1
0
Sunday 24 Jul 2016 03:15

سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ گلگت بلتستان کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں، یوسف حسین آبادی

سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ گلگت بلتستان کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں، یوسف حسین آبادی
محمد یوسف حسین آبادی کا تعلق اسکردو حسین آباد سے ہے۔ انکا شمار بلتستان کے مایہ ناز دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اپریل 1948ء کو حسین آباد میں ہی پیدا ہوئے۔ پرائمری سکول حسین آباد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہائی سکول اسکردو سے 1966ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ گریجویشن کے بعد 1978ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1984ء میں انکی پہلی تصنیف ’’بلتستان پر ایک نظر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اسکے بعد بلتی زبان کی تاریخ اور رسم الخط پر ایک اور کتاب لکھی۔ محمد یوسف حسین آبادی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1995ء میں پہلی مرتبہ قرآن مجید کا بلتی میں ترجمہ کرنے کی سعادت بھی انہوں نے حاصل کی۔ 2003ء میں ’’بلتستان کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جسکی دو اشاعت ہوچکی ہے۔ ان کا شمار گلگت بلتستان کے معروف ترین تاریخ دانوں اور مفکرین میں ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے گلگت بلتستان کی تاریخ اور موجودہ صورتحال پر ان سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے معزز قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلتستان کا جغرافیہ اور تبت کیساتھ اسکا کیا تعلق رہا ہے۔؟
یوسف حسین آبادی:
بلتی کا لفظ بنیادی طور پر جغرافیہ کا نام ہے، موجودہ اسکردو وادی بلتی کے نام سے معروف تھی اور یہ خطہ مرکز تھا، اس لئے آہستہ آہستہ پورے خطے کا نام بلتستان پڑ گیا۔ 1847ء تک بلتی جغرافیائی نام کے طور پر ملتے ہیں۔ یہاں موجود اکیانوے فی صد سے زیادہ لوگ تبتی نسل کے ہیں اور تبتی زبان بولتے ہیں۔ باقی آبادی کا تعلق مختلف نسلوں سے ہے۔ تبتی نسل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خطہ سوا سو سال تبت کے ساتھ سیاسی وحدت میں بھی رہا ہے، اسکے بعد تعلق ختم ہوا ہے۔ تبتی زبان بولی جانے والے علاقوں میں بلتستان واحد خطہ ہے جہاں سو فی صد آبادی مسلمان ہے۔ ابھی کافی لسانی فاصلہ آچکا ہے۔ میں نے مشرقی تبت کے ایک پروفیسر کے ساتھ پورا دن گزار تو الفاظ کی حد تک ایک دوسرے تک مدعا پہنچا سکے۔ صرف و نحو میں بھی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اس تبتی اور بلتی میں ساٹھ فی صد فرق پڑ چکا ہے۔

اسلام ٹائمز: بلتستان میں اسلام کی آمد کے بارے میں کوئی تحریری مواد اسوقت موجود نہیں، آپ کیا کہتے ہیں کہ اس خطے کے عوام کن کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے اور کتنا عرصہ لگا۔؟
یوسف حسین آبادی:
آپ نے صحیح فرمایا کہ بلتستان میں اسلام کی آمد کے حوالے سے کوئی تحریری مواد موجودہ نہیں ہے۔ اس کے لئے ہم ایک تو لوک روایتوں کو دیکھ سکتے ہیں اور دوسرا نواحی علاقوں کی تاریخ سے بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ بلتستان اگرچہ دوسرے علاقوں سے الگ تھلگ ہونے کے باجود دنیا سے مربوط تھا۔ 1381ء سے 1387ء کے درمیان امیر کبیر سید علی ہمدانی کشمیر اور یہاں تشریف لائے ہیں۔ میرے سامنے نجم الدین ثاقب کی ایک نظم بھی ہے، جس کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ’’در اوراق تاریخِ اہل شگر نوشتہ بدیدم‘‘ یعنی باقاعدہ انہوں نے تحریری دستاویز دیکھی ہے یہاں کی تاریخ کی۔ سید علی ہمدانی کے ہاتھوں پورا خطہ مشرف بہ اسلام نہیں ہوا۔ بلتستان میں تین ریاستیں تھیں۔ شگر، خپلو اور اسکردو کی ریاستیں تھیں، روندو اور کھرمنگ بلتستان کا حصہ رہا ہے۔ یہاں مقپون کی حکومت تھی اور وہ یہاں تشریف نہیں لائے۔ پہلے خپلو میں 1381ء میں تشریف لائے اور تبلیغ اسلام کی اور تیں سال بعد دوبارہ آئے اور یارقند کی طرف تشریف لے گئے، جو اس وقت چین میں ہے۔ یارقند سے کے ٹو پاس سے شگر آئے اور وہاں تبلیغ کی۔ اس نظم میں لکھا گیا ہے کہ ’’ز برالدو تا چھوربٹ رسید آں ولی‘‘ یعنی دو ریاستوں میں مکمل طور پر امیر کبیر سید علی ہمدانی نے اسلام پھیلایا ہے، جبکہ وہ اسکردو نہیں آئے۔ ہمیں تحریری طور پر بھی یہ چیز ملتی ہے کہ اسکردو میں شمس الدین عراقی نے اسلام پھیلایا ہے۔

علامہ شوشتری کی کتاب ’’مجالس المومنین‘‘ میں بھی اس چیز کا ذکر ملتا ہے کہ یہ علاقہ شمس الدین عراقی کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوا، وہ یہاں پانچ سال رہے اور واپس چلے گئے۔ یہاں پر اسلام راتوں رات نہیں پھیلا بلکہ ایک طویل عرصہ لگا۔ ہمیں یہ تاریخ بھی ملتی ہے کہ اورنگزیب عالم گیر 1663ء جب کشمیر آئے تو انکے ساتھ ایک فرانسیسی برنیئر بھی موجود تھا۔ شہنشاہ ہند سری نگر آئے تو ارد گرد کے بادشاہان سلام کے لئے انکے پاس گئے۔ یہاں اس وقت کے تبت خورد سے شاہ مراد انکے دربار میں حاضر ہوئے۔ جب فرانسیسی ڈاکٹر نے دیکھا کہ چھوٹی سی سلطنت سے ایک بادشاہ آئے ہیں تو اس نے اپنے نواب سے خواہش کا اظہار کیا کہ انکے ساتھ ملاقات ہو، نواب کا نام دانشمند خان تھا۔ انہوں نے رات کو کھانے پر دونوں کو بلایا۔ وہاں ملاقات کی ساری تفصیلات کا برنیئر نے اپنے سفر نامے میں ذکر کیا ہے۔ برنیئر نے بہت سارے سوالات کئے ہیں، اس میں متعدد ایسے سوالات اور اہم سوالات ہیں کہ جس سے یہاں کی تاریخ کا رخ متعین ہوتا ہے۔ اول تو وہ اپنی سرحد کے بارے میں بتاتا ہے کہ اسکی سلطنت لداخ تک ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ پہلے یہاں غیر مسلم تھے اور اب بھاری اکثریت مسلمان ہوچکی ہیں اور مجھ سمیت باقی سب کا تعلق شیعہ مسلک ہے، جو ایران کا مذہب ہے۔ یہ ان کے الفاظ تھے۔ اس وقت نوربخشی بھی تھے لیکن الگ فرقہ کے طور پر نہیں تھے اور ہوتے تو ضرور ذکر کرتے۔ 1846ء میں بھی یہاں بدھسٹ موجود تھے۔

اسلام ٹائمز: تاریخی دستاویزات کی عدم دستیابی اور تعلیمی اداروں کے نہ ہونے کے سبب کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزادی سے قبل بلتستان میں علمی مراکز بالکل نہیں تھے۔؟
یوسف حسین آبادی:
یہ ایک چھوٹی سی سلطنت تھی، جہاں پر مطلق العنان بادشاہوں کی حکومت رہی ہے اور وہ آپس کی جنگوں میں مصروف رہے ہیں۔ دوسری دنیا کے ساتھ مقایسہ کریں تو انتہائی مایوسی ہوگی کہ ہزار سال قبل الازہر یونیورسٹی بنائی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سات جگہوں کے حکمران تھے، انکی فیملیز کے لئے پڑھنے کا اہتمام تھا، جبکہ باقیوں کے لئے کوئی تعلیم کا انتظام نہیں تھا۔ البتہ شاہی خاندان کے لئے بہترین تعلیم کا نظام تھا جو کہ انکی شعر و شاعری سے اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن عوام کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ صحت کے لئے بھی مقامی حکیموں کے علاوہ کچھ نہیں تھا، جنکی حالت ناگفتہ بہ تھی۔

اسلام ٹائمز: تحریک جنگ آزادی کے عوامل کیا تھے، محرومیوں کے باجود عوام کا جنگ لڑ کر آزادی حاصل کرنا کیا کسی معجزہ سے کم نہیں۔؟
یوسف حسین آبادی:
میں نے اپنی تصنیف میں تمام عوامل کو تفصیل سے لکھا ہے، جس کو پڑھا جائے تو زیادہ آسانی ہوگی۔ کشمیر کی ریاست انڈیا کی ساڑھے پانچ سو ریاستوں میں سے سب سے بڑی ریاست تھی۔ تقسیم ہند میں یہ بات طے تھی کہ انڈیا کی ریاستیں اپنی مرضی سے کہیں بھی شامل ہوسکتی تھیں، پھر جس کے لئے جو موزوں تھا، اس نے وہ اعلان کر دیا۔ دو ریاستیں ایسی تھیں جن میں ایک کے حکمران اور دوسرے کے عوام غیر مسلم تھے۔ حیدر آباد کے حکمران مسلمان اور عوام ہندو تھی، جبکہ یہاں پر عوام مسلمان جبکہ حکمران غیر مسلم تھے۔ یہاں لوگوں کی خواہش تھی کہ پاکستان میں شامل ہوجائیں، کیونکہ قائد اعظم کی تحریک کی خبریں پہنچ چکی تھیں۔ یہاں کوئی ایک ایسا شخص نہیں تھا جو پاکستان کے لئے نہ تڑپتا ہو۔ اس وقت گلگت بلتستان ایک ریاست کا حصہ تھا۔ اس میں صوبہ کشمیر، جموں، لداخ، بلتستان اور گلگت شامل تھا۔ یہ چار انتظامی یونٹس تھے۔ گلگت کے بھی دو حصے تھے، دریائے سندھ کے دائیں طرف کا حصہ بشمول چلاس کے اسکو روس کی توسیع پسند سے روکنے کے لئے انگریزوں نے راجہ کشمیر سے لیز پر لیا تھا، وہاں ایک ایجنسی قائم تھی، جبکہ دوسرا ضلع گلگت تھا۔ اس پس منظر میں جنگ آزادی کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اکتوبر1947ء تک مہاراجہ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ کس کے ساتھ شامل ہونا ہے۔ اس وقت ہماری لابی کشمیر میں کمزور تھی، جو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتی تھی۔ لوگ ویسے ہی تڑپ رہے تھے، لیکن کشمیر میں کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے برعکس کشمیر میں بڑے پیمانے پر انڈیا کے ساتھ شامل کرانے کے لئے کام ہو رہا تھا۔ ایک تو کانگریس کی خواہش تھی اور انگریزوں کی ہمدردیاں بھی انکے ساتھ تھیں۔ چنانچہ کشمیر میں انڈیا کو ایکسس دینے کے لئے پٹھان کوٹ کا علاقہ خوامخواہ انڈیا کو دے دیا اور پھر ابوالکلام آزاد جسیے قد آور شیخ عبداللہ کی مالی معاونت کر رہے تھے، میں ثابت کرسکتا ہوں کہ یہ تاریخی طور پر۔ جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامی اور خاکسار تحریک سب کشمیر کو انڈیا کیساتھ شامل کرانے کے لئے لگے ہوئے تھے۔ ان حالات میں گلگت ایجنسی کی الگ بات تھی۔ جب انگریزوں نے برصغیر کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو گلگت ایجنسی کو دوبارہ راجہ کشمیر کو واپس کر دیا۔ یکم اگست کو راجہ کشمیر کے بریگیڈیئر گنسارا سنگھ نے گورنر کی حیثیت سے چارج سنبھالا تھا۔ اس وقت خوش قسمتی یہ تھی کہ انگریزوں نے گلگت میں ایک فورس بنا رکھی تھی۔ 582 نفری اور چھوٹے اسلحہ کی انکو تربیت تھی، ان میں نگر کی دو کمپنیاں، ہنزہ کی دو، گلگت، یاسین، گوپس، شکومن اور پونیال کی ایک کمپنی تھی۔ وہ مسلح فورس تھی۔

انگریزوں نے اس سمیت واپس کیا تو گلگت میں ایک فورس موجود تھی، جبکہ اسکردو میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ مہاراجہ کشمیر کے لئے بھی یہ فورس درد سر تھی۔ اکتوبر تک فیصلہ نہیں کیا مہاراجہ نے کہ کشمیر کو کس کے ساتھ الحاق کرنا ہے۔ فوج کے درمیان دو پوائنٹس پر تشویش تھی۔ جیسا کہ عرض کیا کہ گلگت الگ ایجنسی تھی، اسکے علاوہ بونجی میں مہاراجہ ریاست کی اپنی فوج تھی جسکی چھاونی بونجی میں تھی۔ گلگت اسکاوٹس کو تشویش تھی کہ اب ہمارا کیا ہوگا، کیونکہ پہلے سے فوج بھی موجود تھی۔ گلگت اسکاوٹس کو ختم کر دیا جائے گا، مہاراجہ کی فوج میں ضم کر دیا جائے گا یا اسکاوٹس کے طور پر رہنے دیا جائے گا۔ اگر ضم کیا جائے تو گلگت اسکاوٹس کے وی سی اوز کی فوج کے جی سی اوز کے مقابلے میں کیا پوزیشن ہوگی۔ انہوں نے ایک میٹنگ کی اور ایک وفد بریگیڈیئر سے ملا اور اس سے مستقبل کے بارے میں پوچھا، تو گورنر گنسارا سنگھ نے سیاسی جواب دیا کہ اس پر جنرل اسکاوٹ آنے والا ہے تو آپ انسے پوچھیں۔ جنرل اسکاوٹ پہنچے تو انہوں نے کہا کہ آپ کی پوزیشن کم تر ہوگی کیونکہ اسکاوٹس اور آرمی میں فرق ہے۔ اس جواب کے ساتھ انکے خیالات میں تبدیلی آگئی۔ پہلے ہی پاکستان کی تحریک کے لئے ذہن بنا ہوا تھا اور اسی لائن پر کوشش کی گئی۔ اسی اثنا میں مہاراجہ نے 27 اکتوبر کو کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر دیا تو 31 اکتوبر کی رات کو انقلاب برپا ہوگیا اور یکم نومبر کو گورنر نے ہتھیار ڈال دیئے۔ آزادی میں گلگت اسکاوٹس کا بنیادی کردار ہے۔ وہاں انقلاب لانے کے بعد بحال کرنا مشکل تھا۔ یہاں سے راجہ روندو اور زعماء نے دعوت دی اور ایک سال کے قریب جنگ رہتی ہے اور اسکے بعد آزاد کرایا۔

اسلام ٹائمز: کیا اب گلگت بلتستان کا کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے کوئی تعلق ہے، جبکہ موجودہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت بضد ہے کہ جی بی کشمیر کا حصہ ہے۔؟
یوسف حسین آبادی:
اب تو کوئی چیز چھپی نہیں رہی۔ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں واضح کر دوں کہ اس خطے کا کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ کشمیر پر 1752ء سے 1819ء تک افغانوں کی حکومت رہی ہے اور اگر افغانستان کہے کہ ہمارا حصہ ہے تو کیا یہ درست ہوگا۔ کسی علاقے پر زبردستی قبضہ کر لیا جائے تو وہ علاقہ قبضہ ختم ہونے کے اسکا نہیں رہتا۔ برطانیہ نے یہاں حکومت کی تو کیا آج پاکستان برطانیہ کا حصہ ہے۔ جسے آپ کشمیر کہتے ہیں اسے میں جموں کشمیر و تبتہاء کہتا ہوں۔ موجودہ کشمیر کے شامل ہونے سے پہلے ایک ریاست تھی، جسکا نام جموں و تبتہاء تھا۔ جموں ایک ریاست تھی، جس نے موجودہ کشمیر کو خریدا ہے 75 لاکھ روپے میں، اس میں آپ اور میرے اجداد نے پیسے دیئے ہیں۔ یعنی موجودہ کشمیر خریدنے کے لئے گلاب سنگھ جو کہ ظالم حاکم تھے، نے مہم چلائی۔ اس دوران انہوں نے لوگوں کی زندہ کھال اتار دی تھی، جو پیسے دینے میں گستاخی کرتے تھے۔ یوں جموں، لداخ، بلتستان وغیرہ سے 75 لاکھ روپے جمع کئے گئے اور کشمیر کو خرید لیا گیا۔ آپ فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں اس کشمیر کو ہم نے خریدا ہے، جبکہ موجودہ کشمیر والوں کو شرم آنی چاہیے، جو یہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے۔ جموں کے راجہ نے یہاں حکومت کی ایک سو آٹھ سال، جب ہمیں موقع ملا تو بزور بازو آزادی حاصل کی ہے۔

سردار قیوم نے اپنی کتاب ’’مقدمہ کشمیر‘‘ میں لکھا ہے کہ قائد اعظم کی آنکھیں بند ہوگئیں تو پاکستان میں بیوروکریسی کا راج ہوگیا اور بیوروکریسی میں دو گروپ تھے۔ ایک کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ الجھنا مناسب نہیں ہے اور کشمیر کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، انہیں تسلیم کر لینا چاہیے۔ باقی جنکا چلتا تھا پہلے والے گروپ کو شکست خوردہ سمجھتے تھے۔ نااہلوں کی زیادہ چلتی تھی جبکہ جو معاملات کو صحیح سمجھتے تھے وہ کمزور تھے۔ آپ اس وقت کشمیر کو لے سکتے تھے، جب کشمیر خالی تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ شیخ عبداللہ کشمیر کو موجودہ مصیبت میں ڈالنے کا مرکزی کردار ہے۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات ’’آتش چنار‘‘ میں آخر ایک موقع پر حقیقت لکھ ہی دی ہے۔ ایک مقام پر اس کے اندر کا مسلمان جاگ اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر بانڈی پور سے سری نگر جو کہ چھ گھنٹے کا فاصلہ بنتا ہے، اگر یہ ڈاکو اور لٹیرے چھ دن نہ لگاتے تو آج یہ صورت حال نہیں ہوتی۔ کشمیر کا حل موجودہ سیز فائر لائن کو سرحد تسلیم کرنے میں ہے، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں نکلنا ہے۔

آپ کہتے ہیں کہ کشمیر متنازعہ ہے، جبکہ انڈیا اسے اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ ستر سال گزرنے کو ہیں، آپ نے تین جنگیں لڑیں اور ایک پکٹ تک نہیں لی انڈیا سے۔ ان ستر سالوں میں آپ سفارتی محاذ پر اتنے نااہل ثابت ہوئے کہ کوئی بھی ملک آپ کے ساتھ نہیں کھڑا۔ جن عرب ملکوں پر آپ کو ناز ہے، ان میں سے کسی ایک نے کبھی نہیں کہا کہ کشمیر آپ کا حصہ ہے، کیونکہ ان عرب حاکموں کو انڈیا کے فحاشی کے اڈوں میں جانا ہے۔ یعنی دو محاذوں پر آپ شکست خوردہ ہیں۔ ہم نے کشمیر کی وجہ سے بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ میرا واضح نظریہ ہے کہ گلگت بلتستان کا کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ تکلیف میں ہیں کشمیر کے نام پر، جبکہ کشمیر والے مزے میں ہیں۔ آپ بتائیں کہ آزاد کشمیر میں کبھی مارشل لاء لگا؟ کبھی بیوروکریسی کی حکومت رہی؟ ان پر ایف سی آر نافذ رہا؟ اگر پاکستان سمجھتا ہے کہ ہم کشمیر کا حصہ ہیں تو ہمیں بھی وہی سہولیات ملتیں جو انکو ہیں۔ ہم نے جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی، اسکے باوجود ہم پر ایف سی آر نافذ کیا گیا، ہمیں ہمارے حقوق سے محروم کر دیا گیا، عدالتی دروازے بند کئے گئے اور آج بھی یہ مسئلہ حل کرنے کا وقت آئے تو عصبیات آڑے آجاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم پاکستان اور وزیر امور کشمیر کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے، آپ اس بیان پر کیا کہیں گے۔؟
یوسف حسین آبادی:
اگر وزیراعظم پاکستان کہتا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور متنازعہ ہے تو ان پہ توہین عدالت کا مقدمہ چل سکتا ہے۔ سپریم آف پاکستان کا فیصلہ ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے۔ رہی بات برجیس طاہر کی تو انکی کیا حیثیت ہے، جو ہمارے مستقبل کے ساتھ کھیلیں۔ اس کی حیثیت نواز شریف کے ایک چمچے سے بڑھ کر نہیں۔ انہیں کس نے حق دیا کہ وہ گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ کرے۔ ہم ان کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعلٰی حفیظ الرحمان گلگت بلتستان اور کشمیر کے مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک مکتب جی بی کو کشمیر کا حصہ سجمھتا ہے اور الحاق چاہتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ اسے تسلیم نہیں کرتا، آپ اس سلسلے میں کیا کہنا چاہیں گے۔؟
یوسف حسین آبادی:
میں فرقہ واریت کو ایک لعنت سے زیادہ نہیں سمجھتا۔ مجھے ان بیانات پر بھی بڑا دکھ ہے، جو ہمارے ساجد نقوی صاحب اور مذہبی جماعتیں دے رہی ہیں۔ حفیظ سے کیا شکایت کریں، ہمارے اپنے احباب کی بیوقوفیاں تو کم نہیں۔ پچھلے انتخابات میں بھی نعرہ لگایا گیا کہ ہماری منزل پانچواں صوبہ۔ اس طرح کے بیوقوفانہ بیانات کی وجہ سے اس مسئلے کو فرقہ واریت کا رنگ ملا ہے۔ جب آزادی کے لئے جنگ لڑ رہے تھے تو اس وقت شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں تھا۔ گلگت میں آزادی کے لئے لڑنے والوں میں سارے شیعہ تھے۔ گلگت اسکاوٹس میں اہل سنت کی نمائندگی آٹے میں نمک سے کم تھی، اس وقت سب مل کر مسلمان کی حیثیت سے جنگ لڑے ہیں۔ گلگت میں فرقہ واریت سے نکل کر سوچنے لگیں تو سارے مسائل ہو جائیں گے۔ لیکن افسوس کے ساتھ ایسا نہیں ہو رہا۔

اسلام ٹائمز: کرگل لداخ روڈ کی واگزاری میں کونسا قانون اور کونسی چیز رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔؟
یوسف حسین آبادی:
تعصبات کی وجہ سے کرگل لداخ روڈ بند ہے۔ اس ملک کے لئے سوچنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ منقسم خاندان یا آزاد کشمیر میں ہے یا بلتستان میں، جبکہ گلگت میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ ہماری آواز میں طاقت اس وقت آئے گی، جب گلگت کے بھائی ساتھ دیں۔ لیکن گلگت کے بھائیوں کو کوئی مسئلہ نہیں تو کیوں بولیں۔ آزاد کشمیر کے تین راستے کھلے ہوئے ہیں انڈیا کے لئے۔ یہاں صرف اس لئے بند ہے کہ کہیں یہاں سیاحت ترقی نہ کرے اور یہ سب یہاں پر موجود ایجنسیوں کے تعصبات کا نتیجہ ہے، جو غلط رپورٹس کے ذریعے ریاست کو گمراہ کر رہی ہیں۔ میرے خیال میں اس راستے نے کھلنا ہے، جب تک ممکن ہو مخالف عناصر اسے بند رکھیں گے۔ یہ مسئلہ عالمی عدالت انصاف تک جا سکتا ہے اور کسی صورت حل ہونا ہے۔
خبر کا کوڈ : 554990
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

adnan ali
Pakistan
informative and entrusting interview.....
منتخب
ہماری پیشکش