0
Friday 13 Jul 2018 18:19
بلوچستان سے پسماندگی کے خاتمے کیلئے وسائل سے زیادہ نیک نیتی کی ضرورت ہے

نواز شریف کرپشن کیس کے آئندہ انتخابات پر مثبت اثرات مرتب ہونگے، ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی

نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کی یرغمال بنی ہوئی تھی
نواز شریف کرپشن کیس کے آئندہ انتخابات پر مثبت اثرات مرتب ہونگے، ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی بلوچستان عوامی پارٹی کی رہنماء و سابق مشیر خزانہ بلوچستان ہیں۔ وہ سابق سینیٹر و رکن صوبائی اسمبلی سعید احمد ہاشمی کی زوجہ ہیں۔ ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد 1976ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی اور بعدازاں آرمی میں بطور کیپٹن لیڈی ڈاکٹر اپنی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ پہلی مرتبہ 2002ء میں خواتین کی مخصوص نشست وارڈ 53 سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئی۔ اسکے بعد 2008ء میں بھی اسی حلقہ سے پاکستان مسلم لیگ (ق) کی ٹکٹ سے خواتین نشست پر رکن اسمبلی منتخب ہوئی۔ ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی آج کل بلوچستان عوامی پارٹی کی سرگرم کارکن ہیں۔ کرپشن کیس میں نواز شریف کی گرفتاری، سابقہ بلوچستان حکومت کی کارکردگی اور بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل سے متعلق ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: احتساب عدالت کیجانب سے میاں نواز شریف کیخلاف جو فیصلہ آیا ہے، اسکے بلوچستان میں ہونیوالے انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
احتساب عدالت کیجانب سے نواز شریف کیخلاف جو فیصلہ آیا ہے، وہ قانونی کی بالادستی اور ملک کو مضبوط کرنے کی جانب ایک اہم پیشرفت ہے۔ ماضی میں نواز شریف میرے لیڈر بھی رہ چکے ہیں، لیکن اگر انہوں نے کرپشن کی ہے، تو اسکا حساب انہیں ہر صورت دینا ہوگا۔ صوبہ بلوچستان میں اس فیصلے کے اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں جو بھی سیاستدان یا سرکاری شخص بدعنوانی میں ملوث پایا گیا، اسے اسے طرح نشان عبرت بنا دینا چاہیئے۔ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کا بلوچستان میں کوئی اثر و رسوخ نظر نہیں آئے گا۔ اس فیصلے پر میں نیب کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتی ہو، جس نے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، ملک کی مضبوطی کیلئے اہم فیصلے کئے۔ اگر آئندہ خدانخواستہ میں بھی کرپشن میں ملوث پائی گئی، تو پاکستانی قوم میرا احتساب کرسکتی ہے، یعنی پاکستان میں‌ رہنے والے ہر شخص کو کرپشن کرنے کی سزاء بھگتنا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں پچھلی صوبائی حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہی رہی ہے۔ لہذا اس تناظر میں اگر میاں نواز شریف کوئی قدم اٹھاتے ہیں، تو اسکے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
مسلم لیگ (ن) کو بلوچستان میں‌ چھبیس اراکین اسمبلی کیساتھ اکثریت ملی، لیکن اس اکثریت کو نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ نے یرغمال بنایا ہوا تھا۔ نواز شریف اپنے دور اقتدار میں پارٹی لیڈر ہوتے ہوئے بھی بلوچستان کو ایک فیڈریٹنگ یونٹ کے طور پر چلانے میں ناکام رہی۔ یہاں پر قوم پرست جماعتوں کے رحم و کرم پر صوبے کو چھوڑ دیا گیا تھا۔

اسلام ٹائمز: خراب حکمرانی کی ذمہ دار جتنی پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی تھی، اتنے ہی مسلم لیگ (ن) کے اپنے اراکین بھی تو تھے، لیکن آج مسلم لیگ (ن) کے وہی رہنماء بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گی۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
بلوچستان عوامی پارٹی کو جن وجوہات کے تحت بنایا گیا، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ ستر سالوں‌ سے بلوچستان کو وفاق کے تناظر میں چلایا جا رہا ہے۔ مرکز میں جو بھی حکومت آتی ہے، وہ بلوچستان کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانا چاہتی ہے۔ بلوچستان کی اپنی قبائلی اور سیاسی مشکلات ہیں اور اسے چلانے کیلئے ان عوامل کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی وجہ سے بلوچستان ستر سال گزرنے کے باوجود آج بھی محرومیوں کا شکار ہے۔ وفاق نے کبھی بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی صورتحال بلوچستان کی گذشتہ حکومت کی تھی، جس میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی خود اپنی پارٹی قیادت سے نالاں تھے۔ بلوچستان کے حقوق کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے اور چونکہ صوبائی حکومت وفاق کے رحم و کرم پر بنتی ہے، اسی لئے صوبائی حکومت بھی خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے بنانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بلوچستان کے اپنے نمائندے اور یہاں کی اپنی سیاسی قیادت ایک آزاد حکومت تشکیل دیں، تاکہ وفاق کے سامنے اپنے کیس کو بہتر طور پر لڑ سکیں۔ آج مسلم لیگ (ن) کے سابقہ ارکان اسمبلی اگر باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) میں شامل ہوئے ہیں، تو ان کے دل میں‌ وہی درد ہے، جو ہمارے دلوں میں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں کسی ایک شخصیت کی اجارہ داری نہیں، بلکہ یہاں ہر چیز میرٹ کے مطابق ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق ارکان اگر ماضی میں کام نہیں کرسکے، تو اسکی وجہ یہی ہے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر بلوچستان عوامی پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا، تو یہی ارکان جو ماضی میں کام نہیں کر پائے، مستقبل میں بلوچستان کیلئے انتہائی مفید ثابت ہونگے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی پر الزامات لگائے جاتے ہیں کہ راتوں رات ایک سیاسی جماعت کا وجود میں آنا، اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
اگر نواب ثناء اللہ زہری اور نواز شریف صاحب اپنی پارٹی کے ارکان پر توجہ دیتے تو شاید باپ جیسی پارٹی کی ضرورت نہ ہوتی۔ میں خود جب اسمبلی میں تھی تو نواب ثناء اللہ زہری صاحب کو یہی کہتی تھی کہ آپ پارٹی کو ساتھ لیکر چلیں، لیکن انہوں نے صرف قوم پرست جماعتوں کو نوازا۔ مسلم لیگ (ن) کے اپنے ارکان اسمبلی گھنٹوں نواب ثناء اللہ صاحب کے دفتر کے باہر کھڑے رہتے، لیکن انہیں ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی، جبکہ پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کے ارکان ناشتے اور کھانے کے اوقات میں بھی نواب ثناء اللہ صاحب کیساتھ ہوتے تھے۔ جب بلوچستان کے اہم فیصلوں میں خود یہاں کے ارکان اسمبلی سے مشورہ نہیں لیا جاتا، تو ایسے میں پارٹی ارکان کا بغاوت کرنا ایک فطری عمل ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر حکومتیں اڑھائی اڑھائی سال کی مدت کیلئے بنیں گی، تو ایسے میں صوبے کے مسائل خاص طور پر اقتصادی پالیسیوں پر کیسے عمل درآمد ہو پائیگا۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں پانچ سال کے عرصے میں تین حکومتیں بنیں گی، تو کثیر المدتی منصوبوں پر کبھی کامیابی نہیں ملے گی۔ جو منصوبے آج مکمل نہیں ہوئے، وہ آئندہ آنے والی حکومت کے پیر میں پی ایس ڈی پی کی صورت پھنس جائیں گے۔ اگر گذشتہ منصوبوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا، تو فنڈز کی مد میں ہمیں بے پناہ نقصانات ہونگے۔

اسلام ٹائمز: ایک رپورٹ کیمطابق گذشتہ پانچ سالوں میں بلوچستان میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں کی مد میں سولہ سو ارب روپے خرچ کئے گئے، لیکن زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
جب ہم نے نواب ثناء اللہ زہری کو ہٹا کر میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلٰی منتخب کیا، تو ہائیکورٹ نے ان کے تمام تر صوابدیدی فنڈز کو منجمد کر دیا۔ اسی وجہ سے آخری تین مہینے میں بھی ہمیں موقع نہیں ملا کہ اپنے وسائل اپنے صوبے پر خرچ کرسکیں۔ لیکن میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتی ہو کہ اگر ہماری حکومت بنی تو جو چیزیں فائلوں میں ہوتی ہے، وہ آپ کو زمین پر نظر آئیں گی۔ جتنے بھی فنڈز حکومت کے پاس ہونگے، اسے عوام کی فلاح وبہبود کیلئے خرچ کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں پانی بحران کی صورتحال ہر گزرتے دن کیساتھ سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے آپکی مستقبل کی پالیسی کیا ہوگی۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
پانی کا مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ہم قدرت کے اس بہت بڑے ذخیرے کو بڑی بے دردی سے استعمال کر رہے ہیں۔ آپ کی آبادی اور معیشیت صرف ایک چیز کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ ہے پانی۔ پاکستان کی برآمدات بتیس سے پینتیس ارب ڈالر تک ہیں۔ ان برآمدات کا پچھتر فیصد ٹیکسٹائل سے مربوط ہے۔ اس ٹیکسٹائل کا براہ راست تعلق پانی سے ہے۔ اگر ملک میں پانی کی بیس فیصد کمی بھی آتی ہے، تو اس سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصانات ہونگے۔ بلوچستان میں لوگوں کی زندگی کا دارومدار سب سے زیادہ مالداری پر تھا، لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہاں پر بھی زراعت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پاکستان جیسے جیسے زراعت کا شعبہ بڑھتا گیا، پانی کا استعمال اتنا ہی بڑھتا گیا۔ زرعی شعبے میں ہم نے کاشتکاروں کو یہ تربیت نہیں دی کہ پانی کو کم مقدار میں بہتر طریقے سے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر گزرتے دن کیساتھ بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح نیچھے گرتی چلی گئی۔ دوسری سطح پر ہمیں ڈیمز بنانے کی ضرورت تھی، جو کہ ماضی کی حکمرانوں نے نہیں بنائے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے نوجوان ایک ناامیدی کی فضاء میں زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ نئی نسل کو اپنے سیاسی رہنماؤن اور اداروں پر اعتماد ہی نہیں رہا۔ اسکی کیا وجہ ہے۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
بلوچستان سے پسماندگی کے خاتمے کے لئے وسائل سے زیادہ نیک نیتی کی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ عوام کے مسائل حقیقی معنوں میں حل کرنے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔ روایتی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بلوچستان پر توجہ اپنی جگہ، ان کی آرزو ہی نہیں کہ بلوچستان کے حقیقی مسائل و معاملات کو سمجھا جائے۔ قوم پرستی اور مذہب کے نام پر سیاست کا کھیل ختم ہوچکا۔ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ بلوچستان مزید نئے تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وسائل کی فراوانی کے باوجود ترقی کا عمل عرصہ سے منجمد ہونے کی وجہ سے عوام بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں تابعداری کا عمل حق بات سے دستبرداری کا خمیازہ ثابت ہوا اور انفرادی مسائل ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ نتیجتاً جمہوری عمل سے عام ووٹر متنفر ہونے لگے۔ سیاسی اداروں کی اہمیت عوام کے مسائل کے حل سے ہی مشروط ہے۔

لیڈر عوام سے لاتعلق ہو کر اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے سرگرداں رہے تو عوام میں قدرتی طور پر نفرت جنم لے کر ہی رہے گی۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں شفافیت اور جوابدہی کے موثر عمل سے ایسا نظام متعارف کروائیں گے، جس سے ایک عام فرد اپنے منتخب نمائندے سے پوچھنے کا حق رکھتا ہو۔ نوجوانوں سے ہماری بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اور ساتھ ساتھ یہ امید بھی ہے کہ وہ سیاسی عمل میں شفافیت کو مقدم رکھیں گے۔ بلوچستان عوامی پارٹی ایک نیا عزم و مشن لیکر میدان عمل میں اتری ہے اور عوام نے ہم سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، ان پر پورا اترنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے مسائل سے متعلق بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کا بھی آپ جیسا ہی موقف رہا ہے کہ وفاق ہماری طرف توجہ نہیں دیتا۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
بحیثیت صدر بلوچستان عوامی پارٹی کسی رشتہ دار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا ہے، کوئٹہ اور صوبے میں مسائل کے حل کیلئے بہتر پلان کی ضرورت ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی خراب گورننس اور لوگوں سے ہونے والی زیادتی کی وجہ سے بنی ہے۔ پچھلے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان میں ایک شخصیت نے اپنے گھرانے کے کئی افراد کو سینیٹ کے ٹکٹ جاری کرکے انہیں منتخب کرایا۔ اگر صوبے کا چیف ایگزیکٹو مثالی طرز حکمرانی اپنائے تو بلوچستان کے بجٹ سے سالانہ 30 سے 40 ارب روپے ہم بچت کرسکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے صوبے کا بجٹ اکثر لیپس ہوتا ہے، جس کی ذمہ داری ہمارے اپنے ہی لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔ اب عوام اس پارٹی کا ساتھ دیں گے، جو اپنے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنے منشور پر عملدرآمد کرواسکے۔ زبان و قومیت اور لسانیت و تعصب کے نام پر ووٹ لینے کا دور گزر گیا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کو وزارت اعلٰی کے ادوار میں فری ہینڈ دیا تھا اور مرکز سے چیک اینڈ بلینس نہ ہونے اور اراکین اسمبلی و کارکنوں کا برے طریقے سے استحصال کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں‌ انسرجنسی اور دہشتگردی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے آپکی جماعت کیا پالیسی رکھتی ہے۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
بلوچستان سکیورٹی کی صورتحال پہلے سے کافی بہتر ہوچکی ہے، جبکہ ہمیں اس حوالے سے مزید کام کرنا ہوگا۔ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کرنی چاہیئے، تاکہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں تخریب کاروں پر نظر رکھی جاسکے۔ اسی طرح محکمہ پولیس کو بااختیار کرکے بلوچستان میں اے اور بی ایریا کے فرق کو ختم کرنا ہوگا۔ اب کوئٹہ میں تیس کلو میٹر کے بعد بالکل ایک نیا قانون لاگو ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دہشتگردوں کو پکڑنے میں دشواری ہوتی ہیں۔ جہاں تک بلوچ انسرجنسی کی بات ہے تو بلوچستان کی عام عوام بھی اسوقت ناراض ہے۔ جو بھی پاکستان کی خود مختاری اور بہتری پر یقین رکھتا ہے، ہم ان سے بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ مزاحمت سے ماضی میں بھی صرف تباہی ہوئی ہے اور آئندہ بھی یہی صورتحال ہوگی، لیکن اگر ہم مفاہمت کا راستے اپنائے تو حالات بہتری کی جانب جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں لشکر جھنگوی، طالبان اور داعش سمیت دیگر انتہا پسند تکفیری تنظیموں کیخلاف بلوچستان عوامی پارٹی کی کیا پالیسی ہوگی۔؟
ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی:
بلوچستان عوامی پارٹی میں ہر رنگ و نسل کے لوگ شامل ہیں۔ ہماری جماعت کا دہشتگردی کیخلاف ایک حقیقی موقف ہے، کہ ایک انسان جان کی قیمت پوری انسانیت کے برابر ہے۔ جو بھی ریاستی رٹ کو چیلینج کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جو بھی عام عوام کی جانوں سے کھیلنے کی کوشش کرے گا، بلوچستان عوامی پارٹی اس کیخلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہوکر اسکا مقابلہ کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 737556
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش