0
Friday 19 Sep 2014 09:29
ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل کے اتحاد نے شیعہ سنی کو متحد اور تکفیریوں کو تنہا کردیا ہے

عوامی سیلاب سے حکومتی ایوان بوسیدہ ہو کر گرنے کے بالکل قریب ہیں، ناصر عباس شیرازی

امریکہ نے حکومت کے حق میں بیان دے کر ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے
عوامی سیلاب سے حکومتی ایوان بوسیدہ ہو کر گرنے کے بالکل قریب ہیں، ناصر عباس شیرازی
سید ناصر عباس شیرازی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ہیں۔ پیشہ کے اعتباز سے قانون دان ہیں۔ تنظیمی کیریئر کا آغا امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے پلیٹ فارم سے کیا۔ سرگودھا ڈویژن کے صدر رہے، بعدازاں مرکزی صدر بھی منتخب ہوئے اور طلباء حقوق کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ طلباء تنظیموں کے درمیان تعلقات کو فروغ دیا، تعلیمی اداروں میں مار دھاڑ کی سیاست کی حوصلہ شکنی کی اور طلباء تنظیموں کو ‘‘جیو اور جینے دو’’ کے اصول پر متحد کیا۔ مجلس وحدت مسلمین کی سیاسی کامیابیوں کا سہرا بھی ناصر شیرازی کے ہی سر ہے۔ ناصر شیرازی پاکستان عوامی تحریک کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن بھی ہیں جو اپوزیشن جرگے اور حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔ ‘‘اسلام ٹائمز’’ نے لاہور میں ناصر شیرازی کے ساتھ ایک نشست کی، جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر گفتگو کی گئی، جو ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین نے کن شرائط پر پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: مجلس وحدت مسلمین ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے، جو پاکستان میں مظلوموں کا دفاع کر رہی ہے، وہ مظلوم خواہ کسی بھی مکتب فکر یا کسی بھی مذہب سے ہو، ہمارے لئے وہ قابل احترام ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں۔ ہمارا سیاسی شعار مولائے متقیانؑ کی وصیت ہے، جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مظلوم کے حامی اور ظالم کے مخالف بن کر رہنا۔ مجلس وحدت مسلمین کی ساری سیاست اسی شعار کے گرد گھومتی ہے۔ ایم ڈبلیو ایم مظلومین پاکستان کی جماعت ہے اور ان کا درد اپنا درد سمجھتی ہے۔ ایم ڈبلیو ایم پاکستان میں مظلوموں کے اتحاد کے لئے کوشاں ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے دہشت گردی کا مقابلہ قومی وحدت کے ذریعے کیا ہے اور ہمارے لئے وطن عزیز کا دفاع ترجیح ہے، ملک میں ظالم کو لگام دیں گے تو ملک بھی محفوظ رہے گا، ورنہ ظالم تو ملک کے عوام کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی کھا جائے گا۔ ہم نے ابتدا سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحاد کرکے کی، کیونکہ سنی بھی شیعوں کی طرح ملک کا مظلوم طبقہ تھے۔ انہیں بھی دہشت گرد اپنا نشانہ بنا رہے تھے۔ درباروں، مزاروں پر دہشت گردانہ حملے اور بم دھماکے کرائے جا رہے تھے۔ ہم نے سنی اتحاد کونسل جو 30 سے زائد اہل سنت جماعتوں کا اتحاد ہے، کے ساتھ اتحاد کرکے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور تکفیریت اور دہشت گردوں کو شکست دی، آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دہشت گرد تنہا ہوچکے ہیں۔ یہ مجلس وحدت کی کوششوں سے ہی پاکستان میں پہلی بار فرقہ واریت نے دم توڑا ہے۔ دہشت گردوں کے سرپرست اعلٰی احمد لدھیانوی نے کہا تھا کہ میں پاکستان میں شیعوں کا ایسا تاثر بنا دوں گا کہ کوئی ان کے ساتھ ہاتھ تک نہیں ملائے گا، الحمدللہ آج مجلس وحدت نے اس کی بات اس کے منہ پر دے ماری اور شیعہ سنی اتحاد سے وہ خود ہی تنہا ہوگئے ہیں، اب کوئی ان کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاتا جبکہ پاکستان کے شیعہ ایک باوقار مقام پر ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے بعد ملک گیر تنظیم پاکستان عوامی تحریک تھی، جس نے دہشت گردی کے خلاف اور طالبان کیساتھ نام نہاد مذاکراتی ڈرامے کی کھل کر مخالفت کی اور سانحہ راولپنڈی پر تکفیریت کیخلاف مجلس وحدت مسلمین کا ساتھ دیا۔ گذشتہ ایک سال سے پاکستان عوامی تحریک کی قیادت مجلس وحدت مسلمین کے اجتماعات میں شرکت کرتی آ رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی سے قبل ہی ہمارے پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ رابطے مضبوط بنیادوں پر استوار ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ علامہ ناصر عباس جعفری نے بیرون ملک بھی ملاقاتیں کیں، جن میں وحدت کے اس سفر کو مشترکہ طور پر آگے بڑھانے پر اتفاق ہوگیا تھا۔ 17 جون کو ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور لبیک یازینب (ع) کے نعرے لگانے والی خواتین کے منہ میں گولیاں ماری گئیں تو ایم ڈبلیو ایم نے فیصلہ کیا کہ اپنے اہل سنت بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ایم ڈبلیو ایم نے اس موضوع پر کھل کر پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ اور نواز لیگ کی حکومت کیخلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی کے بعد ہمارے قائدین کی ان کے ساتھ پے درپے ملاقاتیں ہوئیں، جن میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنا اصلاحاتی ایجنڈا شیئر کیا۔ اس ایجنڈے کی مجلس وحدت مسلمین نے حمایت کی، اس دوران مسلم لیگ قاف اور پاکستان عوامی تحریک میں بھی پیمان ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور چوہدری شجاعت حسین مجلس وحدت مسلمین کے دفتر آئے۔ ایم ڈبلیو ایم نے اصلاحاتی ایجنڈے پر اتفاق کا اعلان کیا۔

مجلس وحدت نے اس ایجنڈے میں 5 اضافی نقاط پیش کئے، جن میں سے 4 نقاط پر چار جماعتی اتفاق ہوگیا، صرف ایک نکتہ پر مسلم لیگ قاف کے علاوہ 3 جماعتوں نے اتحاد کر لیا۔ ہمارا اتحاد ہوا کہ دہشت گردی کی حمایت کرنے والے حکمرانوں سے نجات حاصل کریں گے، ملک میں شیعہ اور سنی کو متحد کریں گے، مظلومین کا اتحاد بنائیں گے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ ان اہداف کے حصول کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لئے ایک کور کمیٹی قائم کر دی گئی، جس میں تمام جماعتوں کو برابر نمائندگی دی گئی۔ کور کمیٹی باہمی مشاورت سے تمام فیصلے کرتی ہے۔ ہمارا تمام جماعتوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے، جس کی تکمیل تک ہم سراپا احتجاج رہیں گے۔ ہمارے دھرنے جاری رہیں گے۔ ہم ان ظالم اور دہشت گرد حکمرانوں سے ملک کو نجات دلا کر ایک نیا پاکستان بنائیں گے، جس میں کوئی غریب بھوکا نہیں سوئے گا، جس میں کوئی دوسرے کو کافر نہیں کہہ سکے گا، جس میں امن اور شانتی کا دور دورہ ہوگا۔ جس میں امیر غریب سب برابر ہوں گے، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیئں گے اور یہ سب کچھ ممکن ہے۔ یہ ہمارے اہداف تھے جن پر ہم نے پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ اتحاد کیا اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل کر ان اہداف کے حصول کے لئے مصروف عمل ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کیساتھ اتحاد سے ملت جعفریہ کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: ملت جعفریہ پاکستان ایک قدرت مند قوم ہے، مجلس وحدت مسلمین نے ملت تشیع میں داخلی وحدت قائم کرکے اس کو سیاسی شناخت عطا کرکے اسے اور زیادہ مضبوط کر دیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم شیعہ قوم کی امنگوں کی ترجمان بن کر سامنے آئی ہے۔ مجلس وحدت ایک فرقہ کی جماعت تو ہے لیکن فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتی۔ ہم فرقہ واریت کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ لہذا ملت تشیع پاکستان کو مضبوط اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ تکفیریت کو بے نقاب کرنے کے لئے اس کے سامنے حقیقی اہل سنت کو لانا ضروری تھا۔ کچھ لوگ جو دہشت گرد ہیں، اہل سنت کا لبادہ اوڑھ کر انہیں بدنام کر رہے تھے، وہ اب بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ملک کے اہلسنت نے واضح کہا ٹیلی وژن چینلز پر کہا کہ اصل اہل سنت ہم ہیں، یہ جو اہلسنت والجماعت بنے پھرتے ہیں ان کا اہل سنت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

ہم نے شیعہ اور سنی کے مشترکہ مطالبات پیش کئے ہیں جو فرزندان پاکستان کے مطالبات ہیں، کسی فرقے کے مطالبات نہیں۔ ہم ملت تشیع کو قومی دھارے میں لائے ہیں، اور پاکستان میں فیصلہ سازی کے مراکز جہاں تکفیریوں کا غلبہ تھا، کو کم کرکے ملت کی آواز بلند کرنا ہمارا ہدف ہے۔ اس الائنس سے ملت تشیع مزید طاقتور ہوئی ہے۔ اس کی سیاسی شناخت ابھری ہے۔ اس نے تکفیریت کو تنہا کیا ہے۔ تمام قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں اس کو نمائندگی ملی ہے۔ ہم نے اپنے شہداء کے قاتلوں کی گرفتاری اور تکفیریوں کو باغی کے طور پر کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہمارا اتحاد ہماری ملت کی مضبوطی کا باعث بنا اور مجلس وحدت مسلمین کی قیادت جب لاکھوں کے اجتماع (دھرنے) میں داخل ہوتی ہے تو لوگ عبا اور عمامہ دیکھ کر دوڑے چلے آتے ہیں اور علماء کے ہاتھ چومتے ہیں، اور لبیک یاحسین (ع) کے شعار بلند ہوتے ہیں۔ پہلی بار شیعوں نے اپنی شناخت بنا کر اہل سنت کے دلوں میں جگہ بنا لی ہے۔ اب کوئی ظالم شیعہ اور سنی کے درمیان میں جدائی نہیں ڈال سکتا۔ اس عمل سے مکتب اہل مضبوط اور فیصلہ کن قوت کے طور پر ابھرا ہے۔ آئندہ ملک کی داخلہ، خارجہ اور اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ ملت کا مستقبل روشن ہے اور اتحاد کی شمع ہمیشہ روشن رہے گی۔

اسلام ٹائمز :کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری بھی اہل تشیع کو استعمال کرکے بعد میں اسے بے یارومددگار چھوڑ دیں گے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: مجلس وحدت مسلمین کی کامیابی یہی ہے کہ اس نے ملت تشیع کو مضبوط سیاسی جماعتوں کے شکنجے سے نکال کر اپنی الگ شناخت کے ساتھ کھڑا کیا ہے۔ موجودہ تحریک میں اس بات کی عکاسی بھی نظر آتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک مجلس وحدت کی طاقت سے استفادہ کرے گی، یہ ہماری خواہش ہے۔ لیکن ملت کی مضبوط قیادت، محکم پالیسی اور فعال کردار کی بدولت یہ امکان نہیں کہ ملت تشیع کو آئندہ کوئی اپنے مفادات کے لئے استعمال کرسکے گا۔ ایم ڈبلیو ایم نے ملت تشیع کے سیاسی استحصال کے سامنے ایک مضبوط بند باندھ دیا ہے اور موجودہ سیاسی تحریک اس کی عکاس ہے کہ دھرنے میں 50 فیصد تعداد اہل تشیع کی ہے اور میڈیا نے بھی اس کو رپورٹ کیا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ تو ہم ایک مضبوط جماعت ہیں، اب وہ صورت حال نہیں ہے کہ کوئی استعمال کرکے تنہا کر دے گا، ہماری قیادت بابصیرت ہے اور وہ جو بھی فیصلہ کرتی ہے اور کی حدودو قیود کا تعین کرکے کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلام آباد میں جاری دھرنوں کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: میرے خیال سے دھرنے اپنے بیش تر اہداف حاصل کرچکے ہیں۔ جیسے سیلاب زدہ علاقوں میں کچی عمارتیں مکمل تباہ ہو کر بہہ گئی ہیں، جو پکی عمارتیں اور مکانات تھے وہ بوسیدہ ہوچکے ہیں، ان کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ وہ اب رہنے کے قابل نہیں رہے۔ اسی طرح عوامی سیلاب سے حکومت میں بھی دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اب وہ مزید قائم نہیں رہے گی۔ نون لیگ کی حکومت کو اس عوامی سیاسی سیلاب نے کمزور اور کھوکھلا کر دیا ہے۔ حکمرانوں نے پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کو اپنے خاندان کی جاگیر بنا لیا ہے۔ حکمران اپنی حکومت بچانے کے لئے قانون شکنی کر رہے ہیں۔ ہمارے ان دھرنوں کا مقصد عوام میں شعور بیدار کرنا تھا۔ اس میں ہم کامیاب رہے۔ آئی جی لیول کے 3 افسروں کا استعفٰی دینا۔ لاٹھی چارج اور شیلنگ کے لئے پولیس کا حکومت سے تحریری حکم نامہ طلب کرنا، یہ سب شعور کی بیداری کی علامات ہیں۔ حکمران جس بھی سیلاب زدہ علاقے میں جاتے ہیں، وہاں گو نواز گو کے نعروں سے ان کا استقبال ہوتا ہے۔ جہازوں سے وی آئی پی شخصیات کو اتار دینا، ایم این اے کا تیز رفتاری پر چالان ہونا، یہ سب دھرنے کی کامیابی ہے۔ 14 ماہ میں پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں بلایا گیا تھا، دھرنوں کے باعث جوائنٹ سیشن اجلاس طلب کیا گیا اور پھر اس سیشن میں کرپٹ اور چور بے نقاب ہوگئے۔ یہ دھرنے کی کامیابی ہے۔ 

عوام نے دیکھ لیا کہ انہیں عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ سارے اپنی اپنی کرپشن چھپانے کے لئے ایک دوسرے چور کو سہارا دے رہے ہیں۔ دھرنوں نے ثابت کر دیا مظلوم باہر بیٹھے ہیں اور ظالم، چور، اچکے پارلیمنٹ کے اندر ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم اور وزیراعلٰی کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ایک مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ حکمرانوں کے کرتوت مسلسل ہر روز بے نقاب ہو رہے ہیں۔ ان کی دھاندلی بے نقاب ہوئی اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے جوائنٹ سیشن اجلاس طلب کیا، وہ بھی حکمرانوں کے گلے پڑ گیا اور انہیں پیپلز پارٹی والوں کی کھری کھری سننا پڑیں۔ دھرنوں نے نئی تاریخ رقم کی ہے اور اتنے طویل اور پرامن دھرنے، یہ نئی پہچان قوم کو دھرنوں کی وجہ سے ملی ہے اور بڑی اچیومنٹ یہ ہے کہ مظلوموں کا الائنس بن گیا ہے۔ یہ 80 فیصد سے زیادہ اچیومنٹ ہے۔ 20 فیصد اہداف حاصل نہ بھی کرسکے تو کوئی بات نہیں۔ عوام کی سوچ بدل چکی ہے۔ میری نگاہ میں حکمران ضعف کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ سسٹم اب مہینوں کا مہمان تو ہوسکتا ہے برسوں کا نہیں۔

اسلام ٹائمز: فوج پر مداخلت کا الزام لگتا ہے، آئی ایس پی آر ہر بار وضاحت پیش کرتا رہا، کیا فوج نے عمران خان کو دھوکہ نہیں دیا۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: پاکستان ملٹری بیوروکریسی میں بھی سعودی اور امریکی لابی مضبوط ہے۔ تاریخ میں پہلی بار 10 سال سعودی عرب کی گود میں پلنے والا پاکستان کا حکمران بنا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب حکومت کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ جس لابی کی ڈوریاں امریکہ اور سعودی عرب سے ہلتی ہوں، وہ کس طرح عمران خان کی حمایت کرے گی۔؟ یہ بات عقلی طور پر درست نہیں۔ لیکن یہ درست ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان فاصلے آچکے ہیں۔ جو دھرنوں کی وجہ سے مزید کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی مخالفت سے لے کر دہشت گردوں کی سرپرستی تک بہت سی باتیں کھل چکی ہیں۔ عمران کو ہم نے مرد میدان دیکھا ہے۔ فوج کے ایما پر آیا ہوتا تو شیلنگ اور لاٹھی چارج کے بعد وہ بھاگ جاتا، لیکن اس کا اعتماد عوام کے ساتھ ہے، عوام کی وجہ سے وہ بااعتماد ہے۔ حوصلہ میں ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا اعتماد بھی عوام ہیں۔ ہمارا سامنا تو پہلے دن سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہا ہے۔ فوجی مداخلت کا کوئی امکان ہوتا تو فوج کو بہت سے مواقعے ملے ہیں، وہ ٹیک اوور کر لیتی۔ ان مواقعوں پر فوج کا خاموش رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ عمران خان اور طاہرالقادری کی پشت پر نہیں۔ البتہ حکمرانوں کی عاقبت نہ اندیشی ملک کو ضرور اس مقام پر لے آئی ہے کہ فوج ٹیک اوور کر لے۔

اسلام ٹائمز: داعش جیسی بدنام زمانہ تنظیم کو لال مسجد والے خوش آمدید کہہ رہے ہیں، آپ اس پر کیا کہیں گے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: حالیہ تحریک نے دہشت گردوں اور ان کے سیاسی اور مذہبی سرپرستوں کو بے نقاب کر دیا ہے اور ان تمام کو ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ جس کی اب امریکہ بھی حمایت کر رہا ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران بھی دہشت گردوں کے سرپرست ہیں۔ انہوں نے شام میں دہشت گردوں کی حمایت کی اور شامی حکومت کیخلاف انہیں تعاون فراہم کیا، ان حکمرانوں نے عراق میں بھی منتخب حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور اس کے خلاف بھی محاذ آرائی میں معاون رہے۔ اب طالبان کو مشرق وسطٰی میں کارروائیوں کے لئے راستہ فراہم کیا جا رہا تھا۔ یہ دہشت گرد جو آج داعش کی حمایت کر رہے ہیں تو یہ اچھنبے کی بات نہیں۔ ہم نے مشترکہ میمورنڈم میں لکھا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے لئے ایک ہی قانون ہوگا۔ ان لوگوں کو دہشت گردوں کی سرپرستی کے جرم میں عبرت ناک سزائیں سنائیں گے۔ حالیہ تحریک نے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: انسانی حقوق کا ڈھول پیٹنے والی این جی اوز دھرنا مظاہرین پر ہونے والے مظالم پر کیوں خاموش ہیں۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: یہ پاکستان کا المیہ ہے۔ ہر کوئی اپنے مفاد کی بات کرتا ہے۔ 14 ماہ بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن ہوا، کسی نے بھی مظلوموں کی بات نہیں کی۔ این جی اوز کی خاموشی مجرمانہ غفلت ہے۔ اس طرز عمل نے نام نہاد این جی اوز کو بے نقاب کیا ہے، جو امریکہ اور یورپی ممالک کی کاسہ لیس ہیں۔ یہ این جی اوز پاکستان کیخلاف ہی سرگرم ہیں اور ملک کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ حقیقی مظلوم متحد ہو کر سامنے آئے ہیں اور آئندہ پاکستان کے مستقبل کا تعین مظلوم ہی کریں گے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ نے نواز حکومت کی کھل کر حمایت کی، کیا پاکستان میں حکومتوں کے قیام اور انہدام میں امریکہ کا کوئی کردار ہے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: امریکہ عالمی استعمار ہے، جیسا کہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ عراق میں وہی کچھ چاہتا ہے جو اسے پاکستان میں حاصل ہے۔ امریکہ جب چاہتا ہے فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ جس کو مرضی چاہے اٹھا کر لے جائے، جس کو مرضی چاہے قتل کرا دے، جس کو مرضی چاہے ریمنڈ ڈیوس کی طرح چھڑا کر لے جائے۔ حکمرانوں کی اکثریت بھی ان کی کاسہ لیس ہے۔ حالیہ سیاسی بحران میں امریکی سفیر، امریکی دفتر خارجہ نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ ہم پاکستان کو آزاد، خود مختار اور باوقار ملک بنائیں گے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم امریکی غلامی سے نکل کر عوامی مفاد میں فیصلے کریں گے۔ پاکستان سے امریکی نفوذ کے خاتمے سے ہی عوام ترقی کرسکتے ہیں اور ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ امریکہ سے جان چھوٹ گئی تو قرضوں کے عذاب سے بھی نجات مل جائے گی اور معیشت بھی مضبوط ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز: موجودہ سیاسی بحران کے باعث اگر خدانخواستہ فوج ٹیک اوور کر لیتی ہے تو کیا مجلس وحدت مسلمین فوج کو خوش آمدید کہے گی۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: مجلس وحدت مسلمین پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ ہم ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے مخالف ہیں۔ تمام اداروں کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک مرتبہ پھر اب گیند نون لیگی حکومت کے کورٹ میں ہے۔ حکومت اگر ایف آئی آر کی درست تفتیش نہیں ہونے دے گی۔ جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائے گی، جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات بھی چھپا لے گی، الیکشن کمیشن کو بھی اپنے دباؤ میں رکھے گی تو ہوسکتا ہے، اس صورت حال میں فوج آ ہی جائے اور اگر فوج نے ٹیک اوور کر لیا تو اس کی ذمہ دار خود حکومت ہوگی اور حکومت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی بھی اس کی ذمہ دار ہوگی، جو یہ کہہ رہی ہے کہ حکمران دھاندلی سے آئے ہیں، کرپٹ بھی ہیں، چور بھی ہیں، لیکن ہم پھر بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں تو ظاہر ہے پھر کچھ نہ کچھ ہل چل کی توقع رکھنی چاہئے۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی تو کہتی ہے ہم جمہوریت کے لئے حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: کون سی جمہوریت؟ یہ جمہوریت ہے جہاں امیر کے لئے الگ قانون غریب کے لئے الگ، ایک غریب کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہو تو پولیس اس کا پورا خاندان اٹھا لیتی ہے، لیکن ادھر ماڈل ٹاؤن میں 14 بے گناہ قتل ہوگئے لیکن ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی تھی، عدالتی حکم پر اگر ایف آئی آر ہو بھی گئی ہے تو اب ملزموں سے تفتیش نہیں ہو رہی تو یہ کیسی جمہوریت ہے۔ غریب کی بیٹی کی سرعام عزت لوٹ لی جاتی ہے کوئی مجرموں کو پوچھتا تک نہیں۔ دہشت گردی سے مسجدوں، امام بارگاہوں، درباروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، کوئی گرفتار نہیں ہوتا۔ ظالم طاقتور اور مظلوم کمزور ہو، یہ جمہوریت ہے؟ لعنت ایسی جمہوریت پر جو جمہور کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے سکتی، میرے خیال میں پاکستان میں مل جل کر، باری باری لوٹنے اور بینک بیلنس بنانے کا نام جمہوریت ہے، جو عوام کو وارا نہیں کھاتی، اس لئے ہم اس جمہوریت کو دفن کرکے نیا پاکستان بنائیں گے، جہاں ہر شخص کو برابر حقوق ملیں گے، جہاں امیر غریب کے لئے قانون ایک ہوگا۔

اسلام ٹائمز: بعض حلقے کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف نے خود مودی کو کہہ کر دریاؤں میں پانی چھڑوایا ہے، تاکہ سیلاب سے دھرنوں سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے۔؟

سید ناصر عباس شیرازی: مجموعی طور پر جب معلومات نہ ہوں میں بات نہیں کرتا، لیکن سیلاب کے حوالے سے دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اگر بھارت نے بتائے بغیر پانی چھوڑا ہے تو اس کی سفیر کی دفتر خارجہ طلبی کیوں نہیں کی گئی؟ اور اگر بھارت نے بروقت اطلاع کر دی تھی تو پھر حکومت نے پیشگی انتظامات کیوں نہیں کئے؟ یہ حکومت کی غفلت ہے۔ یہ حکمران تو بھارت کے سامنے بچھے چلے جا رہے ہیں۔ امن کی آشا سے لے کر پسندیدہ ملک کا درجہ دینے تک، آموں کی پیٹیوں سے لے کر ساڑھیاں بھجوانے تک، ہمارے تو حکمرانوں کے طور ہی نرالے ہیں۔ ان کی بھارت نوازی ثابت شدہ ہے۔ یہ بھارت میں اپنی صنعتیں لگا رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ باری کے چکر میں جس طرح پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون کی حمایت کر رہی ہے، اسی طرح حکومت بچانے کے لئے بھارت سے بھی مدد لی گئی ہو اور ہمارے حکمرانوں کے کہنے پر ہی سیلاب چھوڑا گیا ہو، بہرحال سکیورٹی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس پہلو پر تحقیقات کریں اور اگر ثابت ہوجاتا ہے کہ نواز شریف کے کہنے پر ہی بھارت نے پانی چھوڑا تھا تو پھر حکمرانوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر بیسوں زندگیوں کے ضیاع، ہزاروں ایکڑ فصلوں کی تباہی اور لاکھوں مکانوں کی مسماری کا حساب ان سے لیا جائے اور ان کی جائیدادیں نیلام کرکے وہ نقصان پورا کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 410444
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش