1
0
Thursday 25 Mar 2010 10:54

لوڈشیدنگ،ایرانی سفیر اور ہمارے حکمران

لوڈشیدنگ،ایرانی سفیر اور ہمارے حکمران
ثروت جمال اصمعی
ایرانی سفیر ماشاءالله شاکری حیران ہیں کہ ایک طرف پورے پاکستان میں لوڈشیڈنگ نے قیامت برپا کر رکھی ہے اور دوسری طرف ایران کی جانب سے 1135 سے 2270 میگاواٹ تک بجلی کی پیش کش کو سوا سال سے حکومت پاکستان کوئی وجہ بتائے بغیر ٹال رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ پندرہ مہینوں سے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف سے لے کر سرمایہ کاری بورڈ اور پرائیویٹ پاور اینڈ انفرااسٹرکچر بورڈ کے افسروں کے دروازوں پر حاضریاں دے رہے ہیں،مگر اب تک ایران کی پیش کش کا کہیں سے کوئی جواب نہیں مل سکا ہے۔ملک کے ایک ممتاز انگریزی روزنامے سے اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ” میں پریشان ہوں۔میں سمجھ نہیں پارہا کہ ایرانی پیش کش میں کیا خرابی ہے۔“ ایرانی سفیر نے جس پیش کش کا ذکر کیا وہ دسمبر 2008ء میں دونوں حکومتوں کی جانب سے دستخط کے مراحل طے کرلینے والی مفاہمت کی ایک یادداشت کی شکل میں محفوظ ہے جبکہ ہمارے وزیر پانی و بجلی اس پیش کش کو فائلوں میں چھپا کر کم و بیش پچھلے ڈیڑھ سال سے اپنی تمام توانائیاں اور اپنی وزارت کے سارے وسائل قوم کو یہ باور کرانے میں خرچ کر رہے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کا کرائے کے بجلی گھروں کے سوا کوئی حل نہیں۔
ان کا طریق واردات یہ ہے کہ پہلے وہ بجلی کے بحران کے سنگین نتائج سے قوم کو ڈراتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ اس کا فوری حل بس کرائے کے بجلی گھر ہیں۔یہی کھیل انہوں نے پیر کے روز سینیٹ کے اجلاس میں بھی کھیلا۔انہوں نے بتایا کہ بجلی کی قلت کی وجہ سے قومی معیشت کو 240 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچ رہا ہے اور اس بحران سے نمٹنے کا واحد ذریعہ کرائے کے بجلی گھر ہیں۔ جبکہ چند ماہ پہلے کابینہ کے اجلاس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے کرائے کے بجلی گھروں کے اس منصوبے کو ملکی معیشت کے لیے زہر ہلاہل قرار دیا تھا اور بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس منصوبے کے ختم نہ کیے جانے کی شکل میں اسی وقت مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چکے تھے۔تاہم جب وزیر اعظم نے انہیں یقین دلایا کہ اس منصوبے پر عمل سے پہلے کسی غیرجانبدار ادارے سے اس کی چھان پھٹک کرا لی جائے گی تب وہ استعفے کا فیصلہ واپس لینے پر راضی ہوئے تھے۔
کابینہ کے اس اجلاس میں شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ان بجلی گھروں سے ملنے والی بجلی اتنی مہنگی ہو گی کہ ملکی صنعتوں کا دیوالہ نکل جائے گا،ناگزیر اشیائے ضرورت بھی عوام کی پہنچ سے قطعی باہر ہو جائیں گی،اور پاکستانی مصنوعات کیلئے بیرونی منڈیوں میں مسابقت محال ہو جائیگی، جبکہ کرائے کے یہ بجلی گھر بہت پرانے ہونے کی وجہ سے مطلوبہ پیداوار بھی فراہم نہیں کرسکیں گے اور ملک کے لیے درد سر بنے رہیں گے۔ریکارڈ پر موجود معلومات کے مطابق کئی دوسرے ماہرین کی طرح شوکت ترین کا مشورہ بھی یہی تھا کہ کرائے کے بجلی گھروں کے بجائے آئی پی پیز کے واجبات ادا کر کے انہیں پوری گنجائش کے مطابق بجلی پیدا کرنے پر تیار کیا جائے اور دیگر دستیاب ملکی وسائل کو بھی بہتر بنا کر ان سے پوری گنجائش کے مطابق کام لیا جائے تو مزید مہنگا کیے بغیر بجلی کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ملک کے اندر اور باہر باخبر ذرائع اب بھی کہتے ہیں کہ ان کے مستعفی ہونے کا ایک بڑا سبب یہی کرائے کے بجلی گھر بنے ہیں۔چین کے اخبار پیپلز ڈیلی نے بھی انیس مارچ کو اپنے آن لائن ایڈیشن میں شوکت ترین کے استعفے کی بنیادی وجوہات میں کرائے کے بجلی گھروں کے معاملے کو پہلے نمبر پر رکھا ہے۔شوکت ترین نے استعفے کا فیصلہ واپس لینے کے بعد بظاہر اس لیے منسوخ کیا کہ وزیر اعظم نے اگرچہ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے اس منصوبے کی چھان پھٹک تو کرا لی،مگر آڈٹ رپورٹ میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشان دہی کے باوجود اس منصوبے کو ختم نہیں کیا۔یہ رپورٹ جنوری کے وسط میں منظر عام پر آئی تھی،لیکن جب اسکے باوجود کرائے کے بجلی گھر قوم کے سر تھوپنے کی تیاریاں جاری رہیں تو شوکت ترین کیلئے یہ ممکن نہ رہا کہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ ڈھونے کیلئے اپنے کندھے پیش کیے رہیں اوران لوگوں کے اللوں تللوں کے لیے معیشت کی مکمل بربادی کا الزام اپنے سر لے لیں۔چنانچہ فروری کے مہینے میں شوکت ترین نے مستعفی ہونے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔
پاکستان کو اس وقت ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔پورے ملک میں یومیہ بارہ سے لے کر اٹھارہ گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ جاری ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ پچھلے موسم گرما کی طرح ا س بار بھی گرمی کا پورا موسم اسی طرح نہ گزرے۔سینیٹ میں راجہ پرویز اشرف نے بجلی کی قلت کے سبب 240 ارب روپے سالانہ کے نقصان کی خبر دیتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ پانی کی قلت 36 فی صد ہے جبکہ گیس بھی نایاب ہے،اس لیے بجلی کی پیداوار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ان حالات میں نہ جانے کیسے وزیر اعظم نے قوم کو یہ خوش خبری سنانے کی ہمت کی ہے کہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے معاملے میں جلد ہی عوام کو ریلیف دیا جائے گا۔انکے بقول امریکا سے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے بعد اہم فیصلے کئے جائینگے جبکہ وزیر پانی و بجلی نے بھی سینیٹ میں کہا ہے کہ پاک امریکا اسٹرٹیجک ڈائیلاگ میں انرجی کا معاملہ ایجنڈے پر سرفہرست ہو گا۔گویا حکومت نے مہنگائی،غربت،بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ سمیت ہر مسئلے کے حل کی امید اُس امریکی امداد سے باندھ لی ہے جو ابھی پردہٴ غیب ہے اور نہیں معلوم کہ اگر ملی بھی تو اس کی مقدار کیا ہوگی اور اس کیساتھ کیسی کیسی کڑی اور کتنی شرمناک شرائط نتھی ہوں گی۔
امریکا کے ناجائز دباوٴ کو خاطر میں نہ لانے والی قوم ایران کے سفیر حیران ہیں کہ پاکستان کے حکمراں اپنے برادر ملک کی جانب سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے میں بھرپور تعاون کی پیش کش تو کوئی وجہ بتائے بغیر مسلسل ٹال رہے ہیں لیکن اس استعماری قوت کی جانب للچائی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں جو پاکستان کی قومی آزادی و خودمختاری کو مکمل طور پر سلب کرلینے کیلئے ہر چال چل رہی ہے۔حالانکہ ایران بجلی پیدا کرنیوالے دنیا کے بڑے ملکوں میں شامل ہے۔وہ فی الوقت پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے اور اس میں آبی ذرائع سے چار سے پانچ ہزار میگاواٹ کا اضافہ بھی آنیوالے برسوں میں متوقع ہے۔ایران کا کہنا ہے کہ علاقے کے سات ملک یعنی روس،بھارت،قطر،متحدہ عرب امارات،اردن،شام اور اومان اس سے بجلی لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ ترکی،آرمینیا اور افغانستان،پہلے ہی ایران سے بجلی درآمد کر رہے ہیں۔ایرانی سفیر کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کے مسائل کا احساس رکھتے ہیں۔اسے مالی وسائل،مطلوبہ انفرا اسٹرکچر کی عدم دستیابی اور بجلی کی قیمت وغیرہ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے،تو ہم ان مسائل کے حل میں تعاون کیلئے تیار ہیں۔
لوڈشیڈنگ جیسے ہمہ وقت عذاب سے چھٹکارے کیلئے برادر اسلامی ملک کی اس فراخدنہ پیش کش کے جواب میں سوا سال سے حکومت پاکستان کی خاموشی،ماشاء الله شاکری ہی کیلئے نہیں،تمام پاکستانی عوام کیلئے بھی باعث حیرت ہے۔ایرانی سفیر کا یہ کہنا کہ وہ پندرہ ماہ سے اس یادداشت پر پیش رفت کے لیے پاکستانی حکام کے دفتروں کے چکر کاٹ رہے ہیں،اُن لاکھوں پاکستانی شہریوں کے حال زار سے مکمل مماثلت رکھتا ہے،جو سرکاری دفاتر میں اپنے قطعی جائز کاموں کے لیے ہر روز دھکے کھا رہے ہوتے ہیں اور ان کے کاموں میں رکاوٹ کا اصل سبب اہلکاروں کی خدمت میں مطلوبہ نذرانہ پیش کرنے میں ناکام رہنا ہوتا ہے۔ایرانی سفیر کے یہ الفاظ اپنے حکمرانوں کے رویے کے حوالے سے ہر باشعور پاکستانی کا سر شرم سے جھکادینے والے ہیں کہ اگر کچھ نہیں کرنا تھا تو مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیوں کیے تھے اور یہ کہ”وقت سب سے قیمتی چیز ہے،کیا ایران کو ابد تک انتظار کرنا ہو گا۔“


خبر کا کوڈ : 22500
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Spain
salam.i feal thar pakistani govt dont have shame.i think that they want to solve the problems of people of pakistan.bcz they are thief and they want suck yje blood of the pakistani nation.allah help us.
ہماری پیشکش