0
Saturday 23 Nov 2013 21:50

فلسطین دور حاضر کی کربلا

فلسطین دور حاضر کی کربلا
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان) 

سرزمین فلسطین ایک ایسی سرزمین رہی ہے کہ جہاں اللہ کی طرف سے آنے والے انبیاء علیہم السلام کثرت سے تشریف لاتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین مقدس کو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، زمانہ اسلام میں بھی اس سرزمین کو کافی اہمیت حاصل رہی اور اسلامی افواج کی فتوحات میں فلسطین شامل رہا، اسی طرح اس سرزمین کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں مسلمانوں کا مقدس ترین مقام ''قبلہ اول '' یعنی ''بیت المقدس'' جسے ''مسجد اقصیٰ '' بھی کہا جاتا ہے موجود ہے۔ البتہ یہ اہم ترین سرزمین اور مقامات مقدسہ بیسویں صدی میں اس وقت سخت شکنجے میں آئے، جب 1948ء میں انبیاء و اسریٰ کی سرزمین فلسطین پر ایک غاصب صیہونی ریاست کے وجود کو عالمی سامراجی طاقتوں برطانیہ اور امریکہ سمیت فرانس اور دیگر یورپی ممالک کی ایماء پر تشکیل دیا گیا، پندرہ مئی 1948ء کی اس سیاہ تاریخ کے بعد سے آج تک گذرنے والے پینسٹھ برس فلسطینیوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں گزرے ہیں۔

محرم الحرام کا ماہ رواں دواں ہیں اور اس ماہ مقدس میں پوری دنیا میں مسلمان ایک ایسی ہستی کی یاد مناتے ہیں جسے ''امام حسین'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، حضرت امام حسین علیہ السلام کون ہیں؟ آپ مسلمانوں کے آخری نبی کریم حضرت محمد مصطفی (ص) کے نواسے اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت امام علی اور دختر پیغمبر اکرم (ص) حضرت فاطمة الزہرا (س) کے فرزند ہیں، آپ حضرت امام حسن علیہ السلام کے بھائی ہیں، آپ کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث مبارکہ ہے کہ ''حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں''۔ مسلمانان عالم ماہ محرم کا آغاز ہوتے ہی آپ اور آپ کے اہل و عیال کی بےمثل قربانی کی یاد مناتے ہیں جو آپ نے 61ء ہجری میں کربلا کے میدان میں اسلام کو تحفظ بخشنے کی خاطر پیش کی تھی، آپ خود شہید ہوئے، آپ کے بیٹے، بھائی، گھر کے معزز افراد اور آپ کے باوفا اصحاب بھی آپ کے ہمراہ شہید ہوئے، آپ کے گھر والوں کو کربلا میں قید کیا گیا اور پھر ایک شہر سے دوسرے شہر اور شام میں یزید کے دربار لے جایا گیا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آپ کی قربانی نے نہ صرف اسلام کو دوام بخشا بلکہ اس قربانی ہی کا اثر ہے کہ آج پوری دنیا میں محرم کا چاند نظر آتے ہی آپ کی اور آپ کے پیاروں کی یاد میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کربلا 61ء ہجری تک محدود ہے؟ کیا کربلا میں عظیم ترین مقدس ہستیوں کی قربانی فقط 61ء ہجری کے لئے تھی؟ شاید ایسا نہیں ہے، بلکہ آج بھی اگر ہم دیکھیں تو دنیا میں ہمیں کہیں کربلائے افغانستان نظر آ رہی ہے، تو کہیں کربلائے عراق، کہیں کربلائے یمن اور کہیں کربلائے مصر ہے، کہیں کربلائے شام ہے اور کہیں کربلائے لبنان، غرض یہ کہ ان سب سے بڑی کربلا ہمیں کربلائے فلسطین نظر آتی ہے اور ان تمام مقامات کو ایک ہی قوت کا سامنا ہے جسے وقت کا یزید یعنی امریکہ اور اسرائیل کہا جاتا ہے، دور حاضر کے یزیدوں اور یزیدی کردار کے پیروکاروں نے پوری مسلم امہ کو نہ صرف یر غمال بنا رکھا ہے بلکہ اپنا غلام بھی بنا لیا ہے اور مسلمانوں کو ظلم کی چکی میں پیس رہے ہیں، آج کی تمام مسلم قومیں منتظر ہیں کہ کوئی وقت کا حسین آئے اور ان یزیدی قوتوں سے برسر پیکار ہو کر انہیں شکست سے دو چار کر دے اور انسانیت کو فلاح بخشے۔

کربلائے فلسطین آج بھی 61ء ہجری کی کربلا کا منظر نامہ پیش کر رہی ہے کہ جہاں وقت کا یزید اسرائیل قابض ہو چکا ہے اور فلسطین کے عوام پر انسانیت سوز مظالم کے ذریعے اپنے ظالم ہونے کا اعلان کر رہا ہے لیکن افسوس ناک بات ہے کہ پوری دنیا میں 1.8بلین مسلمان موجود ہونے کے باوجود بھی کربلائے فلسطین کو نجات دلوانے میں ناکام رہے ہیں، مسلمانوں کی کاہلی اور سستی اس بات کا موجب بنی ہے کہ یزید وقت امریکہ اور اسرائیل کی چیرہ دستیاں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں، یہ مسلم امہ کی خاموشی ہے جس نے کربلائے فلسطین کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے، آج مسلمانوں کو کربلا سے درس حاصل کرتے ہوئے دور حاضر کی سب سے بڑی کربلا، کربلائے فلسطین کو آزاد کروانا ہوگا وگرنہ غاصب اسرائیل مسلم امہ کے مقدس ترین مقامات پر اپنے غاصبانہ تسلط سے دور نہیں رہے گا بلکہ فلسطین میں موجود قبلہ اول پر صیہونی تسلط کے بعد حتماً صیہونی اپنے عظیم تر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کے تحت کعبة اللہ یعنی مکة المکرمہ کی طرف اپنی میلی آنکھیں اٹھائے گا، اس سے قبل کے غاصب اسرائیل اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کے لئے حرکت کرے ہمیں چاہیئے کہ ہم آگے بڑھ کر اس وقت کے یزید کے ہاتھ کاٹ دیں۔

اس موقع پر مجھے ایک عظیم مفکر اسلام حضرت شہید مرتضیٰ مطہری رحمة اللہ علیہ کا ایک فرمان یاد آ رہا ہے، آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ''اگر آج کے زمانے میں امام حسین موجود ہوتے تو وہ فلسطین کے لئے قیام کرتے''۔ یعنی مطلب بہت واضح ہے کہ امام حسین کے نزدیک فلسطین مہم ترین ہوتا اور آپ اس کے لئے قیام کرتے اور جہاد کرتے تاکہ فلسطینیوں کو غاصب اسرائیلی دشمن کے پنجے سے نجات دلوائی جا سکے۔ یقینا شہید مطہری (رہ) کے قول کے بعد ہماری نظر میں فلسطین کی اہمیت اور بھی آشکار ہو جانی چاہیئے کہ آج اس خطے کی یزیدی قوتوں کے سامنے آزادی در اصل اسلام کی آزادی اور دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کی اہم کڑی ہے۔

دور حاضر کی کربلائے فلسطین میں آج یزیدی کردار کی حامل قوتیں امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے مددگار معصوم فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش ہیں، غاصب اسرائیلی دشمن کی طرف سے معصوم فلسطینیوں کا محاصرہ کیا گیا ہے ان پر خوراک، ادویات، پانی اور زندگی سے متعلق تمام تر اشیاء کو بند کر دیا گیا ہے، جس طرح کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے لئے یزید نے پانی بند کر دیا تھا، آج وقت کا یزید اسرائیل معصوم فلسطینی بچوں کا قتل عام کر رہا ہے، خواتین اور بزرگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، نوجوانوں کو جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے، اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو جنگی جہازوں کی مدد سے تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ فلسطینی زمینوں پر موجود کھیتوں میں پیدا ہونے والی اللہ کی نعمتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، فلسطینی عوام کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے، فلسطینیوں کے گھروں کو بڑے بڑے بلڈوزروں سے مسمار کیا جاتا ہے پھر وہاں پر صیہونیوں کے لئے عالی شان عمارات تعمیر کی جارہی ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک سے صیہونی دہشت گرد نظریات کے حامل یہودیوں کو لا کر فلسطینیوں کی زمینوں کا مالک بنایا جا رہا ہے۔

فلسطینیوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، غرض یہ کہ فلسطینیوں کی عزت و تکریم کو مجروح کیا جا رہا ہے، حتیٰ فلسطینیوں کو روزگار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ سمندر میں مچھلیاں پکڑنے والے ماہی گیروں کو جیلوں میں قید کیا جاتا ہے، خود جیلوں میں چودہ سو قیدی ایسے موجود ہیں جو مختلف قسم کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں لیکن ان کا پرسان حال کوئی بھی نہیں ہے، معصوم بچوں کو موت کی چکی میں پیس دیا گیا ہے، ان تمام حالات سے بھی بڑھ کر مسلمانوں کے مقدس مقام قبلہ اول بیت المقدس کی بےحرمتی کی جا رہی ہے، تماشبین یہودی مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر اللہ کے گھر کی بےحرمتی کرتے ہیں اور وہاں پر ناچ گانے کی محافل بپا کرتے ہیں لیکن افسوس ہے غیرت مسلماں پر کہ جو جوش میں آتی ہی نہیں، کاش کہ کوئی وقت کا حسین آئے اور اس دور حاضر کی کربلا ''کربلائے فلسطین'' کو وقت کے یزیدوں امریکہ اور اسرائیل کے چنگل سے آزاد کروا دے۔
خبر کا کوڈ : 323842
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش