2
0
Wednesday 12 Mar 2014 21:45

ایم کیو ایم جتنی نفرت۔۔۔۔

ایم کیو ایم جتنی نفرت۔۔۔۔
تحریر: سید قمر رضوی

متحدہ قومی موومنٹ المعروف ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک جزوِ لاینفک کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جو کسی بھی جماعت کی حکومت سازی یا حکومت کشی کے لئے بنیادی کردار کی حامل ہے۔ چونکہ اولاً یہ جماعت ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے پاکستانیوں کی نمائندہ جماعت تھی، اس لئے اسکا اثر و رسوخ بھی انہی علاقوں میں رہا جہاں زیادہ تعداد میں مہاجرین آباد تھے۔ بعد ازاں اسے مہاجر کے خول سے آزاد کرکے اسکے دائرے کو قومی سطح پر پھیلا کر پاکستان کے متوسط اور پڑھے لکھے طبقے کی جماعت کے عنوان سے نئی شناخت دی گئی۔ 

بنیادی طور پر ایم کیو ایم غریب اور مڈل کلاس کی نمائندہ جماعت ہے۔ اسکے رہنما، کارکنان اور ووٹر سب ہی گلی محلوں کے رہنے والے ہیں اور یہاں رہنماؤں اور عوام کے درمیان پروٹوکول کی کوئی دیوار حائل نہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں جنم لینے والے، گلیوں میں کرکٹ کھیلنے والے، بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنے والے اور پیلے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے ہی اس جماعت کے نمائندگان ہیں۔ اسی بنا پر اس جماعت کا نعرہ عوام کی حکومت اور وڈیرہ شاہی کا خاتمہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ جماعت اپنے نعرے کا پاس رکھنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اسکی وجوہات نہ ہی میرے علم میں ہیں اور نہ ہی میرا موضوع۔

میرا مدعا اس وقت ایم کیو ایم کے نظریات اور اسکے بارے میں عمومی رائے ہے، چونکہ ایم کیو ایم کا زیادہ اثر کراچی اور حیدرآباد کے شہروں میں ہے اس لئے باقی پاکستان کے افراد اس جماعت کے بارے میں براہِ راست آگاہ نہیں ہیں۔ وہ وہی جانتے ہیں جو انہیں بتایا جاتا ہے۔ میں بھی چونکہ اسلام آباد کا رہائشی ہوں، اس لئے مجھے بھی اتنا ہی معلوم ہے جتنا ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے مجھے بتایا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک عوامی جماعت کے لئے عوام کے دلوں میں ایک باعزت مقام ہوتا، لیکن عمومی رائے میں ایم کیو ایم عوام کی ناپسندیدہ جماعت ہے۔ ویسے تو پاکستان کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ایسی ہوگی جسکے کارکنان دنگے، فساد اور بندوق کے متوالے نہ ہوں، لیکن ایم کیو ایم وہ واحد جماعت ہے کہ جسکا نام سنتے ہی ذہن کے پردے پر بندوق کا نقش ابھرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر سیاسی جماعت کا رہنما اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے لیکن ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین بھائی کو لوگ مضحکہ خیز نظروں سے دیکھتے ہیں کہ وہ اکثر و بیشتر میڈیا پر نمودار ہو کر عجیب و غریب حرکتیں کرکے عوام کا دل بہلانے کا کام بھی بخوبی کرتے ہیں۔

جو لوگ کراچی نہیں گئے، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ کراچی ایم کیو ایم کا گڑھ ہے، جہاں ہر شخص مسلح  ہے اور اسے کسی پر بھی اس اسلحے کو استعمال کرنے کی آزادی ہے۔ اب اس اسلحے کے زور پر وہ اغوا کرے، عصمت دری کرے، بھتہ خوری کرے، ووٹ ڈلوائے، ڈاکے ڈالے یا کسی کی جان بھی لے ڈالے، اور جو شخص یہ تمام معاشرتی برائیاں کرنے کا مجاز ہو، اسکا تعلق ضرور ایم کیو ایم سے ہوگا۔ اپنے اسی تاثر کی وجہ سے عموماً لوگوں میں ایم کیو ایم کے خلاف نفرت کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جسکے بغیر ویسے تو پورے ملک کی ہی کوئی اہمیت نہیں، لیکن روزانہ کے اخبارات اور ٹی وی چینلز اس بات کا ریکارڈ رکھتے ہیں کہ کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جب یہ شہر شہ سرخیوں کا مرکز نہ بنتا ہو۔ 

اس شہر کی وجہِ شہرت کبھی روشنیاں ہوا کرتی تھیں، لیکن اب اندھیرے، اندھیر نگریاں، خوف، خون، بدروحیں، اخلاق باختگی  اور انسانیت سوزی اس شہر کا طرہء امتیاز ہیں اور ان تمام معاشرتی برائیوں کی وجہِ اصل ایم کیو ایم ہے۔ یہ وہ تاثر ہے جو ہم کراچی سے باہر کے شہریوں کے ذہنوں میں قائم ہوچکا ہے، جبکہ کچھ سال قبل یہی ایم کیو ایم اور اسکا ایک کارکن مصطفٰے کمال سارے پاکستان کی آنکھ کا تارہ تھا۔ وہ میڈیا پر ایک ایسے ہیرو کی صورت میں نمودار ہوتا جو راتوں کو سڑکوں پر کام کرتا ہوا نظر آتا اور دن کو مزدوروں کے ساتھ انکے کاموں کی نگرانی کرتا ہوا۔ کبھی کسی ملک سے اپنے شہر کی جدت کے لئے معاہدے کرتا ہوا نظر آتا تو کبھی کسی دوسرے ملک سے انعامات وصول کرتا ہوا۔ ایم کیو ایم کی شہری حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اس جماعت کے اس امیج کا بھی خاتمہ ہوگیا اور ایک مرتبہ پھر لوگوں کے ذہنوں میں ایم کیو ایم اور کلاشنکوف ایک ساتھ نظر آنے لگے۔
 
اس وقت لوگوں کی ایم کیو ایم سے نفرت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وہ ہر لمحے اس جماعت اور اسکے قائد کے خاتمے کے منتظر رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل الطاف حسین صاحب کے ایک خطاب کے ردِعمل میں پورے ملک میں ایک تحریک نے جنم لیا، جس لندن پولیس کو فون کرکے الطاف حسین کے خلاف اپنی شکایت درج کروانے کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ لندن پولیس ٹیلیفون کالیں موصول کرکر کے بہری ہوگئی۔ اب بھی لوگ پرامید ہیں کہ عمران فاروق قتل کیس میں جلد الطاف حسین صاحب کو سزا ہوجائیگی، کیونکہ یہ بھی عمومی تاثر ہے کہ اس جماعت کے لوگ اپنے مفادات کی خاطر اپنے ہی لوگوں کو راستے سے ہٹانے میں کسی تامل سے کام نہیں لیتے۔ اسی سوچ کے تحت سابقہ جمہوری حکومتوں کے ادوار میں ایم کیو ایم کے خلاف دردناک ترین فوجی آپریشن بھی کیا گیا، جس میں اس شدت کی خونریزی ہوئی کہ بیشمار لوگوں نے دوسرے شہروں اور بیرونِ ملک ہجرت بھی کی۔ اسی آپریشن کے دوران ماؤں کی نظروں کے سامنے انکے لخت ہائے جگر کو گولیوں سے بھون کر لاشوں کی بیحرمتی کی گئی۔ آج بائیس سال بعد پھر کراچی میں آپریشن جاری ہے اور سننے میں یہی آتا ہے کہ اسکا نشانہ حسبِ سابق ایم کیو ایم ہے؛ کیونکہ اس پر دہشت گردی کا لیبل لگ چکا ہے اور جب تک کراچی سے دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جاتا، باقی ملک میں بھی قیامِ امن کی کوئی ضمانت نہیں۔
 
میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ یہاں ایم کیو ایم کے ممبرانِ اسمبلی تو رہتے ہیں لیکن یہاں اسکے مسلح کارکنان کا وجود تو درکنار، سایہ تک موجود نہیں، بلکہ کراچی اور حیدرآباد کے کچھ مخصوص علاقوں کے علاوہ پورے پاکستان میں ایم کیو ایم کے "مسلح غنڈوں" کا کوئی وجود نہیں، لیکن پھر بھی کراچی کی طرح پورا ملک خاک و خون میں غلطاں ہے۔ کوئی شہر ایسا نہیں جہاں تسلسل کے ساتھ دہشت گردانہ کارروائیاں نہ ہو رہی ہوں۔ جمہوری حکومتوں نے ایک سیاسی جماعت کو قابو میں کرنے کے لئے تو بے باکانہ فوجی آپریشن کئے، لیکن سرِ عام دہشت گردی کرنے، اسکی ذمہ داری قبول کرنے اور دہشت گردی جاری رکھنے والے تمام عناصر اس موجودہ جمہوری حکومت کے ایسے انوکھے لاڈلے ہیں جنہیں کھیلن کو یہ چاند سا ملک بھی دے دیا گیا ہے اور انہی کو اپنی گود میں بٹھا کر "گلوگلوگلوگلو ۔۔۔ الے میلا منا۔۔۔۔" کیا جا رہا ہے۔

شاید ایم کیو ایم وہ واحد جماعت ہے جس نے طالبانائزیشن کی نشاندہی کرکے اسمبلیوں میں اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ مستقبل قریب میں ملک کو شدید خطرات لاحق ہیں لیکن چونکہ الطاف حسین بھائی کا امیج اتنا خراب ہوچکا تھا، اس لئے انکی سنجیدہ باتوں کو بھی مذاق سمجھ کر مذاق اڑا دیا گیا۔ کل پھر اسی "نوٹنکی" نے ملکی معاملات کو سلجھانے کی خاطر فوج کی مداخلت کی بات کی تو اسمبلی میں اسکے خلاف قرارداد پیش کرکے منظور بھی کر لی گئی۔
میں سوچتا ہوں کہ کاش ہمارے اربابِ اختیار نے جتنی محنت ایم کیو ایم اور اسکے امیج کو ختم کرنے کے لئے کی، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس جماعت کے بگڑے ہوئے بچوں کو سدھارنے میں کرتے تو شاید آج ہزاروں مصطفٰےکمال، بنامِ مصطفےٰﷺ کمال کر رہے ہوتے۔
 
کاش ہم کراچی سے باہر والوں کے دلوں میں طالبان کے خلاف بھی  اتنی ہی نفرت پیدا کی ہوتی کہ ہم ان سنپولوں کے خلاف سڑکوں پر آجاتے۔ اپنے ٹیلی فون اٹھا کر دنیا جہان کے اربابِ اختیار کو فون کرکے اس عفریت سے جان چھڑانے کی مدد چاہتے۔ کاش ہم الطاف حسین کی پھانسی کی خبر سننے کی بجائے ملا فضل اللہ کی نابودی کی خبر سننے کو بیتاب ہوتے۔ کاش ہماری فوج کی گولیوں کو اپنے ہی ہموطنوں پر برسانے کی بجائے ان غیر ملکی اور ملک دشمنوں کے قلع قمع کی خاطر استعمال کیا جاتا۔ کاش طالبان ایم کیو ایم ہوتے۔۔۔۔ تو آج یہی حکومت ان سے مذاکرات کی بجائے 1992ء کی تاریخ دہرا رہی ہوتی۔
خبر کا کوڈ : 360868
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
yea/haqeqat per mabne hay ,Good V Good Shabash


ASKARI
Pakistan
Very nice analysis
منتخب
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش