0
Tuesday 27 Sep 2011 21:08

حقانی نیٹ ورک کی آڑ میں امریکی کیا چاہتے ہیں؟

حقانی نیٹ ورک کی آڑ میں امریکی کیا چاہتے ہیں؟
تحریر:طاہر یٰسین طاہر 
معاملات جس قدر سادہ نظر آتے ہیں ایسے ہیں نہیں۔ لاریب امریکی اس خطے میں اپنے اصل مقاصد کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں، اسامہ سے لیکر جلال الدین حقانی تک سبھی امریکہ کی گود میں پلے، وقت نے مفادات اور امریکی ترجیح کو تبدیل کیا تو ان گروپوں سے اسکے بظاہر تعلقات بگڑ گئے۔ مگر زمینی حقائق آ ج بھی یہ بتاتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی نائن الیون کی ”کارروائی“یا پھر حقانی گروپ کی کابل میں ”کارروائی“ کے زمینی فوائد آخر کار امریکی جھولی میں گرتے نظر آتے ہیں۔ عالمی سیاست پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو منظر نامہ بالکل واضح ہے۔ امریکہ افغانستان فتح کرنے کے لئے آیا ہی نہیں تھا۔ امریکہ اگر چاہتا تو وہ دو سے تین ماہ میں طالبان کو فتح بلکہ ختم کر کے افغانستان میں اپنی بلا شرکت غیرے حکومت ترتیب دے سکتا تھا۔ مگر وہ یہاں آ کر اس قدر ”مجبور“ ہے کہ اسے طالبان گروپوں سے مذاکرات کی ضرورت پیش آ رہی ہے، آخر وجہ کیا ہے۔؟ 
امریکہ اپنے مغربی اتحادیوں اور دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی اور فوج رکھنے کے باوجود فتح مند نہیں ہو رہا۔ دراصل امریکہ اس خطے میں آ کر اس جنگ کو اس قدر طول دینا چاہتا تھا کہ اس کا دائرہ پھیلا کر پاکستان تک لے آئے۔ جزوی طور پر امریکہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ضرور ہے۔ اس جنگ کا مرکزی میدان پاکستان بنتا جا رہا ہے مگر امریکہ اب عجلت میں معاملات کو افغانستان سے سمیٹ کر پاکستان کی طرف متوجہ کرنے کو بے قرار ہے۔ گذشتہ دنوں سے یہ بے قراری اس حد تک بڑھی کہ امریکہ نے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے پاکستان کو خطرناک نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دے دی۔ امریکی فوج کے اعلٰی ترین کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن نے الزام عائد کیا ہے کہ کابل پر حالیہ حملوں میں ملوث شدت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا آلہ کار ہے۔ امریکی کمانڈر نے سینٹ کے ارکان کو ایک بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کابل میں نیٹو اور امریکی فوج کے اڈوں پر حملہ حقانی گروپ نے آئی ایس آئی کی معاونت سے کیا تھا۔ یہ حملے گیارہ ستمبر کو ہوئے تھے۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ اٹھائیس جون کو انٹرکانٹینل ہوٹل کابل کے حملے میں بھی حقانی نیٹ ورک کے لوگ ہی ملوث تھے۔ مولن نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی حکومت نے تشدد کو ایک پالیسی کے تحت اختیار ہے اور پاکستان تشدد برآمد کر کے اپنی داخلہ سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کا لہجہ جارحانہ ہے۔ پاکستان نے امریکہ کے ان الزامات کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ آئی ایس آئی نہ تو کابل حملے میں ملوث ہے اور نہ ہی پاکستان امریکی فوج کی دراندازی برداشت کرے گا۔ آرمی چیف جنرل کیانی نے بھی امریکہ پر واضح کیا کہ وہ الزام تراشی بند کرے، اس سلسلے میں طویل کور کمانڈرز کانفرنس بھی ہوئی۔ جبکہ دفتر خارجہ پاکستان نے کہا کہ افغانستان میں ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔ امریکہ نے ریڈ لائن کراس کی تو دوسرے آپشن کھلے ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب عبداللہ حسین ہارون نے امریکہ کو خبردار کیا کہ اگر اس نے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو اسے یہ سودا ویت نام سے بھی مہنگا پڑے گا۔ امریکہ کی جانب سے لمحہ بہ لمحہ پاکستان پر الزامات کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے جبکہ پاکستانی حکام نہ صرف ان الزامات کی سختی سے تردید کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اگر امریکہ کے پاس ایسے کوئی شواہد ہیں تو وہ پاکستان کے ساتھ شیئر کرے۔ خیال رہے کہ دہشتگردی کے خلاف جاری اس جنگ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان انٹیلی جینس شیئرنگ کا معاہدہ موجود ہے، مگر امریکہ نے کبھی اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔ ایبٹ آباد آپریشن اس امر کا گواہ ہے۔ جس پر پاکستان کو شدید تشویش ہے۔ اسامہ کا قصہ تمام ہونے کے بعد امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کو خطرہ قرار دے دیا۔
خدا لگتی کہوں تو امریکی بندے امریکہ کے کام آتے رہیں گے، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی حمایت سے روس مخالف تشکیل پانے والا حقانی نیٹ ورک اب خطے میں مغربی ممالک کے لئے سب سے زیادہ خطرناک جنگجو گروپ بن چکا ہے، آخر کیوں؟ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے ہے۔ اس گروپ نے 1980ء کی دہائی میں سابقہ سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے دوران منظم کارروائیاں کیں، اور امریکی حکام یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ جلال الدین حقانی کبھی امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ایک قیمتی اثاثہ تھے۔ یہاں ایک سوال بڑا دلچسپ ہے کہ امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کو اپنے لئے بڑا خطرہ تو قرار دے دیا مگر مذاکرات میں ناکامی کے بعد، کیونکہ کچھ عرصہ قبل تک حقانی گروپ کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور افغان حکومت میں اعلٰی عہدوں کی پیش کش کی، مگر ناکام رہا۔
اس امر میں کسی کو کلام کی گنجائش نہیں کہ امریکہ نے جن ”مجاہدین“ کی پرورش کی تھی آج وہ شدید نوعیت کے اختلافات کے باعث کئی گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ان کے مشہور گروپوں میں جلال الدین حقانی گروپ، بیت اللہ محسود گروپ، حافظ گل بہادر گروپ، مولوی نذیر گروپ، عبداللہ محسود گروپ، کالعدم تحریک طالبان سوات، عصمت اللہ معاویہ گروپ، قاری حسین گروپ، بنگالی گروپ، بدر منصور گروپ، عبدالجبار گروپ، منگل باغ گروپ، سیف اللہ اختر گروپ، قاری یاسین گروپ، قاری ظفر گروپ، الیاس کشمیری گروپ، رانا افضل عرف نور خان گروپ، کلیم اللہ گروپ، قاری شکیل گروپ،گل حسین احمد گروپ، شیخ معراج گروپ، تکفیری گروپ، ازبک گروپ اور امجد فاروقی گروپ وغیرہ شامل ہیں۔
 طالبان کے ان گروپوں میں کئی ایسے بھی ہیں جو انفرادی طور پر کام کر رہے ہیں جبکہ کئی گروپ ملا عمر کی تحریک الاسلامی طالبان یا پھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ الحاق کر چکے ہیں۔ ان ہی گروپوں میں ایک افغانستان میں غیر ملکی افواج کے خلاف برسرپیکار جلال الدین حقانی نیٹ ورک بھی ہے۔ جسے امریکہ نے آج کل عالمی سیاست کا مرکز و محور بنا رکھا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جلال الدین حقانی گروپ افغان طالبان کا ایک آزاد حصہ ہے۔ دو ہزار آٹھ سے اس گروپ کی قیادت جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی کے ہاتھ میں ہے، جسے خلیفہ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اور اسی بنا پر حقانی نیٹ ورک کو خلیفہ گروپ بھی کہا جاتا ہے۔ امریکی تربیت یافتہ انتہا پسند جنگجوﺅں کے مختلف گروپوں کا تذکرہ ریکارڈ پر لانا اس لئے بھی ضروری تھا تاکہ قارئین جان سکیں کہ آج اپنے اپنے اندر معاشی اختلافات کے باعث مختلف گروپوں میں تقسیم ہونے والے ”اسلامی مجاہدین“ کبھی ایک جتھے کی صورت امریکی ہراول دستہ تھے۔
ہمیں یہ بات کہنے میں تامل نہیں کہ امریکہ اگر افغانستان کو فتح کرنا چاہتا تو چند ماہ میں کر لیتا، مگر اس کی نیت کہیں اور قیام کرنے کی ہے۔ القصہ مختصر امریکہ کی نظریں پاکستان کے اسٹریٹیجک اثاثوں پر ہیں۔ امریکہ کو افغانستان سے آگے قدم بڑھانے کے لئے کسی نئے 9-11 کے ڈرامے کی ضرورت ہے۔ اسامہ امریکہ کو افغانستان تک لے آیا، حقانی امریکہ کی تشنہ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مسئلہ حقانی نیٹ ورک کا نہیں ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ پاک فوج کی صلاحیت سے بھی آگاہ ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آئی ایس آئی ملکی دفاع کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنانے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ وہ صہیونی ایجنڈے کی اس وقت تکمیل نہیں کرسکتا جب تک کہ پاکستانی دفاعی ادارے کمزور نہیں ہوں گے۔
 امریکہ اس خطے سے واپسی سے قبل کوئی بڑی کامیابی سمیٹنا چاہتا ہے مکرر عرض ہے کہ طالبان کا خاتمہ امریکہ کا ہرگز مقصد نہیں، یہ وہ امریکی عصا ہیں جن کے سہارے وہ پورے مشرق وسطیٰ کی ”سیر“ کرنا چاہتا ہے۔ اگر تو امریکی مقاصد میں اسامہ کی گرفتاری یا ہلاکت سرفہرست تھی تو پھر ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکہ کے پاس جواز نہیں کہ وہ اس خطے میں مزید ٹھہرے۔ طالبان یا پھر اس طرح کے دیگر انتہا پسند گروپ جیسے جنداللہ وغیرہ کے خلاف ٹھوس کارروائی کبھی بھی امریکہ ترجیحات میں نہیں۔ اگرچہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے وہ افغانستان کو کھنڈر بنا چکا ہے مگر طالبان کیوں محفوظ رہے؟ ملا عمر کیوں گرفتار نہ ہوا؟ طالبان کے مزید گروپ کیوں سامنے آ گئے؟ امریکہ کی نظریں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ہیں۔ 
خود امریکی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اس خطے میں ایٹمی طاقت قبول نہیں کریں گے۔ وہ تو ایران کو بھی برداشت نہیں کرتے، جس نے این ٹی پی پر دستخط کئے ہوئے ہیں اور جس کا ایٹمی پروگرام عالمی توانائی ایجنسی کی کامل نگرانی میں چل رہا ہے۔ امریکہ پاکستان کے اوپر ملبہ ڈال کر دراصل دنیا کی بہترین انٹیلی جینس ایجنسی کو بدنام کر کے عالمی سطح پر یہ تاثر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کی نہ صرف آماجگاہ بنتا جا رہا ہے بلکہ افغانستان میں بھی دہشتگردی پاکستان ہی کروا رہا ہے۔ امریکہ اپنے اسی ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے، وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ جانے سے پہلے خطے کے معاملات انڈیا کے حوالے کر دے۔ مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جب تک پاکستان میں دم خم ہے ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ خطے میں استحکام کے لئے پاکستان کی کوششیں بار آور ہوں۔ چین، روس اور ایران کے ساتھ پاکستان کے مزید گہرے ہوتے تعلقات سے بھی امریکہ نالاں ہے۔
امریکہ جانے سے پہلے افغانستان میں بھی ایک ایسی حکومت چھوڑ کر جانا چاہتا ہے جو مسلسل پاکستان کو آنکھیں دکھاتی رہے۔ دراصل حقانی نیٹ ورک کے ذریعے امریکہ پاکستان کے اندر تک آنا چاہتا ہے۔ معاملات اس قدر سادہ نہیں، جیسے نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی دنیا اس طرح سنے گی جیسا ہم کہیں گے۔ طاقت اپنے لئے راستے خود ہموار کرتی ہے۔ امریکہ نے کبھی حقانی نیٹ ورک کو یہ سبق یاد کروایا تھا کہ افغان سرزمین پر حملہ آور روسیوں کے خلاف ”جہاد“ تم پر فرض ہے۔ یہ رٹا رٹایا سبق آج حقانی نیٹ ورک امریکہ کو سنانے لگا ہے تو اس میں پاکستان کا قصور کیا۔؟ دہشتگردی کے خلاف جنگ پاکستان کی خود مختاری کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ امریکہ کبھی بھی انتہا پسندوں کا خاتمہ نہیں چاہے گا، مگر اب یہ پاکستان کے لیے ضروری ہو چکا ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ ایران کے لہجے میں بات کرتے ہوئے اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرے اور بلا امتیاز ان دہشتگرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے، جو پاکستان کے اندر امریکی مدد سے دہشتگردی کر کے امریکہ کی بالواسطہ مدد کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 101983
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش