0
Thursday 22 Mar 2012 00:25

پاکستان! صحافیوں کیلئے خطرناک ملک

پاکستان! صحافیوں کیلئے خطرناک ملک
پاکستان میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کو 2001ء سے مختلف نوعیت کے خطرات تسلسل کیساتھ درپیش رہے ہیں، حکومت، دہشتگردوں، سرکاری اداروں، سیاسی جماعتوں، جرائم پیشہ افراد اور کالعدم تنظیموں کی کارروائیوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنے والے پاکستانی صحافی اپنے عزم و حوصلہ اور جواں مردی کی مثال آپ ہیں، دہشتگردی کیخلاف شروع ہونے والی نام نہاد جنگ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں خصوصاً رپورٹرز، فوٹو گرافرز اور کیمرا مین کی جانوں کو شدید خطرات میں ڈالا ہے، اور پاکستان میں اب تک درجنوں صحافی اپنے اس مقدس پیشہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے جرم میں قتل کر دیئے گئے ہیں، گزشتہ سال یعنی 2011ء میں پاکستان کو صحافیوں کیلئے خطرناک ترین ملک بھی قرار دیا گیا، اس کی وجہ یہاں ہونے والی 7 شہادتیں تھیں، اس سے قبل سال 2010ء میں بھی 5 پاکستانی صحافیوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔

قبائلی علاقہ جات کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا اور پھر بلوچستان صحافیوں کیلئے خطرناک ترین خطے ثابت ہوئے ہیں، گذشتہ سال دنیا بھر میں 46 صحافی مارے گئے، جن میں پاکستان مسلسل دوسرے سال بھی صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ ہلاکت خیز ملک رہا، صحافیوں کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کے مطابق پاکستانی صحافی جن خطرات سے لڑ رہے ہیں ان میں افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں لاقانونیت، پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی، دہشتگردی کے خطرات، پولیس تشدد، پاکستانی سیاست کا تاریخی انتشار اور مقامی طور اثرو رسوخ کے حامل خطرناک عناصر شامل ہیں، تنظیم کے مطابق پاکستانی صحافیوں کو لاحق خطرات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ادارے انہیں خبر نگاری کے لیے ایسے مقامات پر بھیج دیتے ہیں جہاں اپنی حفاظت کے لیے نہ تو ان کے پاس وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کے طریقہ کار سے آگاہی ہوتی ہے۔

صحافیوں کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں گزشتہ دو سال سے پاکستان کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لیے مہلک ترین سال قرار دیتی آئی ہیں اور مختلف سطح پر صحافیوں سے مذاکرات کے بعد اب علاقائی تنظیموں نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میڈیا سے منسلک افراد کیلئے پاکستان میں حالات بدستور تشویشناک ہیں، صحافیوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والی علاقائی تنظیموں نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے، میڈیا کمیشن آف پاکستان نامی تنظیم نے جنوبی ایشیاء کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کی معاونت سے تیار کی گئی، اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لیے پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں، بلکہ یہ بتدریج خراب ہو رہے ہیں۔

جائزہ رپورٹ میں پاکستانی صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچا کر ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی دہرایا گیا ہے، اس کے علاوہ ایم کیو ایم پر صحافیوں کو دھمکانے کے الزامات عائد کرنے کے علاوہ سکیورٹی اداروں کے کردار پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے، رپورٹ میں ریاست کی نمائندگی کرنے والے افراد کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ وہ اظہار رائے کی آزادی اور میڈیا سے اپنے تعلقات کے بارے میں جان سکیں۔ جبکہ شورش زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کے بارے میں میڈیا کو بھی ایک ضابطہ اخلاق وضع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
 
یاد رہے کہ پاکستانی حکام بشمول وفاقی وزیر داخلہ یہ کہہ چکے ہیں کہ شہید ہونے والے تمام صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور حکومت نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات بھی کیے ہیں جن میں شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران احتیاطی تدابیر کے بارے میں تربیت فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ شورش زدہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کی مناسب تربیت نہ ہونے کے باعث ان کے لیے خطرات میں خاص طور پر اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں صحافیوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان کی ذاتی سلامتی بن چکا ہے، جبکہ حکومت اور میڈیا مالکان اس خطرے کے سدباب کے لیے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے تحفظ کے لیے اقدامات اور انہیں بیمہ تحفظ فراہم کرنے میں بھی اب تک ناکام رہے ہیں۔
 
صوبہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو درپیش حالات انتہائی پریشان کن ہیں، وہاں طالبان شدت پسندوں سمیت مختلف انتہاء پسند گروہوں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات میں ایک نیا اضافہ کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں بھی ہیں، جو کسی مخصوص فرقہ یا مذہب سے تعلق کی بنیاد پر صحافیوں کیلئے مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں صحافیوں کو درپیش خطرات میں کمی لانا اور ان کی جانوں کا تحفظ یقینی بنانا میڈیا اداروں سمیت حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔
 
اس کے علاوہ قتل ہونے والے صحافیوں کی شفاف تحقیقات بھی آزادی صحافت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں کیلئے ٹیسٹ کیس ہے، دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں کی طرف سے خطرات اور دھمکیوں کا تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے، سیاسی جماعتوں کی جانب سے صحافیوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی اطلاعات کسی طور پر بھی جمہوری ملک کے شایان شان نہیں، صحافیوں کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں کے سرکاری اداروں کے کردار پر شکوک و شبہات بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، تاہم ملک کے دیگر شہریوں کی طرح ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد بھی پاکستان میں شدید خطرات سے دوچار ہیں اور ان کا تحفظ یقینی بنانا یقینی طور پر ریاست کے اولین فرائض میں شامل ہے۔
خبر کا کوڈ : 147353
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش