2
0
Friday 12 Apr 2024 06:34

اپنا دامن بھی جل نہ جائے کہیں

اپنا دامن بھی جل نہ جائے کہیں
تحریر: سید تنویر حیدر
      
11 فروری 1979ء کو ایران میں جہاں خمینیء بت شکن کی قیادت میں شہنشاہیت کے بت کو سرنگوں کر دیا گیا، وہاں ارض ایران پر صیہونیت کے لگائے گئے پودے کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایران میں بننے والی نئی اسلامی حکومت نے ایران کی سرزمین پر قاٸم اسراٸیلی سفارت خانے سے اسراٸیلی پرچم اتار کر اس کی جگہ فلسطینی پرچم لہرا دیا۔ یوں ایران عالمی افق پر اسراٸیل کے سب سے زیادہ مخالف اور فلسطین کی آزادی کے سب سے بڑے حامی ملک کی حیثیت سے نمودار ہوا۔ یہی سبب تھا کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے تھوڑے عرصے بعد ہی صدام حسین کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی جنگ میں اسراٸیل نے صدام حسین کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ صدام جو لبنان کی خانہ جنگی میں اسراٸیل کی حامی ملیشیا کا سب سے بڑا سپورٹر تھا۔

اسراٸیل کی غاصب حکومت جو اپنے دفاع اور سکیورٹی کے ضمن میں اول دن سے حد درجہ محتاط رہی ہے۔ اس نے اپنی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے کسی عرب مسلم ملک کو اپنا دوست کبھی نہیں سمجھا اور کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ ملک کبھی دفاعی اعتبار سے اتنا طاقتور ہو جائے، جس سے مستقبل میں اس کی سلامتی کے لیے خطرے کا معمولی سا بھی امکان پیدا ہو جائے۔ چنانچہ ایسے میں جب صدام حسین کا عراق، ایران سے حالت جنگ میں تھا، اسراٸیل نے عراق کے ایٹمی پلانٹ پر اچانک حملہ کرکے عراق کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کر دیا۔ اسراٸیل کی اس کاررواٸی سے ایک بات ظاہر ہوٸی کہ اسراٸیل کبھی بھی اور کسی صورت میں بھی کسی اسلامی مملکت کو ایک ایٹمی مملکت کے پروٹوکول کے ساتھ دنیا کے ممالک میں برداشت نہیں کرسکتا۔ چاہے وہ ملک دنیا میں اسراٸیل کی سلامتی کا کتنا ہی طرفدار کیوں نہ ہو۔

پاکستان وہ ملک ہے، جس نے شروع دن سے اسراٸیل کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی عوام اپنے بعض حکمرانوں کے اسراٸیل کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے اور اپنے دل میں اس کے وجود کو تسلیم کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود اسراٸیل کے وجود سے شدید نفرت کرتی ہے۔ لہذا اسراٸیل آنے والے وقت میں پاکستان سے بھی اتنا ہی خطرہ محسوس کرتا ہے، جتنا وہ آج ایران سے محسوس کر رہا ہے۔ لمحہء موجود میں اسراٸیل اور ایران کے مابین جو شدید تناٶ کی کیفیت ہے، وہ کسی بھی لمحے ایک بھرپور جنگ کی صورت میں بدل سکتی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اپنی سلامتی کے حوالے سے شدید خوف میں مبتلا اسراٸیلی حکام اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ اسراٸیل عراق کی طرح ایران کی ایٹمی تنصیبات کو بھی اپنے حملے کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ اگر اسراٸیل اس حد تک اپنا قدم بڑھائے تو پھر ہمیں جنرل حمید گل مرحوم کی ایک کہی ہوٸی بات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔

اسراٸیل نے ان کی حیات میں جب ایک بار آج ہی کی طرح ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی تو اس وقت جنرل حمید گل نے کہا تھا کہ کوٸی اس غلط فہمی میں قطعاً نہ رہے کہ اسراٸیل جب ایران کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرنے کا ارادہ کرے گا تو وہ پاکستان کو نظرانداز کر دے گا اور اس کے ایٹمی اثاثوں کو کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دے گا۔ وہ اپنے وجود کو سلامت رکھنے کے لیے ایک ہی بار دوجانبہ کاررواٸی کرے گا۔ لہذا ضروری ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار ہندوستان اور افغانستان کی جانب سے کسی ممکنہ خطرے کے ساتھ ساتھ اسراٸیل پر بھی نگاہ رکھیں اور ایران اور اسراٸیل کے مابین کسی ممکنہ جنگ کو محض ان دو ممالک کی آپس کی لڑاٸی سمجھ کر خود کو اس آگ سے زیادہ دور نہ سمجھیں بلکہ یاد رکھیں کہ اس پھیلتی آگ کے شعلے ہمارے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1128094
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہترین تجزیاتی تحریر
Pakistan
صاحب قلم کی جانب سے
بہ عنوان
سر افق
یہ ایک بہترین تجزیاتی تحریر ہے۔
کاش کہ ملت مسلمہ کے کان مستقبل کی آواز حال میں سماعت کرنے کے قابل ہوتے۔
منتخب
ہماری پیشکش