0
Saturday 16 Feb 2013 13:20

ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کی زیر صدارت سندھ اسمبلی کا اجلاس، ایم کیو ایم کا بائیکاٹ

ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کی زیر صدارت سندھ اسمبلی کا اجلاس، ایم کیو ایم کا بائیکاٹ
اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ارکان نے سندھ اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ بیس منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے شروع میں اپوزیشن جماعتوں کے دیگر ارکان بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں محکمہ اوقاف اور محکمہ جنگلی حیات سے متعلق وقفہ سوالات صرف 2 منٹ میں نمٹا دیا گیا۔ وقفہ سوالات کے بعد قانون سازی کے دوران اپوزیشن ارکان ایوان میں آگئے۔

وزیر قانون محمد ایاز سومرو نے سندھ پبلک پروکیومنٹ (ترمیمی) بل منظوری کیلئے پیش کیا تو اس پر سرکاری اور اپوزیشن ارکان میں تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا اور ایوان میں زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اپوزیشن کے رکن عارف مصطفی جتوئی نے مذکورہ بل میں اپنی ترمیم پیش کی اور کہا کہ یہ ترمیمی بل بے انتہاء کرپشن کو قانونی حیثیت دینے کیلئے منظور کرایا جا رہا ہے ہم اس کا حصہ نہیں بن سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بل کی ترمیم کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ ترمیم قومی مفاد میں کی جا رہی ہے۔ قومی مفاد کے الفاظ استعمال کرکے ہر چیز کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ سندھ اسمبلی نے جب پبلک پروکیومنٹ بل کو منظور کیا تھا تو اس کا مطمع نظر یہ تھا کہ کرپشن کو روکا جائے اور شفافیت کو فروغ دیا جائے۔ لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے موجودہ حکومت کی کرپشن کے بارے میں روزانہ رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔

وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے صدر عادل گیلانی کو کراچی پورٹ ٹرست سے کرپشن کی بنیاد پر نوکری سے نکالا گیا تھا۔ عادل گیلانی نے ایک مشہور ادارے کی کرپشن کی رپورٹ مرتب کی لیکن جب اس ادارے کی طرف سے عادل گیلانی کو پیٹرول پمپ اور گھر کیلئے پلاٹ ملا تو انہوں نے یہ رپورٹ روک لی۔ ایسا شخص اب دوسروں کی کرپشن کی رپورٹ بنا رہا ہے، جسے خود کرپشن کی بنیاد پر نکالا گیا ہے۔ پتہ نہیں ایسے شخص کو قومی ہیرو کیوں بنایا جا رہا ہے۔
 
عارف مصطفی جتوئی نے شرجیل انعام میمن سے سوال کیا کہ یہ پلاٹ کس نے دئیے۔ اسی دوران اپوزیشن کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے کورم کی نشاندہی کی اور کہا کہ بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنی اہم قانون سازی ہو رہی ہے لیکن اسمبلی کا کورم پورا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ایوان میں صرف 36 ارکان موجود تھے جبکہ کورم کیلئے 42 ارکان کا ہونا ضروری ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ یہ طے ہوا تھا کہ کورم کی نشاندہی نہیں کی جائے گی۔

اپوزیشن کے رکن جام مدد علی نے کہا کہ ہم اس بات پر قائم ہیں لیکن اجلاس کو تاخیر سے شروع کرنا اور اجلاس میں سرکاری ارکان کا شرکت نہ کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے اور اس روایت کو ختم ہونا چاہیئے۔ اسپیکر نے وزیر قانون سے کہا کہ میرے پاس دو آپشن ہیں کہ یا تو میں اجلاس 5 منٹ کیلئے ملتوی کر دوں یا زیر غور بل موخر کر دیا جائے۔ وزیر قانون نے مذکورہ بل کو آئندہ جمعرات تک موخر کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان نے منظور کرلیا۔ اسی دوران وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے بتایا کہ اجلاس کا کورم پورا ہو گیا ہے۔

وزیر قانون ایاز سومرو نے ایوان کو بتایا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مرکزی صدر نے پاکستان چیپٹر کیلئے عادل گیلانی کی جگہ کسی اور کا نام دیا ہے۔ وزیر قانون نے جیکب آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز کا بل بھی ایوان میں پیش کیا، جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اجلاس میں سندھ آرمز بل 2013ء پہلے متعارف ہوا۔ پھر اس پر غور بدھ 20 فروری تک موخر کر دیا گیا۔ اجلاس کی تمام کارروائی 50 منٹ میں مکمل ہو گئی اور اسپیکر نثار احمد کھوڑو نے اجلاس آئندہ بدھ کی صبح تک ملتوی کر دیا۔

اجلاس میں وقفہ سوالات کیلئے جن ارکان کے تحریری سوالات شامل تھے، ان کی عدم موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر نے ہر سوال کرنے والے کا نام اور سوال کا نمبر پکارا۔ موجودہ ارکان میں سے بھی کسی نے ضمنی سوال نہیں کیا۔ لہٰذا وقفہ سوالات صرف 2 منٹ میں نمٹا دیا گیا۔ تاہم وقفہ سوالات کیلئے تحریری جوابات میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی طرف سے بتایا گیا کہ یکم جنوری 2010ء سے 30 جون 2011ء تک سندھ بھر کی درگاہوں سے 8 کروڑ 2 لاکھ 37 ہزار روپے کی آمدنی ہوئی۔ سب سے زیادہ آمدنی درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر سے ہوئی جو 2 کروڑ 12 لاکھ 30 ہزار روپے تھی۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ مالی سال 2011ء - 2012ء کے دوران مختلف درگاہوں کی تعمیر اور مرمت کے کاموں پر تقریباً 11 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔

وزیر جنگلی حیات ڈاکٹر دیاران اسرانی نے مختلف سوالات کے تحریری جوابات میں بتایا کہ حکومت نے نایاب جانوروں اور پرندوں کے شکار کی کسی کو اجازت نہیں دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بعض غیر ملکی شخصیات کو سال 2010ء - 2011ء میں شکار کے 5 پرمٹ جاری کئے گئے جبکہ سال 2012ء میں 12 پرمٹ جاری کئے گئے۔ وزیر جنگلی حیات نے بتایا کہ کینجھر جھیل میں جنگلی اور آبی حیات کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کینجھر جھیل سے اضافی پانی نہیں نکالا جا رہا ہے۔ وہاں سے صرف 1200 کیوسک منظور شدہ پانی گجو کینال کے ذریعے کراچی واٹر بورڈ کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ محکمہ آبپاشی براہ راست کینجھر جھیل سے نہیں بلکہ لنک کینال کے ذریعے کے بی فیڈر سے پانی حاصل کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 239986
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش