے نالاں ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اپنی نوجوان نسل کے ذہنوں میں کیا ایسا کیا بیج بو رہے ہیں، جس کی وجہ سے کرپٹ افیسرز، سیاستدانوں اور اشرافیہ نیز شدت پسندوں کی فصل تیار ہو رہی ہے! اور ہماری نوجوان نسل پاکستان کے دشمنوں کہ آلہ کار بن رہی ہے۔ کرپشن خود شدّت پسندی کی مانند انسانیت، قانون اور ملک و قوم کی نظریاتی اقدار سے بغاوت ہے۔

چنانچہ یہ ہمارے پالسی میکرز اور تھنک ٹینکس کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں ان مکاتب، تنظیموں اور شخصیات کا تعارف کروائیں، جو نظریاتی طور پر پاکستان کے دشمن ہیں۔ ہمارے پالیسی میکرز اور تھنک ٹینکس کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کی شکل میں پاکستان کے خلاف مکتبی اور نظریاتی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ صاف بات ہے کہ اگر ہم اپنی نئی نسل کو قائداعظم اور پاکستان کے دشمن مکاتب اور شخصیات سے آگاہ نہیں کریں گے تو وہ مسلسل پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کار بنتے رہیں گے۔

ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان ہم سب کا خواب ہے، لیکن کسی خالی پلاٹ پر پڑے ہوئے کچرے کے ڈھیر کو اٹھائے بغیر وہاں پر دلکش عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ جب تک ہماری نوجوان نسل دشمن شناس نہیں بن جاتی، تب تک پاکستان سے کرپشن اور  دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔ محکمہ تعلیم کے پالیسی میکرز کو چاہیئے کہ وہ ملک دشمن کرپٹ عناصر اور شدّت پسندانہ رجحانات کی شناخت کے سلسلے میں نصابِ تعلیم کے ذریعے طالب علموں کی درست سمت میں رہنمائی کریں۔ اگر ہمیں ریاست چاہیئے تو نصابِ تعلیم کے ذریعے قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات کو یعنی اپنے قومی و ملی نظریات کو بچانا ہوگا۔

نوٹ:۔ ہم نے تقریباً سات سال پہلے یہ کالم "نصابِ تعلیم اور نظریاتی جنگ" کے عنوان سے لکھا تھا۔ مختلف سائٹس نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اس کے عنوان کو تبدیل کیا۔ اُس وقت ہم سب نامی ویب سائٹ پر یہ کالم "قومی پالیسی ساز اداروں کو کیا کرنا چاہیئے" کے عنوان سے شائع ہوا۔ گذشتہ روز یہ کالم سوشل میڈیا پر دوبارہ وائرل ہوا، جس کے بعد اس کالم کی وجہ سے راقم الحروف کی ساری تحریریں ہم سب کی سائٹ سے ہٹا دی گئی ہیں۔ آٹھ سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا، لیکن یہ کالم اپنی حقانیت کی بنیاد پر آج بھی زندہ ہے۔ یہ ہمارا نکتہ نظر ہے۔ معترضین اس پر نقد لکھنے میں آزاد ہیں۔

تاہم مناسب جواب یا علمی نقد کے بجائے ایک رائے، فکر اور سوچ کا گلہ ہی گھونٹ دینا یہ آزادی رائے کے علمبرداروں کی غیرجانبداری پر سوال ہے۔ اس سے پہلے "آئی بی سی" سمیت چند دیگر روشن فکری اور آزاد صحافت کی علمبردار سائٹوں نے بھی یہی روش اپنائی ہے۔ ہمارے ہاں اس طرح کے برائے نام روشن فکروں کی کثرت ہے۔ ہم صحافت کے نام پر ایسے جانبدارانہ رویّوں کے  باوجود اپنی رائے، فکر اور سوچ کو اپنی مادرِ وطن کی پراپرٹی اور ملکیّت سمجھتے ہیں۔ ہماری دانست میں اپنے ملک و قوم کی حفاظت، ترقی، ارتقاء اور سلامتی کیلئے مفید اور جدید نظریات کو تہذیب، اخلاق، دلیل اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پیش کرنے میں کسی قبیلے، مکتب، گروہ، مسلک، نسل، فرقے، صوبے، علاقے اور لکھاری پر قدغن نہیں ہونی چاہیئے۔ ہم پھر یہی کہیں گے کہ "ریاست چاہیئے تو  نظریات بچایئے۔"
خبر کا کوڈ : 1128000
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش