2
0
Wednesday 18 Apr 2012 00:55

دہشتگردی پاکستان کو توڑنے کی سازش ہے، نادیدہ قوتیں ایک مرتبہ پھر بڑی غلطی کرنے جارہی ہیں، علامہ اصغر عسکری

دہشتگردی پاکستان کو توڑنے کی سازش ہے، نادیدہ قوتیں ایک مرتبہ پھر بڑی غلطی کرنے جارہی ہیں، علامہ اصغر عسکری
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد اصغر عسکری کا بنیادی تعلق جنوبی پنجاب کے سرحدی ضلع بھکر سے ہے، آپ نے بچپن ہی میں دینی تعلیم کا آغاز کیا اور مدرسہ باقر العلوم کوٹلہ جام بھکر میں دو سال زیرتعلیم رہے، اس کے بعد مدرسہ آیت اللہ حکیم راولپنڈی میں تین سال مذہبی تعلیم حاصل کی، اسی دوران آپ نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے گریجویشن کی ڈگری بھی حاصل کی، پھر 1988ء کو آپ اعلی دینی تعلیم کی غرض سے قم المقدس ایران تشریف لے گئے، جہاں سے آپ کی پاکستان واپسی 13 سال بعد 2001ء میں ہوئی۔ قم میں قیام کے دوران آپ نے تھیالوجی میں چار سالہ سپشلائزیشن کی۔ پاکستان واپسی پر تین سال تک جامعہ بعثت میں تدریس کی، اس کے بعد سے جامعتہ الرضا ع اسلام آباد میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، آپ تشیع کے حقوق کے لئے ہمیشہ سرگرم دکھائی دیتے ہیں، اسلام ٹائمز نے ملک میں امن و امان کی موجودہ خطرناک صورتحال اور تشیع کو درپیش چلینجز کے تناظر میں علامہ اصغر عسکری کے ساتھ گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کا یہ جو خطرناک حالیہ سلسلہ جاری ہے، اس کے پیچھے بیرونی قوتیں کار فرما ہیں یا اندرونی گروہ اس میں ملوث ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ اس وقت پاکستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اس میں سب سے اہم دہشتگردی کا چیلنج ہے، اس میں مختلف عناصر شامل ہیں، کچھ بیرونی طاقتیں یعنی امریکہ اور دیگر استعماری قوتیں یا جو امریکہ کے کہنے پر چلتی ہیں، ان کی یقیناً پاکستان میں مداخلت بھی ہے اور وہ پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں، اس کا واضح ثبوت بلوچستان کے مسائل ہیں، آج بلوچ رہنماء کھلے عام برملا یہ اظہار کر رہے ہیں کہ ہمیں پاکستان سے علیحدگی چاہئے، یہ مختلف عناصر ہیں۔ بیرونی قوتوں کے علاوہ بعض اندرونی نااہل عناصر ہیں جو پاکستان کے مختلف اداروں میں بیٹھے ہوئے ہیں، المیہ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ نادیدہ قوتیں جو بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر چلتی رہی ہیں کی وجہ سے آج پاکستان کو ان مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سب سے زیادہ مجرم اور قصور وار ہمارے بعض ادارے اور ایجنسیاں ہیں، چاہئے اسے آپ آئی ایس آئی کہیں یا آئی بی، یہ ان اداروں کی نا اہلی ہے کہ دہشتگرد سرعام آتے ہیں اور بسوں سے لوگوں کو اتار کر مار دیتے ہیں، اور یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

اسلام ٹائمز:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حالیہ دور میں کالعدم تنظیموں کو اس طرح کھلی چھٹی دینا دہشتگردی کو پروان چڑھانے کی کسی سازش کا حصہ ہو سکتا ہے۔؟
علامہ اصغر عسکری: بالکل۔ یہ سوچی سمجھی سازش ہے، ہم تو بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ دفاع پاکستان کونسل کے نام سے جن گروپوں کو جمع کیا گیا ہے ان میں دہشتگرد لوگ اور کالعدم جماعتیں شامل ہیں، ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو پاکستان دشمن ہیں، جن کی سوچ پاکستان کے خلاف ہے، وہ آج بھی قائداعظم کیلئے کافر اعظم کا نعرہ لگاتے ہیں، اس (دفاع پاکستان کونسل) کو جو تحفظ دیا جارہا ہے ہمیں معلوم ہے کہ اس کے پیچھے ایجنسیاں ہیں، اس صورتحال میں قوم کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان کو توڑا جا رہا ہے، ان گروپس کو پروموٹ کر کے دہشتگردی کو فروغ دیا جا رہا ہے، ان کی حوصلہ آفزائی کی جا رہی ہے، یہی دہشتگرد سینکڑوں بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث ہیں، اسی دفاع پاکستان کونسل کے جلسے میں ملک اسحاق جیسا بڑا دہشتگرد سٹیج پر آتا ہے اور اسے بھرپور پروٹوکول دیا جاتا ہے، کس کو نہیں معلوم کہ جی ایچ کیو پر جب حملہ ہوا تو لاہور سے انہی دہشتگردوں کو لایا گیا اور پھر مذاکرات ہوئے اور ہمارے فوجیوں کو رہائی ملی۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ نادیدہ قوتیں اور ادارے پھر بڑی غلطی کرنے جا رہے ہیں، اور یہ پاکستان کو توڑنے کی سازش ہے، حمید گل صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو انتہاء پرستی سے نکال کر مین سٹریم میں لانا چاہتے ہیں، یہ صرف نعرہ ہے، جب سے دفاع پاکستان کونسل بنائی گئی ہے یہ لوگ انتہاء پسندی سے کتنا نکلے؟ بلکہ انتہا پسندی بڑھی ہے، یہی کالعدم تنظیم جو آج کل اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کہلوا رہی ہے جب سے دفاع پاکستان کونسل میں آئی ہے اس کا رویہ انتہاء پسندی کی طرف مزید بڑھا ہے، قتل عام اور ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا ہے، ہمارے لوگوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے، انہی لوگوں کے ہاتھوں سندھ میں علم پاک جلانے کا طولانی سلسلہ چل رہا ہے، اس صورتحال میں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے یہ پاکستان کو توڑنے کی سازش اور اہل بیت ع کے پیروکاروں کیلئے نیا محاذ کھولا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ صورتحال میں دیگر مسالک کی دینی جماعتوں کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: میں سمجھتا ہوں کہ دینی جماعتوں کا جو فرض بنتا تھا انہوں نے وہ اب تک اس طریقے سے ادا نہیں کیا، 1988ء سے مسلسل اہل تشیع کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ہم کہتے ہیں کہ یہ فرقہ واریت نہیں دہشتگردی ہے، ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ دہشتگردی ہمیشہ ہمارے خلاف کیوں؟ لہٰذا مذہبی جماعتوں کی جو ذمہ داری بنتی تھی انہوں نے وہ ادا نہیں کی، صرف مذمتی بیانات دے دینا کافی نہیں ہوتا، اس حوالے سے پورے پاکستان میں لوگوں کا شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، اور پھر آج تک جو پاکستان میں بعض ایسی مذہبی جماعتیں ہیں جو اپنے آپ کو معتدل کہلواتی ہیں انہی جماعتوں کے بغل میں یہی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، ایسے میں قوم کو کیا پیغام جائے گا؟ یہی لوگ ان کی حوصلہ آفزائی اور تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اتحاد کی ضرورت کو کس قدر اہم سمجھتے ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات کی روشنی میں ہر شیعہ فرد کی سب سے اہم ذمہ داری یہی ہے کہ وہ آپس میں اتحاد و وحدت کی طرف بڑھے، اس وقت اتحاد و وحدت کی اشد ضرورت ہے، تنظیمیں اور جماعتیں ہوتی ہیں اور ہونی چاہیئں، لیکن اگر ان کی بنیاد مثبت ہے تو ٹکرائو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صورتحال وہاں خراب ہوتی ہے جب لوگ کریڈٹ لینے کی بات کرتے ہیں، میرے خیال میں جتنی قربانیاں ہم دے چکے ہیں اب ہمیں کریڈٹ کے چکروں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اب مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اگر میں کام کر رہا ہوں اور نام کسی اور کا آرہا ہے تو مجھے اسے کھلے دل سے قبول کر لینا چاہئے، ہمارے یہاں اتحاد بین المومنین کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ اپنی جماعت ، میرا نام اور اس قسم کی دوسری باتیں ہیں۔
 
میں اکثر کہتا ہوں کہ اتحاد بین المسلمین آسان ہے لیکن اتحاد بین المومنین مشکل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اتحاد بین المومنین میں نفس کی قربانی دینی ہوتی ہے، اور یہ سب سے بڑی قربانی ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ جہاں کہیں اس طرح کا ایشو ہو وہاں سارے اکھٹے ہو جائیں، پالیمنٹ ہائوس کے سامنے دیئے گئے دھرنے کی مثال لے لیں کہ ہم راولپنڈی اسلام آباد کی تمام ماتمی انجمنوں، تنظیموں کو سراہتے ہیں کہ انہوں نے اس دھرنے میں بھرپور حصہ لیا، ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل اسی میں ہے کہ ہم منظم اور متحد ہو جائیں۔

اسلام ٹائمز:مجلس وحدت مسلمین کاآئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے۔؟
علامہ اصغر عسکری: ہماری یہ تحریک بیداری کی تحریک ہے، ہمارا یہ سلسلہ جاری رہے گا، ہم حکومت اور میڈیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں، قومی میڈیا کی جو ذمہ داری تھی وہ اس نے اس طریقہ سے ادا نہیں کی جیسے اس کا فرض بنتا تھا، چلاس میں اتنا بڑا سانحہ ہوا لیکن میڈیا نے کوریج نہیں دی۔ اگر میڈیا پر نادیدہ قوتوں کا دبائو ہے یا کوئی اور مجبوری ہے تو پھر یہ میڈیا آزاد نہ کہلائے، ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، اگر چند افراد پارلیمنٹ کے سامنے آکر احتجاج کرتے ہیں تو اس کی لائیو کوریج کی جاتی ہے لیکن پارلیمنٹ کے سامنے لوگ کئی دن تک بیٹھے رہے، پورے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے چینی کی سی کیفیت ہے لیکن ہمارا قومی میڈیا اس سانحہ کو ہائی لائیٹ نہیں کر رہا۔

اسلام ٹائمز: آخری سوال آپ سے یہ ہے کہ پاکستان میں مستقبل کے حالات کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: مایوس نہیں ہونا چاہئے، مایوسی گناہ ہے۔ لیکن اس وقت پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ہمیں ایسی کوئی راہ نہیں نظر آرہی کہ پاکستان کے حالات بہتری کی طرف جائیں گے، ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ ہمارے نااہل حکمران اور سیاسی جماعتیں اپنے مفادات سے ہٹ کر ملک کی سلامتی اور مفاد کیلئے سوچنا شروع کردیں تو پاکستان کے حالات میں بہتری آسکتی ہے، سوچ کو مثبت بنانے کی ضرورت ہے، کون نہیں جانتا کہ آج پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مابین جنگ صرف مفادات کی ہے، عمران خان نے جب اپنی سونامی کا سلسلہ شروع کیا تھا تو یہ نعرہ لگایا تھا کہ جتنے بھی کرپٹ لوگ ہیں ہم انہیں اپنے ساتھ شامل نہیں کریں گے، لیکن آج آپ دیکھیں کہ وہی لوگ ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں، یہ ساری مفادات کی سیاست ہے۔ اب ہمارے لوگوں کو بھی سوچنا ہو گا اور شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ کن لوگوں کو وہ معزز ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔ جب تک یہ سوچ پروان نہیں چڑھتی پاکستان کے حالات میں بہتری نہیں آسکتی۔
خبر کا کوڈ : 154256
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

salam
i agree with many ideas of molana askari but its is time to prove in practical that unity is our basic need he should use his all resources to brings all shias parties and groups on _table on equal basis to discuss nation probles and thier solution that should be presueed by all parties and gruops
salam
appreciate islamtimes role as its policies are in the way to uninte the shias other shia news websides and newspaper should islamtimes as they have shown practically that they sincere in thier goals and diffrence of thought should not be hardles to listen others ideas and sugessions
منتخب
ہماری پیشکش