0
Saturday 29 Mar 2014 10:40

وزیرداخلہ نے آج حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا

وزیرداخلہ نے آج حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا
اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم نوازشریف نے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو طالبان کیساتھ مذاکرات کے عمل میں تیزی سے پیش رفت کرنے کی ہدایت کر دی ہے جس کے بعد وزیرداخلہ نے آج اسلام آباد میں حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بلا لیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اجلاس میں مذاکرات میں تیزی سے پیشرفت لانے کی خاطر آئندہ کے لائحہ عمل اور ایجنڈے پر مشاورت کی جائے گی اور طالبان شوریٰ کیساتھ حالیہ ملاقات کا تجزیہ کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ مذاکرات کے عمل میں تیزی کیساتھ پیشرفت ہو اور اس کو بلاوجہ طول نہ دیا جائے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اجلاس میں طالبان کے مطالبات کے قابل عمل ہونے کے حوالے سے بھی تفصیلی غوروخوص کیا جائے گا اور مذاکرات کو تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے کمیٹیوں کے ارکان سے حتمی تجاویز لی جائیں گی۔ وزیر داخلہ ان تجاویز پر وزیراعظم کو بریفنگ دیں گے اور اس کے بعد مزاکرات کا فیصلہ کن مرحلہ شروع ہو پائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک مآاکرات نہایت مثبت اندازمیں آگے بڑھائے جارہے ہیں اور دونوں اطراف سے یکساں مثبت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں توسیع کے لیے بیک چینل رابطے شروع ہو گئے ہیں جبکہ پاکستانی حکام قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کی مدد سے طالبان کی جانب سے فراہم کردہ 250 غیرجنگجو افراد کی فہرست کی چھان بین کر رہے ہیں۔ طالبان نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ سیزفائر کے باوجود سکیورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں چھاپوں اور سرچ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ 

حکومت اور طالبان کے درمیان امن بات چیت بالخصوص حالیہ مذاکرات جو اورکزئی ایجنسی کے علاقے بلند خیل میں ہوئے، سے واقف ذرائع نے بتایا کہ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے اور اس کو ممکنہ طور پر سبوتاژ ہونے سے بچانے کیلیے ضروری ہے کہ سیزفائر جو صرف رواں ایک ماہ ک لیے تھا، میں مزید توسیع کی جائے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی اگلے 3 یا 4 روز میں طالبان کی شوری کے اراکین سے دوبارہ مل سکتی ہے جبکہ جنگ بندی میں توسیع کے لیے بیک چینل رابطوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

حکومت نے متعلقہ اداروں جن میں قبائلی علاقوں کی انتظامیہ بھی شامل ہے کو ہدایت کر دی ہے کہ غیرجنگجو لوگوں کی جو فہرست طالبان نے فراہم کی ہے اس کی چھان بین کی جائے۔ ان علاقوں میں جایا جائے اور فہرست میں مبینہ طور پر شامل عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی سکونت وغیرہ کے بارے میں معلوم کیا جائے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی حلقے سمجھتے ہیں کہ بچے، بوڑھے اور خواتین سکیورٹی فورسز کی تحویل میں نہیں ہیں مگر طالبان کی جانب سے اصرار پر چھان بین کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ طالبان نے یہ الزام بھی لگایا کہ سکیورٹی فورسز اب بھی باجوڑ مہمند اور کچھ دیگر علاقوں میں سرچ آپریشن کر رہی ہے تاہم ذرائع نے اس الزام کی پرزور تردید کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت اور سکیورٹی فورسز سیزفائر کے اعلان پر قائم ہیں۔

ذرائع نے بتایاہے کہ طالبان نے اپنے عسکریت پسندوں کی جو الگ فہرست دی ہے اس میں تقریبا 800افراد شامل ہیں البتہ ابتدائی مراحل میں ایسے جنگجو افراد کی رہائی مشکل نظر آتی ہے۔ حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے رابطہ کرنے پر ذرائع کو بتایا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ جو فہرست انھوں نے غیرجنگجو افراد کے حوالے سے دی ہے ان میں کم از کم کچھ افراد کو پہلے مرحلے میں رہا کیا جائے تاکہ طالبان کی صفوں میں شامل سخت گیر مئوقف رکھنے والے افراد کو بھی مذاکرات کی طرف مزید مائل کیا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 366990
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش