0
Saturday 4 May 2013 17:50

فاٹا میں عام انتخابات، قبائلی مَلِک سے ملا تک کا سفر

فاٹا میں عام انتخابات، قبائلی مَلِک سے ملا تک کا سفر
تحریر: ساجد حسین

ملک کے دیگر حصوں کی طرح فاٹا میں اگلے ہفتے ہونے والے عام انتخابات، جن کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی تو موجود ہے، لیکن اکثر معاملات صوبائی سطح پر ہونے کے باوجود صوبائی اسمبلیوں میں کوئی نمائندگی نہیں، کی سرگرمیاں اور انتخابی مہم جاری ہے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات یا فاٹا میں زبانی اور تحریری طور پر بنیادی انسانی حقوق اور انتخابات کے حوالے سے بہت سی اصلاحات کا اعلان ہو چکا ہے لیکن عملی صورت میں فاٹا میں صحیح طور پر حکومتی عملدارای نہ ہونے کی وجہ سے حالات یکسر مختلف ہیں۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان سے لے کر کئی دہائیوں تک قبائلی علاقوں یا فاٹا میں عام قبائلی عوام کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کو اجازت تھی بلکہ فاٹا میں چند سو سال پرانا قبائلی مَلِک سسٹم (یعنی قبائلی مِشر جسے مَلِک کہتے ہیں) یا قبائلی سردار جن میں سے اکثر غیر تعلیم یافتہ اور انگوٹھا چھاپ ہوتے تھے، یہ لوگ ہزاروں روپے فی ووٹ رشوت لے کر لاکھوں قبائلی عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرکے ممبران اسمبلی منتخب کرتے تھے اور پھر منتخب شدہ اراکین اسمبلی سینیٹ انتخابات میں اپنا ووٹ، یعنی رکن اسمبلی کا ووٹ کروڑوں روپے میں بیچ کر من پسند سینیٹر منتخب کرتے تھے۔ پانچ سال تک فاٹا کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز میں سے انتہائی کم مقدار قبائلی علاقوں یا فاٹا کے عوام پر خرچ کی جاتی تھی اور باقی اپنے ناجائز اثاثے بنا لئے جاتے اور اس کے بعد پھر نئے سرے سے آنے والے الیکشن میں کامیابی کے لئے پر تولنا شروع کر دیتے۔ قبائلی مَلِک یا سردار جو انگریز دور سے برسراقتدار حکمرانوں کے تابعدار تھے یہ حاضر جناب کہنے والا طبقہ تھا۔ انہیں فاٹا کے اراکین اسمبلی منتخب کرنے کا اختیار بالکل ایسے ہی تھا جیسے پورے پاکستان کی سطح پر ماضی میں ایک ڈکٹیٹر ایوب خان کی طرف سے مادر ملت و ہمیشرہ قائداعظم محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے کے لئے نام نہاد بیسک ڈیموکریسی کے نام پر تمام اہل ووٹرز سے گنے چنے بی ڈی ممبران کو پورے پاکستان میں ووٹ کا حق دے کر ناجائز اقتدار کو دوام
دینا تھا۔ 

تاہم قبائلی عوام کے بےحد اصرار اور انسانی حقوق سے وابستہ عالمی تنظیموں کے احتجاج و مطالبوں کے بعد بیسویں صدی کے آخر میں حکومت نے قبائلی عوام کو ووٹ کا بنیادی حق دے دیا۔ ایک طرف انہیں اپنے اراکین اسمبلی خود منتخب کرنے کا حق تو دے دیا لیکن ساتھ ہی فرنگی دور سے رائج قانون ایف سی آر یا فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن کے تحت قبائلی علاقوں میں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی اجتماعات پر پابندی لگا کر فاٹا سے صرف اور صرف آزاد حیثیت میں امیدوار منتخب کرنے کی شرط لگا کر اس اچھے اقدام کو بھی متنازعہ اور مشکوک بنا دیا۔ اس کے بعد افغان سرحد سے ملحقہ ان قبائلی علاقہ جات میں نائن الیون کے حادثے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے فاٹا میں تشدد اور خون خرابے کی ایک ایسی لہر کو جنم دیا کہ لوگ 80ء کی دہائی میں افغانستان پر امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ، اور افغان جہاد کے نام پر فاٹا کی تباہی کے قصوں کو ہی بھول گئے۔
 
نائن الیون کے بعد فاٹا کے ہزاروں افراد قتل و زخمی ہوئے، اور اسی طرح لاکھوں افراد بےگھر ہو کر اپنے ہی ملک میں آئی ڈی پیز بن گئے۔ انگریز دور سے ایف سی آر کے تحت حکومتی عملداری میں رہنے والے فاٹا کے علاقوں میں طالبان نامی عسکریت پسندی کی وجہ سے حکومتی عملداری بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں یو ٹرن اس وقت لیا گیا کہ جب 80ء کی دہائی میں امریکی سی آئی اے اور ضیاء حکومت و عرب ممالک کے تعاون سے شروع کردہ افغان جہاد میں جو مجاہدین روس کے خلاف حریت پسند یا فریڈم فائیٹر قرار دئیے گئے تھے، جنہوں نے بعد میں افغانستان میں ملا عمر کی قیادت میں طالبان حکومت قائم کی تھی۔۔۔۔ نائن الیون کے بعد انہی کو دہشتگرد طالبان و القاعدہ قرار دے کر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں تباہی و بربادی کا وہ بازار گرم کر دیا گیا جو آج تک نہ صرف فاٹا اور اس سے ملحق خیبر پختونخوا بلکہ پاکستان کے گوش و کنار تک پھیل چکا ہے۔ 

امریکی سی آئی اے، ضیاء حکومت اور عرب ممالک کے تعاون سے شروع کردہ افغان جہاد میں جو مجاہدین روس کے خلاف استعمال ہوئے تھے، افغان جہاد کے بعد یہ غیر ملکی عرب ازبک عناصر وزیرستان جیسے بعض قبائلی علاقوں میں موجود تھے حتی کہ کچھ مقامی لوگوں کے ساتھ ان کی رشتہ داریاں تک ہو چکی تھیں، اسلئے افغانستان پر طالبان حکومت کے قیام میں انہی عناصر کو استعمال کیا گیا اور نائن الیون و طالبان کی پسپائی کے بعد ان عناصر نے ہی تحریک طالبان پاکستان کی شکل اختیار کرکے ریاست پاکستان کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کر دیا۔ ماضی میں امریکی سی آئی اے،  ضیاء حکومت اور عرب ممالک کی آشیر باد حاصل ہونے کی وجہ سے نائن الیون کے بعد بھی صحیح معنوں میں ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی یا آپریشن نہ ہوا۔ محض زبانی جمع دعوے کئے گئے۔ اس زبانی دوغلی پالیسی کی وجہ سے وزیرستان سے یہ عناصر ایک ایک کرکے پورے فاٹا حتیٰ کہ فاٹا سے متصل خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور مالاکنڈ و سوات تک اپنی جڑیں مضبوط کر چکے تھے اور وہاں قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ 

فاٹا میں اگلے ہفتے ہونے والے عام انتخابات سے پہلے اگرچہ حکومت نے صدارتی آرڈنینس کے تحت سیاسی پارٹیوں کو انتخابات میں شامل ہونے اور فرنگی دور کے قانون ایف سی آر میں شامل بعض شکیں ختم کر دی ہیں، لیکن عملی سطح پر اب بھی فاٹا میں ہونے والے عام انتخابات میں قبائلی عوام یا فرد کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اگر کوئی فرق پڑا ہے تو وہ صرف یہ کہ پہلے فاٹا کے عوام کے مستقبل کا جو فیصلہ انگوٹھا چھاپ قبائلی ملک یا سردار کے ہاتھ میں تھا، اب وہی فیصلہ ملا یا با الفاظ دیگر طالبان کمانڈر کے ہاتھ میں آ گیا۔ یہاں یہ امر یاد رہے کہ ملا کی اصطلاح سے ہماری مراد حقیقی معنوں میں اسلام کی خدمت کرنے والے مذہبی اسکالرز یا علمائے حق نہیں، بلکہ اس تحریر میں ملا سے مراد اسلام کی ازخود تشریح کرکے اپنے مفادات کے لئے اسلام کو استعمال کرنے والے مختلف قبائلی علاقوں میں برسرپیکار طالبان کمانڈرز یا پھر مادہ پرست درباری ملا و علمائے سُوء ہیں جو فتووں سے لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں یا بقول شاعر۔۔۔۔۔
دین ملا فی سبیل اللہ فساد۔۔ یا بقول مفکر پاکستان و عظیم اسکالر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

مراد ہیں۔ 

آخری زمانے کی پیشنگوئیوں کے مطابق بھی علمائے حق کی تعداد بہت کم جب کہ علمائے سُوء یا دین ملا فی سبیل اللہ فساد کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔۔۔ آج کل فاٹا میں عام انتخابات سے قبل انتخابی سرگرمیوں میں انہی دین ملا فی سبیل اللہ فساد والے طبقے نے ماضی کے قبائلی ملک و سردار کی جگہ لے کر قبائلی عوام کے ووٹ اور مستقبل کے فیصلے شروع کر دئیے ہیں۔ جیسے کون سی سیاسی پارٹی مسلمان و طالبان نواز اور ووٹ کی حقیقی حق دار اور کون سی سیاسی پارٹی کافر و ملحد اور ان کو ووٹ دینا عین کفر ہے، خواتین کو تعلیم اور ووٹ دینے کا بالکل حق نہیں۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایم این ایز کی دوڑ میں شامل امیدواروں سے بھاری رقم و بھتہ لے کر قبائلی عوام کو مجبور کرنا کہ انہیں کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں جیسے فتووں کا بازار گرم ہیں ۔۔۔، یہ بالکل انگوٹھا چھاپ قبائلی ملک و سردار کے نظام کا عکس ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ قبائلی ملک و سردار کی بجائے اب فیصلے کا اختیار ملا۔۔۔۔۔ دین ملا فی سبیل اللہ فساد ۔۔۔کے ہاتھ میں ہے لیکن اس کے باوجود فاٹا میں اصلاحات اور عمل داری کے بہ بانگ دہل دعویدار وفاقی حکومت، پولٹیکل انتظامیہ، سول و عسکری ادارے اور سب سے بڑھ کر الیکشن کمیشن کی معنی خیز خاموشی ایک بہت ہی بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔ 

اسی طرح "دین ملا فی سبیل اللہ فساد" طبقے نے پورے پاکستان بالخصوص فاٹا میں ڈالرز و ریال کی جھنکار میں 80ء کی دہائی میں امریکی سی آئی اے، ضیاء حکومت اور  عرب ممالک کے تعاون سے شروع کردہ روس کے خلاف افغان جہاد میں شرکت کو عوام کے لئے واجب قرار دیا لیکن اس جہاد میں ہونے والی ناجائز کمائی سے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم یا کاروبار کے لئے یورپ بھجوا دیا۔۔۔۔؟ 

حالیہ عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کے واضح احکامات کے باوجود، کہ ان کا انتخابی نشان "کھلی کتاب" رہے اور اسے قرآن و دین کا عنوان دے کر عوام کو بلیک میل نہ کیا جائے، لیکن فاٹا میں "دین ملا فی سبیل اللہ فساد" کے حامی امیدواروں نے اپنی اشتہاری مہم پر اپنی تصاویر (حالانکہ ان کے عقیدے و فتوے کے مطابق تصاویر کھینچنا حرام و بدعت ہے) کے علاوہ اپنے انتخابی نشان "کھلی کتاب" کی بجائے اس پر قرآنی آیات چھاپ کر ایک بار پھر قبائلی عوام کو اسلام کے نام پر بلیک میل کرنے کی ٹھان لی ہے، ان دنوں میں یہ سلسلہ اپنے عروج پر ہے اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ اس کا فیصلہ تو آنے والے اداوار ہی کریں گے۔۔۔ قبائلی علاقوں اور فاٹا میں انتخابات کے حوالے سے ایک اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ انتخابات میں ان علاقوں سے کامیاب ہونے والے امیدواروں نے پانچ سال تک اسلام آباد میں مزے لے کر اپنے علاقوں کے عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے سے اسلئے معذوری اختیار کی کہ ان کی جانوں کو طالبان کی طرف سے خطرہ ہے، لیکن آج جب فاٹا میں انتخابی مہم جاری ہے تو اقتدار کے نشے میں مبتلا یہ سارے امیدوار مخدوش حالات کے باوجود اپنے اپنے علاقے میں مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور کارنر میٹنگز، جلسوں اور جرگوں سے خطاب بھی کر رہے ہیں۔ 

یہاں میرا ان سے سوال ہے کہ کیا اب ان کی جانوں کو کوئی خطرہ نہیں یا یہ سارا کھیل قبائلی عوام کو بےوقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کا حصہ ہے؟ اکثر قبائلی علاقوں میں موجود امیدواروں کی انتخابی مہم کی سب سے پہلی ترجیح، آنے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنے علاقے کے طالبان کمانڈر اور مادہ پرست ملا کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بےدریغ پیسہ خرچ کرنا اور بھاری بھتہ دینا ہے، جو یہ امیدوار پہلے سے دیتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ ان امیدواروں کو بخوبی اندازہ ہے کہ اگر اپنے علاقے سے انہوں نے کامیاب ہونا ہے تو فاٹا میں پرانے وقتوں میں قبائلی مَلِک اور سردار کو خوش کرنے کی طرح، آج انہیں ملا یعنی "دین ملا فی سبیل اللہ فساد" والے طبقے کو خوش کرنا ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 260666
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش