13
0
Tuesday 18 Feb 2014 10:25

تجلی حکومت حق بر روئے زمیں

تجلی حکومت حق بر روئے زمیں
تحریر: عرفان علی
 
اس مقالے میں ایرانی معاشرے کی ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں تین مرتبہ ایران جاچکا ہوں اور ہر مرتبہ اپنی معلومات میں اضافہ کرکے ہی لوٹا۔ وہاں کا مشاہدہ کیا، تب پتہ چلا کہ علامہ اقبال نے تہران کو عالم مشرق کا جنیوا بنانے کی خواہش کیوں ظاہر کی۔ اس مقالے کے عنوان کے الفاظ میرے نہیں بلکہ ایران کے صوبہ گلستان کے آئمہ جمعہ اہلسنت کا کہنا ہے کہ 22بہمن یعنی 11 فروری روئے زمیں پر معنوی اسلحے سے لیس حکومت حق کی تجلی کا دن ہے۔ صوبہ خراسان شمالی کے گورنر کے مشیر برائے امور اہلسنت آخوند گلدی کمالی کہتے ہیں کہ ایران کا اسلامی انقلاب بیداری اسلامی کی سب سے بڑی تحریک اور امت اسلامی کی وحدت و بقا کا ضامن ہے۔

ایران کے سنی مسلمانوں میں علمائے دین کے لئے زیادہ تر تین اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ کرد علاقوں میں ماموستا، بلوچ علاقوں میں مولوی اور آخوند اور یہی دونوں اصطلاحات ترکمن علاقوں کے علماء کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ ایران کی طاقت ور مجلس خبرگان میں سیستان و بلوچستان سے منتخب نمائندے مولوی نذیر احمد اسلامی نے انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی ریلیوں میں عوام کی شرکت کو قومی و اسلامی فریضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان ریلیوں میں عظیم الشان عوامی شرکت نے دشمنوں کی سازشوں پر ناکامی کی مہر ثبت کر دی۔

کردستان سے مجلس خبرگان کے منتخب نمائندے ماموستا عبدالرحمان خدائی ہوں یا بوشہر کے مولوی خلیل عرفہ ہوں، ایرانی قومی اسمبلی مجلس شورائے اسلامی میں سنی بلاک کے فعال رکن حامد قدر مرضی ہوں یا جرگلان کے امام جمعہ اہلسنت آخوند صمدی، سبھی اس انقلاب کو اپنا قرار دیتے ہیں۔ اگر میں نام لکھنے بیٹھوں تو ایران کے طول و عرض میں ایسی متعدد سنی شخصیات ہیں جو ایران کو ایک جدید معتدل، روادار اسلامی معاشرہ و سیاسی نظام اور اتحاد اسلامی کا علمبردار قرار دیتی ہیں۔ ایران کی پارلیمنٹ میں 20 تا 25 ارکان سنی ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ تر سیستان و بلوچستان، کردستان، گلستان اور خراسان صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ سب حقائق بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو یہ بتایا جائے کہ شیعوں کا یہ انقلاب سارے مسلمانوں کا ہے اور دنیا کے سارے مستضعفین کا بھی ہے۔ خواتین کا بھی اس طرح ہے جیسے مردوں کا۔ ایران میں خواتین اراکین اسمبلی بھی کوٹے کی خیرات کے بجائے براہ راست الیکشن میں منتخب ہوتی ہیں اور ان کی ایک معقول تعداد براہ راست الیکشن لڑ کر زیادہ ووٹ حاصل کرکے منتخب ہوتی ہیں۔ ریڈیو تہران کے صدر دفتر جاتے ہوئے راستے میں ایک کئی منزلہ عمارت دیکھی، جس پر ان شہداء کی تصاویر پینٹ کی گئیں ہیں ہے جو غیر مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ حال ہی میں ایک ویب سائٹ پر ایرانی صدر حسن روحانی کی تصویر دیکھی، جس میں وہ ایک سنی شہید کے گھر ان کے خانوادے کی دلجوئی کر رہے تھے۔

امور اہلسنت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے بھی کئی علاقوں میں مشیر مقرر کر رکھے ہیں۔ میں نے خود زاہدان میں جس مسجد میں نماز ادا کی وہاں سنی نمازیوں کو دیکھا، حتٰی کہ قم جیسے شیعہ اکثریتی علاقے میں بی بی فاطمہ معصومہ (س) کے حرم مطہر پر ایک افغانی سنی سے ملاقات ہوئی۔ معروف پاکستانی سیاح الطاف شیخ صاحب نے ایرانی سفرنامے میں لکھا کہ وسطی ایشیائی عالم دین کو تہران میں دیکھا جو زاہدان کے دورے پر جا رہے تھے۔ الطاف شیخ ہوں یا میں، ہم نہ تو وہ پہلے شخص ہیں اور نہ ہی آخری کہ جنہوں نے ایران کے موضوع پر طبع آزمائی کی بلکہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ہی امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں یہاں لوگ جانتے تھے۔ 

ایک برطانوی اخبار کے لئے الطاف گوہر صاحب نے امام خمینی کی حمایت میں لکھا، حالانکہ اس وقت شاہ ایران مطلق العنان حکمران تھا۔ پاکستانی سفارتکار و ادیب مختار مسعود صاحب اس انقلاب کی کامیابی کے چشم دید گواہ تھے۔ جلاوطنی کے خاتمے پر امام خمینی کی ایران کی واپسی کے مناظر کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ مہر آباد کے ہوائی اڈے سے بہشت زہرا کے قبرستان تک سارا راستہ دیدار کے لئے آنے والوں سے پٹا پڑا ہے۔ یہ فاصلہ تینتیس کلومیٹر ہے۔ لوگ پروانہ وار کھنچے کھنچے آئے ہیں۔ دیوانہ وار منتظر کھڑے ہیں۔ اس موقع پر ٹیلی ویژن پر پہلوی خاندان کا شاہی ترانہ بج رہا ہے۔ بے عقلی کوئی شہر نہیں کہ اس کی فصیل ہو، حماقت کوئی ملک نہیں کہ اس کی سرحد ہو۔ یہ ایک خلا ہوتا ہے جس میں ہر شے بے وزن اور معلق ہوتی ہے۔ تہران کا ٹی وی اس وقت ایسے ہی ایک خلا میں تیر رہا ہے۔

اپنی کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں امام خمینی کی تقریر کے بارے میں لکھا کہ ’’جذبات، شعریت اور خیال بندی سے خالی تھی۔ جوش، ہیجان، آگ اور دھوئیں سے عاری تھی۔ نہ کوئی فخریہ بات جو ایسے موقع پر بے اختیار منہ سے نکل جاتی ہے۔ نہ فتح مندی کا نشہ جو کامیابی کے بعد بن بتائے چڑھ جاتا ہے۔ ساری تقریر استدلالی اور منطقی تھی۔ اس تقریر پر ایک جہاں دیدہ سفیر کا تبصرہ صرف اتنا تھا: ڈرو اس شخص سے جو اپنے نفس پر اتنا اختیار رکھتا ہو۔‘‘ مختار مسعود صاحب کے الفاظ میں اتنے سارے لوگ خود بخود استقبال کے لئے جمع ہوگئے کہ تبصرہ نگار تاریخ کی کتابیں کھنگال رہے ہیں۔’’ اچھا یہ ہے وہ مرد درویش جس نے ایک بادشاہ سے ٹکر لی اور اس کا تختہ الٹ دیا، اور بادشاہ بھی کیسے کروفر والا بادشاہ۔ شاہوں کا شاہ۔ تیل سے مالا مال ملک کا فرماں روا۔ فرمانبردار فوج کا سردار، سپر پاور کا منظور نظر، مطلق العنان اور جابر۔ دوسری طرف ایک شخص تن تنہا اور خالی ہاتھ۔ قلندر صفت، جز دو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا۔‘‘

1983ء میں ارشاد احمد حقانی صاحب نے ایران کا دورہ کیا۔ کالم لکھے اور اگلے سال ’’انقلاب ایران، ایک مطالعہ‘‘ کتاب تحریر کی۔ ملاحظہ فرمائیے کہ آج سے تیس سال قبل لکھے ہوئے یہ الفاظ آج کے نوجوانوں کو ایران کے بارے میں کتنی اہم خبر سے آگاہ کر رہے ہیں۔ لکھا کہ انقلاب ایران سے دونوں عالمی طاقتیں ناراض ہیں۔ (تب سوویت یونین کا سقوط نہیں ہوا تھا)۔ امریکہ اور مغربی بلاک کی انقلاب دشمنی تو ظاہر و باہر اور دن کے سورج کی طرح عیاں ہے۔ اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں کہ مغربی اقوام امریکہ کی قیادت میں انقلابی ایران کا چراغ بجھانے کی فکر میں ہیں اور اولیں موقع ملتے ہی وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے کوئی بڑے سے بڑا اقدام اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ روس (یعنی سوویت یونین) بھی انقلابی حکومت سے ناخوش ہے۔ ایران کی افغان پالیسی پاکستان سے بھی زیادہ غیر مصالحانہ اور بے لچک ہے۔ یہ حقانی صاحب جیسی شخصیت کے تاثرات تھے جو خود اس انقلاب پر تنقید سے باز نہیں آتے تھے۔

افضل حیدر، ڈاکٹر مرزا عسکری حسین، ثاقب اکبر سمیت کئی دیگر افراد نے ایران کا سفر کیا اور لکھا۔ ڈاکٹر مرزا عسکری اور ڈاکٹر زاہد علی زاہدی سمیت کئی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے انقلاب یا ولایت فقیہ پر پی ایچ ڈی کی۔ اس وقت ہمارے ایک دوست آغا علی محمد پاکستان میں شہید مرتضٰی مطہری پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے کمیونسٹ دانشور سبط حسن صاحب نے بھی انقلاب پر لکھا، لیکن اسے کسی اور نظر سے دیکھا حالانکہ عالمی سامراج کی غیر مشروط، بے لاگ اور بے لچک مخالفت اس انقلاب کی ناقابل فراموش خصوصیت تھی۔ غالباً سوویت یونین کی سامراجیت کو جائز سمجھنا وہ واحد سبب تھا جس کی وجہ سے سبط صاحب کا زاویہ نظر مختلف رہا، ورنہ حقانی صاحب نے اپنے سفرنامے کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’عام تاثر یہ ہے کہ ایرانی حکومت کا جھکاؤ کمزور طبقات کی امداد و اعانت کی طرف ہے۔ ایک پاکستانی نے جو گذشتہ دس سال سے ایران میں مقیم ہے، نے راقم کو بتایا کہ دنیاوی لحاظ سے بڑے آدمیوں کو اب موجودہ حکومت میں کوئی اثر و رسوخ حاصل نہیں اور آپ تعلقات کے حوالے سے کوئی کام نہیں کرواسکتے۔‘‘

پاکستانیوں کی ایرانیوں سے محبت یکطرفہ نہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں سے ایرانی کتنی محبت رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ تہران میں امام خمینی کا حرم مطہر ہو، قم ہو یا مشہد و زاہدان، جہاں بھی گئے ایرانیوں کو پاکستانیوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ دیکھا، ہر ایک نے ہماری احوال پرسی کی۔ آج جب دنیا میں انقلاب کی پینتیسویں سالگرہ منائی جارہی ہے تو دنیا بھر میں یہ منظر بھی دیکھا جارہا تھا کہ تہران میں بانی پاکستان کے نام سے موسوم ایک طویل شاہراہ خیابان محمد علی جناح پر لاکھوں ایرانی برج آزادی کی جانب رواں دواں تھے۔ علامہ اقبال کی برسی و سالگرہ ایران میں اسی طرح منائی جاتی ہے جیسے پاکستان میں۔ وہاں یوم کشمیرپر بھی تقریبات ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کشمیر کو جنت نظیر خطہ کہتے ہیں لیکن اہل نظر اسی کشمیر کو ایران صغیر قرار دیتے ہیں۔ خدا اس روئے زمین پر ہماری جنت ایران اسلامی کو سدا سلامت، شاد و آباد رکھے۔
خبر کا کوڈ : 352825
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
سلام عرفان بھائی
ایرانیوں نے اپنے ایک مترو کے اسٹیشن صادقیہ پر ایک ٹرمینل کا نام محمد علی جناح ٹرمینل رکھا ہوا ہے۔
hmmmm ... qom mein bithey chnd log pakistan ke mohib kaisey ban saktey hein ?!!! jo log apni qomi zaban bhi bhool chkey hein !!! is tahreer mein sarasar farsi alfazat istemal se ye maloom hota he ke ye log ab apney aap ko irani samjhtey hein
سلام
دوستوں سے عرض کہ زیادہ سے زیادہ اس کالم پر تبصرہ فرمائیں، فیس بک، ٹوئٹر، پر شیئر کریں، تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ یہ انقلاب ہم سب کا انقلاب ہے اور تعصبات و تنگ نظری سے دور ہے۔
غلام حسین
Pakistan
shah surkhi pure urdu r jazib alfaz men den plz.
دوستوں کی رائے کا شکریہ
شہہ شرخی ایرانی اہلسنت کے الفاظ ہیں نہ کہ میرے۔
جس بھائی کو شکایت ہے کہ قومی زبان بھول چکے ہیں وہ اپنی اردو درست کرلیں اردو زبان میں کوئی لفظ الفاظات نہیں پایا جاتا۔ لفظ کی جمع الفاظ ہے نہ کہ الفاظات۔ اردو لشکری زبان ہے اور اس میں فارسی کے الفاظ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں دو طرح کی اردو بولی جاتی ہے یا فارسی الفاظ زیادہ ہوں گے یا پھر ہندی الفاظ
تو پہلے قومی زبان کی تاریخ اور قواعد سمجھ لیں، اس کے بعد کچھ کہیں۔ اگر کسی کو اردو نہیں آتی تو اسے اس تحریر میں فارسی ہی نظر آئے گی ورنہ یہ اردو ہی کے الفاظ ہیں۔ رہ گئی بات محب وطن ہونے کی تو اس وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ اسے ایران جیسا خود مختار اور آزاد ملک بنایا جائے کہ امریکا سمیت کوئی بھی ملک جس کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔
جس دوست نے صادقیہ اسٹیشن کی بات کی مجھَے اس کا علم نہیں۔ یہ کس شہر اور صوبے میں ہے اور یہ لفظ زیر زمین میٹرو اسٹیشن ہے غالبا مجھے یہاں متروکے دیکھنے میں آیا میں اسے متروکہ سمجھا۔
کیا کہنے، اب اردو سے نابلد لوگ بتائیں گے کہ اردو کیا ہے۔ جنہیں فارسی سمجھ نہیں آرہی انہیں معلوم ہو کہ فارسی میں بھی کئی الفاظ عربی سے لئے گئے ہیں۔ اردو میں فارسی، عربی، ترکی الفاظ بھی شامل ہیں۔ اگر بندہ جاہل ہو تو اپنے جہل کو دور کرے نہ کہ ادیبوں کی توہین کرے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارشاد حقانی جنگ کے کالم میں جو الفاظ استعمال کرتے تھے اگر وہ اس تحریر میں استعمال ہوتے تو نہ جانے کیا حال ہوتا۔ حقانی نے لکھا متبائن، اب بتائو کبھی اردو میں یہ لفظ پڑھا بھی ہے۔
آصف
عرفان بھائی اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پاکستان کی خاطر شہادتیں پیش کیں۔ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ظم و ستم سہے، اب ایک صاحب بڑے پاکستان کے چیمپیئن بن رہے ہیں۔ اب پاکستان پر قربان ہونے والوں سے یہ پوچھیں گے کہ پاکستان کے محب کیسے ہوسکتے ہیں۔ اپنا نام پتہ بتائو ہم خود تحقیقات کرکے قوم پر ظاہر کردیں گے کہ تم نے پاکستان کے لئے آج تک کونسا تیر مارا ہے۔
یوسف
یہ تحریر ایران کے اندرونی حالات اور پاکستانیوں اور ایرانیوں کے برادرانہ تعلقات کے بارے میں ہے۔ لہذا جاہلانہ اور غیر متعلق تبصرے نہ کئے جائیں۔ خاص طور پر جو صاحب الفاظات کو بھی اپنی اردو میں شامل کرکے اپنی پاکستان پرستی اور اردو پرستی پر محمول کر رہے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ بھائی پہلے اچھی طرح اردو سمجھ لو اور دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنی اردو کی اصلاح کرلو۔ لفظ تجلی، حق، مطہر وغیرہ یہ عربی الفاظ ہیں کل کو یہ مت کہہ دینا کہ قران کی زبان بھی پاکستان دشمنی ہے۔ اگر لفظ محمول سمجھ نہ آئے تو کسی سے پوچھ لینا۔
عائشہ
ارے بھائی ایران کے بارے میں بات ہو اور فارسی الفاظ پر اعتراض چہ عجب! فارسی شکر است۔ علامہ اقبال نے کہا
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے کہتے تھے اہل نظر ایران صغیر
کچھ سمجھے ہمارا سب سے خوبصورت خطہ کشمیر بھی ایران صغیر ہے سوچو ایران کیا ہوگا؟ صغیر عربی لفظ ہے کہیں اس پر تو اعتراض نہیں کروگے کہ یہ بھی سمجھ نہیں آیا۔
پوگو دیکھو بھائی، پوگو، رضا
ایک ایسی تحریر جسے پڑھنے کے لئے آنکھیں ترس گئی تھیں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ایران شیعوں کا ملک ہے لیکن اب پتہ چلا کہ سنی مسلمان بھی اسے own کرتے ہیں۔ غیر مسلم اقلیت نے بھی اپنے مادر وطن ایران کے لئے شہید پیش کئے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے ایرانیوں کی یہ محبتیں، اس موضوع پر مزید لکھیں جناب، ایک کالم کافی نہیں۔ فہیم رضا
ایک صاحب کا تبصرہ یہاں دیکھا کہتے ہیں کہ لوگ اپنی قومی زبان بھی بھول چکے ہیں اور یہ بھی لکھا کہ اس تحریر میں سراسر فارسی الفاظات کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان صاحب سے گذارش ہے کہ پہلے خود اردو زبان کو اتنی اہمیت دیں کہ تبصرہ اردو رسم الخط میں لکھیں انگریزی رسم الخط سے گریز کریں، دوسرا یہ کہ خود بھی اردو سیکھ لیں کیونکہ سراسر بھی فارسی لفظ ہے اردو کا نہیں۔ رسم الخط کی اردو اگر معلوم ہوجائے تو شیئر کریں، الفاظات کس زبان کا لفظ ہے اس کی بھی وضاحت کریں اور یہ بتائیں کہ پاکستان کے وہ تمام شعراء و ادیب اور خاص طر پر علامہ اقبال کیا محب وطن نہیں تھے اور اگر تھے تو انہوں نے فارسی الفاظ استعمال کیوں کیے۔
اتنی اچھی مفصل تحریر پر جاہلانہ تبصرے سے بہتر تھا کہ لغت دیکھ لیتے تاکہ معلوم ہوجاتا کہ ان کی سمجھ میں نہ آنے والے الفاظ کے معانی کیا ہیں۔ خود اگر تبصرے میں جہالت کا اعتراف کرلیتے کہ ان ان الفاظ کے معانی سمجھ نہیں آئے تو شاید اگلی مرتبہ کالم نگار ان سے اجتناب کرتے یا انہیں معانی بتا دیے جاتے۔ ایسی باتوں سے آدمی کو ارسطو نہیں سمجھا جاتا دوست بلکہ پاکستانی ایسے افراد کو جانو جرمن کہتے ہیں۔ کوئی بات بری لگے تو معافی چاہتا ہوں۔
حسیب
میری گذارش کہ اب اس الفاظات والے دوست پر تبصرہ نہ کرِیں تحریر پر تبصرہ کریں۔ اسد میرا خیال ہے کہ صادقیہ اسٹیشن اسی خیابان یا بزرگراہ محمد علی جناح پر ہے، ٹرمینل تو وہاں جنوب ہے شاید۔ وہاں ایک پل کو بھی اس خیابان کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے۔ البتہ اصفہان اور مشہد میں خیابان اقبال لاہوری (یعنی علامہ اقبال) ہے۔ البتہ جس دوست نے جاذب اردو الفاظ میں سرخی کی بات کی بصد احترام کہوں گا کہ بھائی اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو اپنے الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ کرتا۔ اگر مجھے تجلی حکومت حق اور بر روئے زمیں کے معانی نہیں آتے تو خدا جانتا ہے کہ ایسی تحریر کے بعد اسے یاد کرلیتا، بڑوں سے پوچھتا، لغت میں دیکھ کر سمجھتا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام خدا کی تجلی دیکھنے کوہ طور پر گئے۔ عربی میں پہاڑ کو جبل اور فارسی میں کوہ کہتے ہیں۔ پاکستانی دونوں الفاظ سے آگاہ ہیں۔ میں مشکل الفاظ کے استعمال کا عادی ہی نہیں ہوں۔ اگر کوئی اور لکھتا تو اس میں ایرانی اصطلاحات ہوتیں جبکہ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جو بھی اردو پڑھنا لکھنا جانتا ہے وہ گواہی دے گا کہ اس میں کوئی لفظ ایسا نہیں جو پاکستان میں بولا یا سمجھا نہ جاتا ہو۔ آپ اس عنوان کو یوں پڑھیں: "روئے زمیں پہ حکومت حق کی تجلی کا دن"۔ کیا یہ مناسب ہے؟؟
عرفان
Iran, Islamic Republic of
سلام عرفان بھائی روئے زمین پہ حکومت حق کی تجلی کا دن ۔ ۔ ۔ ماشاءاللہ
آپ کے علاقے کی ربڑی بڑی مشہور ہے۔ عارف اور لابیب کو پیار۔
آپ کا کالم پڑھ کر خوشی ہوتی ہے۔
منتخب
ہماری پیشکش