2
2
Tuesday 15 Jun 2021 20:46

کبھی بہ حیلئہ مذہب کبھی بنامِ وطن

کبھی بہ حیلئہ مذہب کبھی بنامِ وطن
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

یکساں نصاب تعلیم بہت ضروری ہے۔ خصوصاً صوبہ پنجاب میں یکساں نصاب کا بہت چرچا ہے۔ پنجاب اسمبلی بھی مذہبی رواداری کیلئے بِل بنانے میں خاص شہرت رکھتی ہے۔ ایک بڑے عرصے تک یہ رواداری خفیہ اور آہنی ہاتھوں سے انجام پاتی رہی،  اب ساتھ ساتھ نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کے ریشمی ہاتھوں کی خدمات بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔ آئیے ملک میں یکساں نصابِ تعلیم سے پہلے کی ایک جھلک دیکھ لیتے ہیں۔ پرانی بات نہیں 1994ء کی بات ہے۔ صوبہ پنجاب کا ہی واقعہ ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنماوں میں سے ایک کی داستان ہے۔ اُن کے حافظ قرآن بیٹے ڈاکٹر حافظ فاروق سجاد کی ہمسایوں سے لڑائی ہوئی۔ ایک دن ہمسایوں نے لوگوں کو جمع کیا کہ حافظ فاروق نے گھر کے اندر قرآن مجید کی توہین کی ہے۔ اس کے بعد ہجوم نے حافظ فاروق کو گھر کے اندر گھس کر سنگسار کر دیا۔

ایسے کتنے ہی واقعات پولیس کے نوٹس میں ہیں کہ جہاں ایک مسجد کے مولوی نے خود اپنے ہی مذہب کے خلاف وال چاکنگ کروا کر دوسری مسجد کے مولوی پر مقدمہ درج کرایا۔ سانحہ راجہ بازار راولپنڈی بھی آپ کو یاد ہوگا کہ جب خود ایک مسلک والوں نے دوسرے مسلک پر مقدمات قائم کرانے کیلئے اپنی ہی مسجد و مدرسے کو آگ لگا دی تھی اور اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ 1997ء میں جسٹس عارف اقبال بھٹی کو غیر مسلموں کو پھانسی نہ دینے کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ جنوری 2011ء میں مذہب کی بالادستی کیلئے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اُنہی کے محافظ نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

جولائی 2012ء میں بہاولپورکے نزدیک ایک مشتعل ہجوم نے پولیس تھانے پر حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے ایک گرفتار شدہ شخص کو پکڑ کر تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا۔ حالانکہ سب جانتے تھے کہ یہ شخص دماغی معذور ہے۔ اس کے علاوہ آئے دنوں ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں، جن میں ایک خاص فرقے کے لوگوں کو پکڑ کر ان کی پٹائی کی جاتی ہے اور ان کے عقائد تبدیل کرنے کیلئے انہیں گھیر کر ان سے اپنی مرضی کی باتیں کہلوائی جاتی ہیں۔ ہم نے اس کالم میں مذہبی علمبرداری کے لئے بنائے گئے ٹولوں اور لشکروں کا ذکر نہیں کیا، نہ ہی آرمی پبلک سکول پشارو جیسے سانحات کو یہاں بیان کیا ہے بلکہ صورتحال کی عمومی نزاکت کو سمجھانے کیلئے صرف یہ چیدہ چیدہ واقعات پیش کئے ہیں۔

یہاں پر ایک واقعہ صرف اور صرف ایک ہی واقعہ غیر مسلم افراد کے ساتھ ہمارے مذہبی علمبرداروں کا بھی ملاحظہ کر لیجئے۔ یہ بھی 2012ء کا ہی واقعہ ہے۔ اسلام آباد کے ایک نواحی علاقے کی بات ہے۔ ایک کم سن لڑکی رمشا مسیح پر ایک امام مسجد حضرت مولانا حافظ محمد خالد  چشتی نے قرآن مجید کی بے حرمتی کا مقدمہ دائر کرایا۔ عدالت میں کیس چلا تو یہ عقدہ بھی کھلا کہ نعوذ باللہ قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے کا یہ عظیم کارنامہ بنفسِ نفیس امام مسجد حضرت مولانا حافظ محمد خالد  چشتی نے  خود انجام دیا تھا۔ ایسے ذہنی مریض ہمارے ہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ایک مکار اقلیت کے آلہ کار ہوتے ہیں۔ یہ مکار اقلیت اپنے دشمنوں کا صفایا کرنے کیلئے ان سے استفادہ کرتی ہے۔

اس طاقتور اقلیت نے اگلے چند سالوں میں ایک مرتبہ پھر درہم و دینار اور ڈالر و ریال سے ہمیں مالا مال کرنا ہے۔ یہ ڈالر اور ریال سعودی شہزادے کے  ویژن 2030ء کی تجوری میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں اہنے خطے میں سعودی مفادات کی جنگ لڑنی ہوگی۔ افغان جہاد کی طرح یہ بھی تو جہاد ہی ہے۔ چنانچہ سعودی مفادات کے مخالفین چاہے شیعہ ہوں یا اہل سنت، ان کا صفایا تو ہمیں کرنا ہی ہے۔ اب ان دنوں پھر پیسہ سعودی عرب کا ہے اور جہاد پاکستان میں ہو رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے خفیہ بِل ہوں یا پنجاب حکومت کا یکساں نصاب تعلیم، ایجنڈہ یہی ہے کہ سعودی مخالفین کا صفایا کرو۔ جہاں تک گولی سے ممکن ہے تو گولی چلاو اور جہاں تک اُن کے بچوں کے ذہن اور عقائد تبدیل کرسکتے ہو تو یہ بھی کرو۔ ویسے بھی مشتاق یوسفی مرحوم کا کہنا ہے کہ جو ملک جتنا زیادہ غربت زدہ ہوگا، اس میں اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن بھی زیادہ ہوگا۔ بقول فراز
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلئہ مذہب کبھی بنامِ وطن
خبر کا کوڈ : 938223
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

تنویر
ما شاء اللہ بہت اچھا کالم ہے۔
ایسے کالم نگاروں کی ضرورت ہے پاکستان کو
اس کالم کو ہر چند دنوں کے بعد نشر مکرر کیا جانا چاہیئے۔
ہماری پیشکش