0
Monday 30 Nov 2009 10:07

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو ۔۔۔

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو ۔۔۔
آر اے سید
محمد البرادعی کی قیادت میں ایٹمی توانائي کی عالمی ایجنسی نے ایک بار پھر ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف قرارداد منظور کر کے نہ صرف اپنے جانبدار ہونے کا عملی ثبوت دے دیا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی یہ بتا دیا ہے کہ عالمی ادارے برائے نام آزاد اور خود مختار ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارے بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔محمد البرادعی جو آئی اے ای اے کے چند روز کے مہمان تھے اپنی عاقبت کو خراب ہونے سے نہ بچا سکے۔یہ وہی البرادعی ہیں جنہوں نے خود بھی اور ان کے معائنہ کاروں نے بارہا اپنی رپورٹوں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں فوجی حوالے سے کوئی انحراف نہيں ہے۔
البرادعی کی ان رپورٹوں اور آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کے مسلسل دوروں اور ان کی مثبت رپورٹوں کے باوجود ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے بورڈ آف گورنرز کی حالیہ قرار ایک لمحہ فکریہ ہے۔جب عالمی ادارے میرٹ کی بجائے دباؤ اور بڑی طاقتوں کی ایما پر فیصلے کرنے لگیں تو عالمی امن اور بین الاقوامی سلامتی کا مستقبل کیا ہو گا۔
محمد البرادعی کی شخصیت گزشتہ چند سالوں میں ایک دوغلی شخصیت بن کر سامنے آئی ہے جب وہ رپورٹ دیتے ہیں تو اس میں زومعنی جملے تحریر کرتے ہیں جب اسلامی ممالک یا ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے حامی اداروں یا ملکوں میں گفتگو کرتے ہیں تو اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کسی قسم کے خدشات نہیں ہیں لیکن یہی البرادعی جب مغربی میڈیا کے سامنے بالخصوص بورڈ آف گورنرز میں کوئی بنیادی فیصلہ کرنے لگتے ہیں تو اس وقت حقائق کو بیان کرنے کی بجائے امریکہ کی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں۔آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی حالیہ قرارداد کے پیچھے جہاں امریکی ایما اور صیہونی لابی کا اثر ہے وہاں البرادعی کی ذاتی انا کا عنصر بھی ہو سکتا ہے۔البرادعی نے جنیوا میں کچھ عرصہ پہلے ہونے والے ایک اجلاس میں ایران کو ایک تجویز کے ذریعے گھیرنے کی کوشش کی۔بلاشبہ اس تجویز کے پیچھے بھی امریکہ اور صیہونی لابی کا شیطانی دماغ تھا لیکن سامنے آنے والے البرادعی تھے انہوں نے ایران کو تجویز دی کہ آپ اپنی تیار کردہ یورینیم کو جو کہ ساڑھے تین فیصد افزودہ ہے اسے ہمیں دے دو ہم اس کے بدلے میں تہران کے ایٹمی ری ایکٹر کے لئے بیس فیصد افزودہ یورینیم فراہم کریں گے ایران نے اس تجویز کو قابل عمل قرار دیا لیکن اس کے ساتھ یہ شرط لگائی کہ تہران کے ایٹمی ریکٹر کے لئے بیس فیصد افزودہ یورینیم کا تبادلہ ایران میں ہی انجام پائے۔البرادعی اور جنکے اشاروں پر یہ تجویز دی گئی تھی ایران کی اس شرط پر سٹپٹا گئے انہوں نے ایک بار پھر دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ ایران ساڑھے تین فیصد افزودہ یورینیم ہمارے حوالے کر دے ہم اس کو بیس فیصد افزوردہ یورینیم دے دیں گے امریکہ اور اس کے حواریوں نے ایران پر بہت زيادہ دباؤ ڈالا۔ امریکی صدر نے چین اور ایشیا کے مختلف ممالک کے دورے میں اس کو ایک ایشو بنا لیا اور ہر جگہ یہی کہا کہ ایران اس تجویز کا جواب دے ورنہ اس کے خلاف سخت اقدامات کئے جائيں گے ۔ایران کے اعلی حکام نے بھی ان دھمکیوں کا ترکی بہ ترکی جواب دیا اور کہا کہ ایک تو یہ تجویز ہے اور تجویز کی کوئي قانونی حیثیت نہیں ہوتی ہے کہ اس کا ہر صورت میں جواب دیا جائے دوسرا ہمیں بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اپنی تمام افزودہ یورینیم ان کے حوالے کر دیں ہمارے پاس کیا ضمانت ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اس پر عمل بھی کریں گے کیونکہ ایران نے اضافی پروٹوکول پر دستخط کئے آپ نے اس کا کیا جواب دیا۔ ایٹمی معاہدے کے تحت فرانس نے ایران کو ایٹمی ایندھن فراہم کرنا تھا لیکن اس نے بھی اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا ۔این پی ٹی کے ممبر کی حیثیت سے آئي اے ای اے کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ تہران کے ایٹمی ریکٹر کے لئے ضروری ایٹمی ایندھن فراہم کرے،لیکن وہ بھی لیت و لعل سے کام لے رہا ہے ان سب کو ایک طرف رکھیے۔روس جس نے بوشہر ایٹمی بجلی گھر کے لئے ایٹمی ایندھن دینے کا وعدہ کر رکھا وہ بھی نت نئے بہانوں سے اس کو تاخیر میں ڈال رہا ہے لہذا عدم اعتماد کی اس فضا میں یہ کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ ایران اپنا تمام افزودہ یورینیم مغربی ملکوں یا آئی اے ای اے کے حوالے کر دے اور یہ ادارے کل ہر بات سے مکر جائیں اور بیس فیصد افزودہ یورینیم کیا ایران کی اپنی یورینیم بھی واپس دینے سے انکار کر دیں۔بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران نے اس تجویز کے جواب میں بے پناہ لچک کا مظاہرہ کیا اور کہا اگر بیس فیصد افزودہ یورینیم مشرق وسطی کے کسی ملک میں بھی ہمیں تحویل دے دی جائے تو ہم اس تجویز کو ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن امریکہ،فرانس اور البرادعی کی ٹیم اس بات پر مصر ہے کہ آپ اپنی یورینیم ہمیں دے دیں ہم یورپ میں آپ کے سپرد کر دیں گے۔
امریکہ اور اس کے حواری اتنے عیار ہیں کہ وہ ایران کی ساڑھے تین فیصد یورینیم کے بدلے بیس فیصد افزودہ یورینیم کو ایک راڈ کی صورت میں ایران کو لوٹائیں گے جو صرف اور صرف تہران کے ری ایکٹر میں ہی استعمال ہوسکے گی۔
امریکہ اور اس کے حواری نہ صرف یہ کہ جس صورت میں یورینیم لیں گے اس صورت میں واپس کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک ہاتھ دے ایک ہاتھ لے کے بھی قائل نہیں ہیں اس کو کہتے ہیں چوری اور اوپر سے سینہ زوری ۔
بہرحال آئي اے ای اے نے حالیہ قرارداد پاس کر کے اس آپشن کو بھی تقریبا" ضائع کر دیا ہے اور ان کا حالیہ اقدام ایران پر مزيد پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔
ایٹمی توانائي کی عالمی ایجنسی کی حالیہ قرارداد پر ایرانی حکام نے ایک بار پھر اپنے عزم بالجزم کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایران اس قرارداد کا ایک لفظ بھی ماننے کو تیار نہیں اور ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے مخالف جان لیں کہ اس طرح کی گھسی پٹی چالوں کے ذریعے ایران پر مزيد دباؤ ڈالنے کا کوئي راستہ نہیں نکالا جا سکتا۔ڈاکٹر علی لاریجانی نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ کوئي ایسا کام نہ کرو جس کی وجہ سے ایران آئي اے ای اے کے ساتھ اپنا تعاون محدود کر دے ۔
امریکہ ایک طرف تو یورینیم کی افزودگي کے مسئلے میں ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے مسئلے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے حالانکہ ایران این پی ٹی کا ممبر بھی ہے جبکہ دوسری طرف صیہونی حکومت جس کے پاس دو سو سے زائد ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں اسکو زیر بحث ہی نہیں لایا جاتا۔اسی طرح ہندوستان جو این پی ٹی کا ممبر بھی نہیں ہے امریکہ اور کنیڈا اس کے ساتھ ایٹمی معاہدے کرنے میں مصروف ہیں۔اس ساری صورتحال کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے ۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام        وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
خبر کا کوڈ : 16027
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش