0
Saturday 18 Jan 2020 12:40

مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں ہمارا مصالحانہ کردار

مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں ہمارا مصالحانہ کردار
تحریر: تصور حسین شہزاد

ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایران، سعودی عرب اور امریکہ کا دورہ کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ ایران کشیدگی میں پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ غیر جانبدار رہیں گے، مگر یہ عجب صورتحال ہے کہ ہم امریکہ کے کھلے اتحادی ہوتے ہوئے بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم "غیر جانبدار" ہیں۔ جہاں حق اور باطل کی جنگ ہو رہی ہو، تو ہم کتنے بزدل ہیں کہ حق کا ساتھ بھی نہیں دے سکتے اور باطل کو یقین دہانیاں کروا رہے ہیں کہ ہم تو اُن کیساتھ نہیں ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے تینوں ملکوں کو دورہ کیا، یہ دورہ کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب حکومتی حلقوں سے یہ آیا کہ پاکستان، امریکہ ایران گشیدگی میں مصالحت کروا رہا ہے۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ ہمارے وزیر خارجہ کی حیثیت ہی کیا ہے؟ وہ وزیر خارجہ جو ہر پالیسی محمد بن سلمان کی ہدایت اور اشارہ آبرو کے تابع بنائے وہ کیا مصالحت کروائے گا؟۔

ہم غیر جانبدار اور "آزاد" ہوتے تو ملائیشیاء کانفرنس میں ضرور شرکت کرتے۔ بن سلمان نے ایک اشارے سے منع کر دیا، اور ہم چپ سادھے، بلکہ سانس روکے گوشے میں بیٹھ گئے۔ یہ کہاں کی آزادی ہے؟؟ ہمارے موجودہ حکمران جب سے اقتدار میں آئے ہیں، سب سے زیادہ دورے سعودی عرب کے کئے گئے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ ہمیں قرض دے کر سعودی عرب نے ہماری خودی گروی رکھ لی ہے۔ ہم نے اپنے آدھی خودی امریکہ (آئی ایم ایف) اور آدھی خودی ریاض (محمد بن سلمان) کے پاس گروی رکھ دی ہے۔ ہمارے اپنے دامن میں کچھ بھی نہیں بچا۔ آئی ایم ایف والے بھی اپنی ہی پالیسیاں ہم پر مسلط کر رہے ہیں جس کی واضح مثال گیس، بجلی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ یعنی آئی ایم ایف ہمیں اِس شرط پر قرض دیتا ہے کہ اس کا سود ادا کرنے کیلئے ہم بجلی، گیس اور دیگر اشیاء مہنگی کریں، اس مہنگائی سے حاصل ہونیوالا سرمایہ سود کی مد میں چلا گیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سود تو قوم نے ادا کر دیا، وہ قرض کی رقم کہاں گئی؟ اس کا حساب کون دے گا؟

اسی طرح سعودی عرب والے بھی ہمارے ساتھ آئی ای جیسا ہی سلوک روا رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی ہمیں قرض کیا دیا، آئی ایم ایف سے بھی بڑھ کر ہمارے سر پر مسلط ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم چُوں چَراں بھی نہیں کر سکتے۔ اس کی مثال بچے بچے نے دیکھی ہے کہ ہم کوالالمپور کانفرنس میں جانے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ بن سلمان نے دھمکی دے ڈالی کہ اگر کانفرنس میں شریک ہوئے تو 3 ارب ڈالر کا قرض واپس لے لیا جائے گا اور سعودی عرب میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو بھی نکال باہر کیا جائے گا۔ ہمارے وزیراعظم ڈر گئے اور کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے انکار کر دیا۔ جس ملک کے حکمران سفر بھی سعودی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتے وہ آزادانہ پالیسیاں کیسے بنا سکتے ہیں، یا مصالحتی کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں۔؟ شاہ محمود قریشی نے جو مصالحانہ کردار کا سفر کیا ہے۔ اس میں بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ بن سلمان کی ہدایت پر ہی کیا گیا ہے۔ ورنہ پاکستان کو فوراً ریاض سے "شوکاز نوٹس" مل جاتا کہ تہران گئے کیوں ہو۔

اب بن سلمان کی ہدایت پر کئے جانے والے اس دورے میں کیا کچھ طے پایا، یا ایران کو شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کا کیا پیغام دیا، یہ تو اندر کی باتیں ہیں، ابھی طشت از بام نہیں ہوئیں۔ مگر بدیر سہی منظر عام پر آ جائیں گی۔ تہران میں ہمارے وزیر خارجہ کی ملاقات ایرانی صدر سے ہوئی۔ اس کے بعد ایران سے سعودی عرب چلے گئے۔ وہاں انہوں نے ایران کا پیغام پہنچایا۔ سعودی عرب سے عمان میں "شاہ" کی تعزیت کے بعد ہمارے شاہ صاحب واشنگٹن جا پہنچے۔ وہاں دو تین تقریبات میں خطاب کیا۔ وہاں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات بھی کی اور اس ملاقات میں انہوں نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے حکام سے ہونیوالی بات چیت سے بھی امریکہ کو آگاہ کیا۔ شاہ محمود قریشی کی امریکہ میں ہونیوالی ملاقاتوں میں ایران امریکہ کشیدگی پر زیادہ بات نہیں کی گئی۔ ایسے لگتا ہے کہ انہیں امریکہ نے روک دیا ہوگا کہ ایران کے معاملے پر ہمارے ساتھ کوئی ذکر نہ کیا جائے، ظاہر ہے امریکہ پاکستان کی حیثیت سے آگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ کو امریکہ کے اس رویے پر بہت دکھ ہوا اور انہوں نے ایران امریکہ کشیدگی کا معاملہ چھوڑ کر امریکہ کو یہ باور کرواتے رہے کہ ہماری کوششوں سے ہی طالبان مذاکرات کی میز پر آئے تھے۔ پاکستان نے ہی مسئلہ افغانستان سلجھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ہماری ہی شرط سے طالبان جنگ بندی کی امریکی شرط پر عمل کیلئے تیار ہوئے ہیں۔

لگے ہاتھوں ہمارے وزیر خارجہ نے کشمیر کا مسئلہ اٹھانا بھی ضروری سمجھا اور کشمیر میں ہونیوالے مظالم کے حوالے سے امریکہ کو "عینک کا نمبر" بدلنے کا مشورہ دے ڈالا۔ یہ مشورہ ایسے ہی نہیں دیا گیا بلکہ اس کے پیچھے وہ غصہ ہے جو امریکہ کی جانب سے بے عزتی کئے جانے پر قریشی صاحب کے دل میں تھا۔ شاہ محمود قریشی امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن سے بھی ملے، اس ملاقات میں ایران امریکہ کشیدگی کی بجائے پاک امریکہ تعلقات کے پانی میں مدھانی ڈالی گئی۔ اُدھر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کل نماز جمعہ پڑھائی اور ان کا خطبہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ پوری دنیا کے میڈیا کی نگاہیں اس خطبے پر لگی ہوئی تھیں اور واقعی انہوں نے اس خطبے میں اپنی پالیسی دی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بہتروپیا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جو ایرانی عوام سے حمایت کا دکھاوا کر رہا ہے اس کا مقصد محض ایرانی قوم کو گمراہ کرنا ہے، مگر ایرانی قوم اس کی ہر حرکت سے آگاہ ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ایران مذاکرات کیلئے تیار ہے مگر امریکہ سے نہیں، ہم نے عراق میں امریکی اڈوں پر حملہ کرکے امریکی ہیبت کا بت پاش پاش کر دیا۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ رہبر معظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی خبیث حکومت اور جرمنی و فرانس نے ایران کو دھمکی دی ہے کہ ایٹمی معاملے کو دوبارہ سلامتی کونسل میں لے جائیں گی لیکن ہم یورپی حکومتوں کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ جب تمہارا سرغنہ امریکا ایرانی عوام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکا تو تمہاری کیا اوقات ہے؟۔ دوسرے لفظوں میں کہا گیا کہ "تم کیس کھیت کی مولی" ہو۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے اب پالیسی بدل لی ہے۔ وہ ایران میں مسافر طیارے کے حادثے کو لیکر اس پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ مگر انہیں اس معاملے میں بھی وہی سبکی ہوگی جو پچھلے واقعات میں یہ اُٹھا چکے ہیں۔ جمہوریت کا ڈھول پیٹنے والا امریکہ خود جمہوریت کا احترام نہیں کرتا، عراق کی پارلیمنٹ نے قرارداد منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ امریکہ فوری طور پر عراق سے نکل جائے۔ یہ عراق عوام کا جمہوری فیصلہ تھا، مگر امریکہ نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ پھر کس منہ سے یہ جمہوریت کی بالادستی کی بات کرتا ہے۔

بہرحال امریکہ ایران کشیدگی کا اونٹ جس بھی کروٹ بیٹھے، وہ دونوں ممالک بہتر جانتے ہیں، ہمیں خواہ مخواہ اس صورتحال میں "چودھری" بننے کی ضرورت نہیں۔ ہم صرف اس صورت میں چودھری بن سکتے ہیں جب ہماری پالیسیاں آزاد ہوں اور ہمارے حکمران فیصلے کرنے میں خود مختار، یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنے بیڈروم میں جانے کیلئے بھی بن سلمان کی اجازت کے منتظر رہتے ہیں، پھر بھلا ہم کیسے مصالحت کروا سکتے ہیں۔ اس لئے ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب بلاوجہ امریکہ کے دورے کرکے وسائل ضائع نہ کریں۔ امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں رسوا ہوتا ہوا دیکھیں۔
خبر کا کوڈ : 839187
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش