0
Friday 27 Feb 2009 13:06

فرقہ واریت؟ نہیں یہ دہشت گردی ہے

فرقہ واریت؟ نہیں یہ دہشت گردی ہے
استعماری طاقتوں کا یہ آزمودہ نسخہ ہے اور وہ اسے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں کہ جس ملک کو کمزور کرنا ہے توڑنا یا اس کی معیشت کو برباد کرکے اس سے اپنے مقاصد حاصل کرنا مقصود ہو تو وہاں کی عوام کو کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں آپس میں لڑا دیا جاتا ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے' دہشت گردی کے ذریعے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیاجاتا ہے۔ عوام کی یہ کمزوریاں یا اختلافات نسلی' گروہی' علاقائی' لسانی یا مذہبی بنیادوں پر ہوسکتے ہیں ۔ ان اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے پھر چنگاری دکھا کر آگ سلگائی جاتی ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے مختلف مکتبہ فکر کے فروعی اختلافات کے بارے میں استعماری طاقتوں اور ان کے گماشوں نے ''پی' ایچ' ڈی'' کر رکھی ہے۔ حال ہی میں عراق میں وہ یہ نسخہ کامیابی سے استعمال کر چکے ہیں۔2003ء کے بعد سے اب تک عراق میں طرفین سے لاکھوں مسلمان خودکش حملوں اور دھماکوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ لاکھوں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوچکی ہیں۔ وہاں ابھی تک خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جب تک یہودی لابی عراقی معیشت سے تیل کا آخری قطرہ تک نچوڑ نہیں لیتی یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔ ہاں البتہ اگر وہاں کی مذہبی شیعہ سنی قیادت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کے خلاف ڈٹ جائے تو ممکن ہے کہ ان استحصالی طاقتوں کو وہاں سے نکلنا ہی پڑے۔ عراقی مذہبی قیادت اب تک حقیقی انداز میں قیادت کرتی چلی آرہی ہے۔ امریکی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام کی جس انداز میں رہنمائی کرنا تھی اس فریضے کو وہاں کی سنی شعیہ مذہبی قیادت احسن انداز میں نبھا رہی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ کربلا میں چہلم حضرت امام حسین کے موقع پر ہوا۔ جب کربلا میں ایک کروڑ سے زائد سنی شعیہ زائرین اکٹھے ہو کر اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا۔
پاکستان کی صورتحال بھی اس وقت نازک ہے۔ استعماری طاقتیں کھل کر اس ملک میں اپنا مکروہ کھیل کھیل رہی ہیں۔ ہم بارہا انہی کالموں میں اشارہ کر چکے ہیں کہ یہودی لابی کا آخری حربہ اور آزمودہ نسخہ مذہبی اختلافات کو ہوا کر مسلمانوں کے گروہوں کو آپس میں لڑانا ہے۔ ڈی' جی خان اور ڈی' آئی خان کے حالیہ خودکش حملے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ یہ دھماکے بھی عراقی طرز پر کئے جارہے ہیں۔ عراق میں نماز جنازہ اور ہسپتالوں میں حملے ہوچکے ہیں۔ یہاں بھی وہی انداز اپنایا جا رہا ہے اور یہ ذمہ داری القاعدہ کے سر تھو پی جارہی ہے۔ 2001ء سے پہلے کسی نے اس امریکی ایجاد القاعدہ کا نام نہیں سنا تھا۔ اور اب بھی امریکہ' اسرائیل اور اب بھارت سے زیادہ اس کا نام کوئی اور استعمال بھی نہیں کرتا۔
کیا ہمارے ملک میں خودکش حملے اور بم دھماکے فرقہ وارانہ بنیاد پر ہو رہے ہیں نہیں! ہرگز نہیں! یہ فرقہ واریت نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ اگر خدانخواستہ اس ملک میں فرقہ واریت ہوتی تو نفرتوں کی دیواریں اس قدر بلند ہوتیں کہ کسی کو کچھ دکھائی نہ ہوتا۔ گلی گلی' گھر گھر فساد ہوتا' دفتروں' سکولوں اور دیگر اداروں کے حالات کشیدہ ہوتے۔ لوگوں کا باہم بول چال بند ہوتا۔ لیکن الحمدللہ حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ پیار و محبت کے رشتے برقرار ہیں۔ اب بے شمار گھرانے ایسے ہیں کہ جہاں دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ بعض گھروں میں تو ایسا ماحول ہے کہ اگر باپ شیعہ ہے تو بیٹا سنی اور اگر ماں سنی ہے تو بیٹا شیعہ' مگر ہنسی خوشی باہم محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ سنی شیعہ گھرانے آپس میں رشتہ دار ہیں۔ ایک دوسرے کے ہاں شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کرنا' دعوتیں دینا' دعوتوں پر بلانا' یہ سب معاملات بتا رہے ہیں کہ خداوند تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس ملک میں فرقہ واریت کا کوئی وجود نہیں۔ ہاں البتہ چند فروعی اختلافات ضرور موجود ہیں۔ جو ازل سے چلے آرہے ہیں اور شاید آخر تک رہیں۔ یہ علماء کا فریضہ تھا اور ہے کہ ان اختلافات کو ابھرنے نہ دیا جائے۔ بعض اوقات علماء کی غفلت کی وجہ سے ان اختلافات میں شدت پیدا ہو جاتی رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی کہ مخالف کی جان لے لی جائے۔
خبر کا کوڈ : 1116
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش