4
2
Wednesday 30 Aug 2023 18:30

ناموس صحابہ بل کے حوالے سے بزرگ عالم دین سابق سینیٹر علامہ ڈاکٹر جواد ہادی کا خصوصی انٹرویو

ناموس صحابہ بل کے حوالے سے بزرگ عالم دین سابق سینیٹر علامہ ڈاکٹر جواد ہادی کا خصوصی انٹرویو
علامہ ڈاکٹر سید محمد جواد ہادی کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ 1953ء کو کڑمان میں پیدا ہوئے۔ مڈل تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول کڑمان سے حاصل کی۔ 1968ء میں مدرسہ جعفریہ میں داخلہ لیکر ابتدائی دینی تعلیم علامہ سید محمد بشیر نجفی اور علامہ سید بادشاہ حسین سے حآصل کی۔ 1972ء میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے نجف اشرف چلے گئے، کچھ عرصہ وہاں گزار کر قم تشریف لائے۔ قم اور نجف میں قائد شہید کے زیر تربیت رہنے کے علاوہ انکے اور علامہ سید عابد الحسینی کے دست راست رہے۔ 1986ء میں قائد شہید کے کہنے پر پاکستان آکر تحریک نیز مدرسہ کے امور میں انکے معاون کار اور دست راست رہے۔ شہید کی تجویز پر انہیں تحریک نیز آئی ایس او کے مجلس نظارت کا رکن چنا گیا۔ 1993ء میں تحریک جعفریہ کے پلیٹ فارم سے سینیٹر منتخب ہوکر 1999ء تک ایوان بالا سے مکتب تشیع کیلئے گرانبہا خدمات انجام دیں۔ 1995ء میں سپاہ صحابہ کی جانب سے پیش کئے جانے والے ناموس صحابہ بل کو نہایت دلیل اور جرات کے ساتھ ایوانوں سے نکال پھینک دیا۔ علامہ صاحب نے قائد شہید کے نامکمل مدرسہ جامعہ الشہید کو مکمل کرنے کے علاوہ متعدد دینی مدارس نیز اسلامیہ پبلک سکولز سسٹم کے نام سے درجنوں جدید سکولز کھولے۔ پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ محقق اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کی شورائ عالی کے رکن ہیں۔ آجکل بیمار اور نہایت ضعیف ہوچکے ہیں۔ بڑی مشکل سے منا کر اور راضی کرکے ناموس صحابہ بل کے موضوع پر انکا خصوصی انٹرویو لیا۔ جسے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب، سلام علیکم، آپکی صحت و سلامتی کی دعا کے ساتھ آپکو صرف چند منٹ کی تکلیف دیتے ہیں اور گفتگو کی اجازت طلب کرتے ہیں۔
ڈاکٹر علامہ جواد ہادی:
علیک السلام، بسم اللہ فرمائیں۔ بندہ کی بیماری کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال کیجئے گا اور جواب کی توقع رکھئے گا۔ صحت کے مطابق اگر ہم سے کوئی چوک اور غلطی سرزد ہوگئی تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: ناموس صحابہ بل سے نمٹنے کیلئے یا آئندہ ایسے قوانین سے نمٹنے کیلئے کیا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیئے۔؟
ڈاکٹر علامہ جواد ہادی:
ایسے حادثات سے نمنٹنے کیلئے شیعوں کو چاہیئے کہ چند اہم اور بااثر علماء کو ہر قیمت پر منتخب کرکے پارلیمنٹ بھیجیں۔ جو ایسے مواقع پر احتجاج کرسکیں۔ دیکھیں اس قانون کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ کورم پورا نہ ہونے کے باوجود بل پیش ہوا، اگر اس دوران پارلیمنٹ میں ذمہ دار کوئی نمائندہ ہوتا، تو وہ کچھ بھی نہیں کم از کم یہی اعتراض اٹھاتا کہ کورم پورا نہیں۔ یوں اس پر بحث ہی نہ ہوتی۔ چنانچہ آئندہ انتخابات میں جن مقامات پر جیت ممکن ہے، اہم اور ذمہ دار علماء کو کھڑا کرکے کامیاب کرایا جائے۔

اسلام ٹائمز: آغا صاحب! آپ جب سینیٹر تھے، سنا ہے کہ اسوقت بھی یہ بل پیش ہوا تھا۔ اسوقت کیا صورتحال تھی، اس بل کو کون لے کر آیا تھا۔؟
ڈاکٹر علامہ جواد ہادی:
ہاں ایسا ہی تھا۔ اس وقت سپاہ صحابہ کے ایم این اے اعظم طارق صاحب تھے۔ انہوں نے یہ بل پیش کرایا تھا۔ پہلے ہی مرحلے میں انہوں نے 100 سے زائد افراد کے دستخط لے کر بحث کیلئے منظور کرایا تھا۔ چنانچہ جب بل پیش ہوا اور اس پر بحث کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت تحریک جعفریہ بہت فعال تھی۔ ملک کے طول و عرض میں بزرگ علماء فعال تھے۔ علماء میں بڑی حد تک اتحاد کی فضا قائم تھی۔ چنانچہ بل پر بحث سے پہلے ہی بہت بڑی تیاری کی جاچکی تھی۔ مواد تیار کیا گیا تھا۔ ایک چھوٹا سا پمفلٹ تیار کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک بہت ہی زخیم کتاب اور دستاویز تیار کی گئی۔ جو 1000 سے زائد صفحات پر مشتمل تھی۔ جس کا نام غالباً "سینیٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو پیش کی جانے والی (تحقیقی دستاویز)" رکھا گیا تھا۔ بحث سے پہلے ہی وہ مواد متعلقہ ممبران نیز تمام چیف جسٹس صاحبان کو پیش کیا گیا۔ جائنٹ سیشن میں بل پر بحث شروع ہوئی تو مولانا صاحب کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ چنانچہ انہیں بہت خفت اٹھانی پڑی اور بل کے ساتھ گویا ان کا ایوان سے جنازہ نکل گیا۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر صاحب! بعض لوگ اعتراض یہ اٹھاتے ہیں کہ شیعہ کو اس سے کیا تکلیف ہے جبکہ وہ خود ہی قائل ہیں، انکے فقہاء قائل ہیں کہ اہلسنت کی مقدسات کی توہین جائز نہیں۔؟ 
ڈاکٹر علامہ جواد ہادی:
دیکھیں، یہ بل نامکمل ہے۔ یہ قابل وضاحت ہے۔ اس میں وضاحت کی جانی چاہیئے تھی اور صحابہ کی تخصیص کرنی چاہیئے تھی۔ نیز توہین کا تعین اور وضاحت کرنی چاہیئے۔ صحابہ کی اکثریت پر تو فریقین متفق ہیں۔ کچھ محل نظر ہیں اور کچھ مکمل متنازعہ ہیں۔ جن پر خود اہل سنت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ خود اہل سنت انہیں قابل توقیر و احترام نہیں سمجھتے۔ چنانچہ شیعہ تو کیا خود اہل سنت میں ان پر شدید اختلاف ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ توہین کی تعریف نہیں کی گئی ہے کہ توہین کیا ہے۔ کیا کسی حدیث کا حوالہ دینا، یا قرآن کا حوالہ دینا بھی توہین کے زمرے میں آسکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو خود قرآن اور حدیث متنازعہ بن جائیں گے اور پھر اگلے مرحلے میں ان پر پابندی لگانی پڑے گی۔ 

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب، آپکے علم میں ہے کہ ناموس صحابہ بل کے نام سے اہلیان وطن بالخصوص حسینی شیعہ اور اہل سنت پر ایک نئی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔ اس حوالے سے کیا اظہار خیال فرمائیں گے۔؟
ڈاکٹر علامہ جواد ہادی:
اس سے کوئی مسئلہ نہیں پڑے گا۔ اس کی وہی مثال ہے کہ اگر کسی گاؤں یا علاقے میں کچھ افراد مجرم ٹھہریں تو ان کے خلاف غیر مجرم کارروائی اور اتحاد کرسکتے ہیں۔ مگر جب اس گاؤں کی اکثریت مجرم ہو جائے گی تو مجرموں کے خلاف باقی لوگ کیا کارروائی کرسکیں گے۔ اس کے بعد پاکستان ایک ویرانہ بن جائے گا۔ کیونکہ جب کسی ملک کے مجرم کروڑؤں میں ہو جائیں، تو انکے خلاف کارروائی کہاں ہوگی۔ انہیں سزا کون اور کیسے دے گا۔ ان مجرموں کو رکھیں گے کہاں۔ اتنے مجرموں سے نمٹنے کیلئے اربوں نہیں بلکہ کھربوں کا بجٹ درکار ہوگا اور یہ کہ پھر پاکستان میں کسی اور جرم کی شنوائی سرے سے ہوگی ہی نہیں۔ چنانچہ یہ ایک لغو اور بے معنی قانون ہے، جو بے اثر رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 1078798
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Muhammad
United States
بالکل صحیح
Muhammad
United States
بالکل صحیح
Sajjad Alvi
Pakistan
Allah Dr Sahib kw sehat k sath toole umr atta kare. ameen.
Shahid kazmi
Pakistan
alllama sahib zinda bad. allah ap ko mahfooz rake.
منتخب
ہماری پیشکش