0
Saturday 26 May 2012 19:53

اسرائیل کا شیطانی وجود سراپا مسلم دشمن

اسرائیل کا شیطانی وجود سراپا مسلم دشمن
تحریر: جاوید عباس رضوی

امام خمینی رہ اپنے دور کے ایک واحد رہنماء گزرے ہیں کہ جنہوں نے کبھی بھی اسرائیل کے وجود کو قبول نہیں کیا، ہمیشہ اسرائیل کو امریکہ کی ناجائز اولاد قرار دیا، آپ مسلم ممالک کو ہر لمحہ اس بات پر آمادہ کرتے رہے کہ اسرائیل کی تشکیل ہی ظلم و ستم کے لئے کی گئی ہے، جب تک اسرائیل کا وجود ختم نہیں ہوتا مسلم ممالک سکون و آرام کی سانس ہرگز نہیں لے سکتے اور اسرائیلی وجود کے خاتمے کے لئے صرف مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت ہے، جس دن مسلم ممالک ایک ہو جائیں گے وہ دن اسرائیل کا آخری دن ہو گا، اب اسرائیل اپنا دفاع، اپنا تسلسل اور اپنی بقاء اسی میں سمجھتا ہے کہ مسلمان ایک نہ ہو جائیں اس لئے وہ اپنی پوری طاقت و توانائی فرقہ وارانہ فسادات میں صرف کرتا ہے۔ جان لینا چاہیے کہ جب تک ہم آپسی تضاد میں مشغول ہیں، اسرائیل محفوظ ہے اور ہماری فرقہ پرستی اور آپسی تضاد اسرائیل کے تحفظ کا ضامن ہے۔ 

اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل ظالم نظام ہے، اس کے آئین و قوانین ظلم پر مبنی ہیں، اس کا وجود سراپا مسلم دشمن و مسلم کش ہے، اسرائیلی حکومت مسلم عوام کے حقوق کی غاصب ہے، آج عالم اسلام میں جہاں کہیں تشدد و بربریت پائی جاتی ہے اس میں اسرائیل کا رول ضرور کارفرما رہتا ہے، اسلام پسند ممالک کے تعلقات اسرائیل سے بہتر ہرگز نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ غاصب حکومت ہونے کے ساتھ ساتھ روز اول سے ہی مسلمانوں کے ساتھ مصروف جنگ ہے، اب ہمیں اس شیطانی حکومت کو مٹانے میں ہرگز تردد کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور ہر حال میں اتحاد بین المسلمین کا سہارا لینا ہو گا۔ 

امام خمینی رہ کا فرمان ہے کہ "اگر تمام مسلمان اکٹھے ہو کر ایک ایک بالٹی پانی ڈالیں تو یہی پانی سیلاب کی صورت میں اسرائیل کو بہا لے جائے گا"، لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے مقابلے میں مسلمانانِ جہان کمزور ہیں، اگر مسلمان جانتا ہے کہ اس کی مصلحت اتحاد و اتفاق میں ہے! پھر آخر اتحاد کے لئے کوشش کیوں نہیں کرتا؟ استعمار اپنی چالیں چل کر مسلمانوں کو کمزور کرتا ہے لیکن مسلمان اس کا توڑ کیوں نہیں کرتا؟ اس پہیلی کا حل کب اور کون تلاش کرے گا۔؟  اسلامی حکومتوں اور مسلمانوں کے علاوہ اس کا حل کون تلاش کرے گا؟ صرف ہمیں استعماری پہیلیوں کا حل تلاش کرنا ہو گا اور ہمہ تن آمادہ ہو کر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ اسرائیل اور دیگر شیطانی طاقتوں کا وجود صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائے، اور اگر ہم آپس میں رسہ کشی، تردد، تذبذب، فرقہ واریت اور باہمی تضاد کا شکار بنے رہتے ہیں تو پھر تباہی و تذلیل کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔
                                   دامن دین ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں 
                                  اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی! 


اگر اسلامی ممالک اور اسلامی حکومتیں ایک ہو جائیں تو قبلہ اول ایک لمحہ بھی صہیونی قبضے میں نہیں رہے گا، اگر عالم اسلام ایک ہو جائے تو اسرائیل فلسطین پر حملے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن اسلامی ممالک کا سکوت یا انکی حمایت اسرائیل کے حملے میں کارفرما ثابت ہو جاتی ہے، عرب ممالک یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ حسن نصراللہ کی طرح اسماعیل ہنیہ عرب دنیا کا دوسرا ہیرو ابھر کر سامنے آ جائے لہذا وہ اسرائیل کی صرف حمایت ہی نہیں بلکہ اس کو آمادہ بھی کر رہے ہیں کہ حماس کا وجود ختم ہو جائے اور اسماعیل ہنیہ کے حوصلے پست ہو جائیں، لیکن اللہ کے شیروں کو دنیاوی طاقتیں تذبذب کا شکار نہیں کر پاتیں۔ 

عرب حکومتیں روز اول سے ہی اپنی حفاظت کی بھیک امریکہ اور اسرائیل سے مانگ رہی ہیں، اگرچہ امام خمینی رہ فرماتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، ہم صہیونی طاقت سے مصالحت نہیں کرسکتے اور نہ ان کے سامنے سر تسلیم خم کر سکتے ہیں۔ اے اسلام کے دعویدارو! کیوں اب بھی مغربی، استعماری و شیطانی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہو، یہ دور عوام کی بیداری، انقلاب، حرکت و اسلامی قوانین کے احیاء کا دور ہے۔ مسلمان صرف اور صرف اتحاد کے محتاج ہیں کیونکہ استعماری طاقتیں ہر چہار سو اپنے مجرمانہ جرائم کو وسعت دینے میں لگا ہوا ہے اور مستضعفینِ عالم کو ان کے وطن سے نکال رہا ہے۔
 
عزیز فلسطین، بحرین و شام کے بھائیوں پر چاروں طرف سے حملے کر رہا ہے، ان کی بستیوں کو تباہ کر رہا ہے، ان کو عقوبت خانوں کی زینت بنایا جا رہا ہے، دنیا میں جہاں جہاں مستضعف و محروم عوام ہیں ان کا سب سے بڑا و وحشی دشمن اسرائیل ہے، اسرائیل اپنے سیاسی و اقتصادی، ثقافتی و عسکری اقتدار کے خاطر کسی بھی قسم کا جرم کرسکتا ہے اور کر رہا ہے، وہ اپنے فائز و چھپے ہوئے ایجنٹوں کے ذریعے کمزور و نہتے عوام کا خون چوستا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ جیسے صرف اس کو اور اس کے حلیفوں کو زندہ رہنے کا حق ہے اور بس! 

آخر عالم اسلام کب تک سر بگریباں رہے گا۔؟ آخر ہم مسلمان اسلام کی طاقت سے کیوں غافل و بےخبر ہیں؟ کیوں ہم خواب غفلت میں رہ کر شکست پہ شکست اور ذلت پہ ذلت اٹھا رہے ہیں؟ کیوں اب بھی اسلامی حکومتیں اجنبی و شیطانی طاقتوں کے زیر سایہ ہیں؟ کیوں ہم ظاہراً یا پس پردہ استعمار سے جینے کی بھیک مانگ رہے ہیں؟ کیوں مسلمانوں کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں اور ایمان و ایقان و اتحاد کا سہارا نہیں لیتے؟ کب تک ہماری شرافت سربازار عریاں رہے گی؟ کب تک ہمیں استعماری طاقتیں فرقوں میں بانٹ کر آپس میں لڑواتی رہیں گی؟ اور کب تک مسلمان ظلمت کے خارستانوں میں ٹھوکریں کھاتے رہیں گے، کیوں تمام اسلامی ممالک بیداری کی موجودہ لہر کا سہارا لیکر مثالی حکومتیں تشکیل نہیں دیتے؟ 

وہ وقت آ گیا ہے کہ تمام مسلمان بلاتفریق ملت و مذہب ایک ہو کر بیداری اسلامی میں شامل ہو کر کربلائی کردار کے زیر سایہ مثالی نظامِ حکومت تشکیل دیں، کربلا مکمل نظام حیات ہے لا دین شہنشاہیت اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ اسلام ناب کا یہی تقاضا ہے کہ مسلمان امریکہ و اسرائیل کا تابعدار، حلیف و اطاعت گزار ہرگز نہیں ہو سکتا، مسلمانوں کو بیدار ہونا ہو گا اور احساس پیدا کرنا ہو گا کہ کس دیدہ دلیری سے امت مسلمہ کو دست نگر بنانے کی سعی کی جا رہی ہے، مغرب کھل کر سرعام ہماری تہذیب اور قدرتی ذخائر پر قابض ہو کر ان سے کھلواڑ کر رہا ہے، تعصب و تنگ ظرفی سے بلند ہو کر مسلم ممالک کو تعلیم، تکنیک اور تجارت میں باہمی اتحاد، اعتماد و اشتراک کا ماحول قائم کرنا ہو گا۔
 
مسلم اکثریت والے ممالک میں اسلامی تمدن قائم کرکے پوری دنیا کو اس تمدن کی جانب مدعو و متوجہ کرنا چاہیے، اسی میں ہماری فلاح و بقا ہے ورنہ موجودہ انتشاری حالت میں رہنے سے امت مسلمہ کی سانس اکھڑ جائے گی اور استعماری قوتیں کامیاب تر ہوتی نظر آئیں گی۔ باہمی اتحاد ہماری سب سے بڑی طاقت اور دشمنان اسلام کی سب سے بڑی شکست ہے، اس طاقت کو پانے کے لئے اسلام کے ٹھیکیدار و دعویدار حضرات کو اپنے اذھان کی وسعتوں کو انقلاب خمینی کی ہوا دینی ہو گی۔ اور پھر صدیوں سے ہاتھ میں لئے ہوئے کشکول کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی ہونگی، ورنہ حالات کی تیز و تند ہوائیں روندتے ہوئے انہیں تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گی۔
 
کیا اسلام کے دعویدار یہ نہیں جانتے کہ استعماری طاقتوں کی بدولت اسلام کیونکر پامال کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ ٹھیکیدار نہیں جانتے کہ فلسطین، عراق، افغانستان، بحرین، شام و کشمیر اور دیگر اسلامی ممالک میں اس وقت کیا صورت حال ہے۔؟  آخر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ خطاب کے چند اقتسابات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جنوبی لبنان کی اسرائیلی قبضے سے آزادی اور اسلامی تحریک مزاحمت کی کامیابی کی سالگرہ پر حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے لبنانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سنو میرے بھائیو! جنہوں نے اسرائیل کو مار بھگایا، اور ان کو شرم آور شکست سے دوچار کیا وہ آج فخر سے اپنی سرزمین پر آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔
 
اے میرے بھائیو! آج اسرائیل یہ سازش کر رہا ہے کہ آپ کی خوشی کو فرقہ واریت پھیلا کر غم میں بدل دے اس لئے ہشیار رہو۔ حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ہم نے سن دو ہزار چھ میں گریٹ اسرائیل کے تابوت پر آخری کیل ٹھوک دی تھی اور آج اس کا جنازہ نکل چکا ہے، کہاں ہے وہ فرات سے نیل تک عظیم ملک بنانے کا اسرائیلی خواب، انہوں نے مزید کہا کہ آج اسلامی تحریک مزاحمت کی برکت سے ہم اسرائیلی لبنانی باڈر پر آبادی بسا چکے ہیں اور لوگ انتہائی پرامن رہ رہے ہیں، اسرائیل کا خوف ختم ہو چکا ہے، جبکہ ایک وقت وہ تھا کہ ہم بیروت میں بھی اپنے بچوں کو سکول تک نہیں بھیج سکتے تھے، گھروں میں محفوظ نہ تھے، امن برباد ہو چکا تھا، لیکن آج مزاحمت کی برکت سے ہم اپنی زمین کے آخری ٹکڑے تک محفوظ ہیں، ہم نے اسرائیل کو ایسے وقت میں شکست دی کہ جس وقت اسرائیل کے خوف سے ایک پتھر پھینکنے کی جرات کسی میں نہ تھی۔ ہم نے اپنی زمین کو اسرائیل سے آزادی دلوائی لیکن نہ انکی شرائط مانیں نہ انہیں اس قبضے سے کوئی فائدہ لینے دیا جبکہ مصر کو اپنی زمین کی خاطر اسرائیلی شرائط ماننی پڑیں اور کیمپ ڈیوڈ جیسا منحوس معاہدہ کرنا پڑا۔
خبر کا کوڈ : 165329
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش