0
Tuesday 16 Apr 2024 12:08

یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا

یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا
تحریر: سید تنویر حیدر
 
ایران مخالف تکفیری اور ان کے ہم خیال گذشتہ پچاس سال سے عالمی استکبار کے خلاف ایران کی ہر کامیابی کو اس کی ناکامی کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں اور اسراٸیل کے خلاف ایران کے ہر راست اقدام کو کسی نہ کسی طرح اسراٸیل کی حمایت میں الٹا کرکے دکھانے کی تگ و دو میں رہے ہیں۔ گویا وہ اس طرح بغیر پاٶں کے جھوٹ کو مصنوعی پاٶں لگا کر اسے چلانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ جھوٹ چند قدم چلتا ہے اور پھر لڑکھڑا کر اوندھے منہ گر جاتا ہے۔ مثلاً ایران کے اسراٸیل پر حالیہ حملے کے حوالے سے ان کے گھڑے ہوئے جھوٹوں میں سے ایک سفید جھوٹ یہ ہے کہ ایران نے اسراٸیل پر یہ حملہ فلسطینیوں کے دکھ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے جرنیلوں کا انتقام لینے کے لیے کیا ہے۔

ایسے متعصب تجزیہ نگاروں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ بتاٸیں کہ اسراٸیل کی آخر ایران سے دشمنی ہے کیا کہ وہ ایک عرصے سے ایران کی اہم شخصیات اور مفادات کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یقیناً ایران سے اسراٸیل کی مخاصمت کی واحد وجہ ایران کی فلسطینیوں کی ہر طریقے سے حمایت ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ اگر بھولنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں اچھی طرح یاد ہوگا کہ ایرانی مسلح افواج کی اسراٸیلی افواج پر براہ راست حملے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے بلکہ اس سے قبل ایران 1982ء میں اپنی زمینی افواج کو اسراٸیل کی افواج کے مدمقابل لاچکا ہے۔

قارٸین کو یاد ہوگا کہ یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کا ہیڈکوارٹر جب لبنان میں تھا تو اسراٸیلی افواج نے لبنان سے ”پی ایل او“ کو بے دخل کرنے کے لیے 1982ء میں لبنان پر حملہ کر دیا تھا۔ یاسر عرفات نے اس موقع پر تمام مسلم ممالک کی افواج سے اپیل کی تھی کہ وہ اس کی مدد کریں۔ اس وقت واحد ایران کی فوج تھی جو لبنان کی سرزمین پر اتری تھی، لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو اسراٸیل کے خلاف لڑنے سے روک دیا، خود اسراٸیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی جماعت پی ایل او کو لے کر لبنان کی سرزمین سے کوچ کر گیا اور اپنا ٹھکانا تیونس میں بنا لیا۔ یہاں ایران پر تنقید کرنے والوں سے سوال یہ ہے کہ کیا ایران نے یاسر عرفات کی اپیل پر اپنی جو فوج لبنان بھیجی تھی، اس کا سبب اس سے پہلے اسراٸیل کی طرف سے ایران کے کسی جنرل کا قتل تھا۔؟

یقیناً ایسا ہرگز نہیں تھا بلکہ ایران کا یہ اقدام صرف اور صرف مشکل وقت میں فلسطینیوں کے ساتھ اپنی عملی یکجہتی کے اظہار کے لیے تھا۔ یہاں ایک سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ آخر یاسر عرفات نے ایران کی افواج کی مدد لینے سے انکار کیوں کیا۔؟ اس کا جواب ایک سیکولر تنظیم کے سربراہ یاسر عرفات نے خود دیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک کو کسی بھی طور مذہبی رنگ نہیں دینا چاہتا۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خمینی نے اس وقت یاسر عرفات کو مخاطب کرکے یہ فرمایا تھا کہ وہ اسراٸیل کے مقابلے میں اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی جدوجہد کسے علاقے کے لیے نہیں بلکہ دین اسلام کے لیے ہونی چاہیئے۔

آج جو تکفیری اور فرقہ پرست عناصر ایران کی اسراٸیل کے مقابلے میں کامیابی کو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کی کامیابی دراصل ایک خاص مسلک کے لوگوں کی کامیابی ہے۔ حالانکہ امام خمینی کا ایک مشہور جملہ ہے کہ ”جو کوٸی شیعہ اور سنی کی بات کرتا ہے، وہ شیعہ ہے، نہ سنی بلکہ صیہونیوں کا ایجنٹ ہے۔“ آج ایران جس طرح سے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں خم ٹھونک کر کھڑا ہے، تمام مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ بلا تفریق مسلک اس کی حمایت کریں۔ لیکن ایسے تکفیریوں کا کیا جائے، جن کے رہنماٶں نے انہیں یہ سمجھایا ہوا ہے کہ ایران آپ کے لیے اسراٸیل سے زیادہ خطرناک ہے۔
خبر کا کوڈ : 1129053
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش