0
Sunday 14 Apr 2024 15:48

جائز دفاع

جائز دفاع
تحریر: سید رضی عمادی

شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارتی تنصیبات پر صیہونی حکومت کے مسلح حملے کے جواب میں، اسلامی جمہوریہ ایران نے اتوار 14 اپریل 2024ء کی صبح مقبوضہ علاقوں میں فوجی اہداف پر براہ راست ڈرون اور میزائل حملے شروع کیے۔ یکم اپریل 2024ء کی شام کو صیہونی حکومت نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر ایک مجرمانہ کارروائی کرتے ہوئے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ایران کے سات اعلیٰ فوجی مشیروں کی شہادت ہوئی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی اور سپریم کمانڈر انچیف نے تل ابیب کی اس کارروائی کو اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر حملہ قرار دیا اور تاکید کی کہ صیہونی حکومت کو "سزا" دی جائے گی۔ گذشتہ 45 سالوں میں اسلامی جمہوریہ ایران پر متعدد بار بالواسطہ اور بلاواسطہ حملے کیے گئے، لیکن ان حملوں کے پیش نظر اس نے "تزویراتی تحمل" کا مظاہرہ کیا اور خطے کی سلامتی کے لیے اپنے عزم کی وجہ سے کسی بھی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے کل رات جو کچھ کیا، وہ اسرائیل کے خلاف ایک "تعزیری" کارروائی تھی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 میں موجود "جائز دفاع" کی ایک حقیقی مثال ہے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کی صدر محترمہ وینیسا فریزر کو ایک خط لکھا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ "فوجی کارروائی کے جواب میں اپنے دفاع کا اسلامی جمہوریہ ایران کا مسلمہ حق ہے، جسے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

اسرائیلی حکومت کی بارہا فوجی جارحیتوں، خاص طور پر ایرانی سفارتی تنصیبات پر فوجی حملے کے جواب میں ایران نے جو موقف اپنایا، وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2، کے پیراگراف 4 کے مطابق ہے۔ "صیہونی حکومت نے امریکہ کی حمایت اور تعاون سے غزہ میں نسل کشی کو جائز دفاع قرار دیا، کیونکہ اسے 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کا سامنا کرنا پڑا۔ غزہ میں نسل کشی کے خلاف جائز دفاع کا دعویٰ جھوٹا تھا، کیونکہ غزہ کے عوام کے پاس اس اقدام کا جواز یہ ہے کہ فلسطینی عوام بالخصوص غزہ کے عوام سات دہائیوں سے زائد عرصے سے صیہونی حکومت کے  منظم تشدد کے خلاف جائز دفاع تھا۔

دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر صیہونی حکومت کے حملے کے خلاف کل رات اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی کارروائی بھی ایک جائز دفاع تھی۔صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی فیصلہ کن کارروائی کی ایک بڑی وجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام میں ایران کی سفارتی تنصیبات کے خلاف صیہونی حکومت کی مسلح کارروائی کی مذمت میں عزم کی کمی اور اس کونسل کی نااہلی ہے۔ سلامتی کونسل کی بے عملی اور حتیٰ اس کونسل کے بعض ارکان کی طرف سے اسرائیل کی حمایت بالخصوص امریکہ کی حمایت نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے دفاع میں مقبوضہ فلسطین کے خلاف فوجی کارروائی کرنے پر مجبور کر دیا۔

امیر سعید ایروانی نے اس تناظر میں کہا ہے "بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی اور اس نے اسرائیلی حکومت کو سرخ لکیروں اور بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی اجازت دی، جس نے خطے میں کشیدگی میں اضافہ اور علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔" ایک اور نکتہ یہ ہے کہ؛ صیہونی حکومت کے خلاف فوجی کارروائی میں اسلامی جمہوریہ ایران نے کسی شہری مقام یا شخص کو نشانہ نہیں بنایا۔

حالانکہ صیہونی حکومت نے ایران کے سفارت خانے کو نشانہ بنایا، جو کہ ایک سفارتی جگہ ہے، جس کو استثنیٰ حاصل ہے اور دوسری طرف وہ غزہ میں تقریباً سات ماہ سے شہریوں کے خلاف سنگین ترین جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی کارروائی ایران کی ارضی سالمیت کی حمایت میں صرف پہلا قدم تھا اور اگر اس حکومت نے ایران کے فوجی اقدام پر ردعمل ظاہر کیا تو ایران کی جانب سے صیہونی حکومت کے خلاف مزید وسیع اور سخت کارروائی کی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 1128673
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش