0
Wednesday 31 Jan 2024 09:56

پاکستان میں امریکی لابی کی اہم ترین کامیابی

پاکستان میں امریکی لابی کی اہم ترین کامیابی
تحریر: علی احمد واحد

پاکستانی سیاسی کلچر نوآبادیاتی نظام کی دین ہے، جہاں ظالم، جابر اور طاقتور کو رسوخ کا حامل سمجھا جاتا ہے، دوسری جانب یہ بھی ہے کہ جو ان طاقتوروں کو چیلنج کرے، لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں، بالکل پنجابی فلوں کے سلطان راہی کے کردار کی طرح، عام آدمی موجودہ ظالمانہ نظام کیخلاف آواز اٹھانے والے کو غریبوں کا نجات دہندہ ہی سمجھتا ہے کہ یہ ہمیں چوہدری، جاگیردار اور وڈیرے کے فرعونیت سے نجات دلائے گا۔ لیکن یہ خواب اس وقت چور ہو جاتا ہے جب سینما کی اسکرین بند ہوتی ہے، یعنی جب معاملہ عوام کے ہاتھوں سے نکل کر اشرافیہ، ججز، مقتدرہ اور عالمی طاقتوں کے کٹھ پتلی بااثر افراد کے پاس چلا جاتا ہے۔ دراصل طاقت کا توازن کبھی مقامی امنگوں کی ترجمانی کرنیوالوں کی طرف رہا ہی نہیں۔ پھر کنٹرولڈ جمہوریت ہے اور جن کی گرفت مضبوط ہے، ان کا عوامی مزاج نہیں اور نہ ہی شرح صدر کے حامل ہیں۔

سیاسی جماعتیں، ججز، وکلا، بیوروکریسی، سواشل میڈیا اور ووٹرز کے علاوہ غیر ملکی سفارت خانے بھی سیاسی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عین الیکشن کے دنوں میں سیاسی نوعیت کے عدالتی فیصلے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ تازہ مثال سائفر کیس کا فیصلہ ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود کو ہونیوالی سزا کی ٹائمنگ اہمیت کی حامل ہے۔ سیاسی مبصرین میں عمران خان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی بلے کا نشان نہ ملنے پر پہلے ہی دلبرداشتہ تھے اب وہ مزید مایوس ہوگئے ہیں، پہلی مرتبہ عمران خان کی حکمت عملی ناکام ہوئی ہے، جس نے خود ان کی حد سے زیادہ خود اعتمادی کو دھچکہ لگایا ہے۔ تبصروں کی حد تک یہ درست ہے لیکن عمران خان کا مقابلہ ایسی لابی سے ہے جو ججز، بیوروکریسی اور مقتدرہ کو امریکی ایما پر استعمال کرنے کا تعارف اور تاریخ رکھتی ہے۔

بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں دس دس سال قید کی سزا کا فیصلہ سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے اور یہ سوال کیا جارہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی سزا کے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوں۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ الیکشن سے صرف 8 دن پہلے عمران خان کو سزا کی ٹائمنگ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار جو انتخابی نشان بلے کا نشان نہ ملنے کی وجہ سے پہلے ہی دلبرداشتہ ہیں ۔ عمران خان کی سز ا کے فیصلہ نے انہیں مزید مایوس کردیا ہے اور ان کا مورال گر گیا ہے۔ یہ مورال گرانے اور حوصلے توڑنے والا حربہ نہ صرف جنگ بلکہ سیاست میں بھی صدیوں سے رائج ہے، عوامی رائے لیکن اس سے تبدیل نہیں ہوئی۔ برے اثرات ضرور ہوئے ہیں۔ 

یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدوار اپنی مہم میں کارکردگی یا منشور کی بجائے صرف عمران خان کے نام پر انحصار کر رہے ہیں۔ ایک حد تک سزا نے خود عمران خان کا مورال گرادیا ہے کیونکہ انہوں نے اب تک وکلاء کو غیر حاضر اور بار بار تبدیل کرنے کی حکمت عملی سے تمام کیسز کو التواء کا شکار کئے رکھا ہے اور اسی لئے وکیلوں کو پسند کرتے ہیں اور پارٹی کی قیادت ان کے سپرد کردی ہے کہ وکلاء نے الیکشن کمیشن میں اور سول کورٹس میں کسی کیس کو آگے نہیں بڑھنے دیا، اس حکمت عملی سے انہوں نے پی ٹی آئی کے کا رکنوں میں یہ قوی تاثر بنالیا تھا کہ عمران خان کو سزا نہیں مل سکتی، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ نے اب تک کارکنوں کو یہ امید دلائے رکھی تھی کہ عمران خان الیکشن سے پہلے جیل سے باہر آجائیں گے۔ انہیں سزا نہیں ہوگی۔ عمران خان کی حکمت عملی ناکام ہوئی ہے، یہ صرف ایک پہلو ہے۔ ورنہ پاکستان میں مصر میں جنرل السیسی کو جس طرح اقتدار میں لایا گیا اسی طرح عوامی مقبولیت کے حامل نسبتا’’ آزاد سوچ رکھنے والے لیڈر کو جیل بھجوایا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں موجود امریکی لابی نے ڈنکے کی چوٹ پر پاکستانی عوام کی حقیقی آواز بن کر ابھرنے والی لہر کو دبانے میں ایک دفعہ پھر کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکی لابی کے لیے یہ کامیابی اس لیے اہم ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے، پاکستان عالمی سطح پر اہم کردار کر سکتا ہے، چین اور ایران کا پڑوسی ملک ہے، سی پیک جیسے معاہدوں میں شریک ہے، سب سے اہم فلسطین کی موجودہ صورتحال ہے، جیسا کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کنوننشن سنٹر اسلام آباد میں اہل سنت کی نمائندہ فلسطین کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اگر پاکستان دھمکی دے تو اسرائیل غزہ میں جاری جنگ بند کردیگا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا، اگر عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب پر رہتے تو حالات کچھ اور ہوتے۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ کامیاب رجیم چینج آپریشن کا مقصد ہی امریکی پالیسیوں کے عین مطابق پاکستان کو یوکرائن سمیت ہر ایشو پر امریکی بلاک کیساتھ کھڑے رہنے پر مجبور رکھنا تھا۔

عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد سے لیکر سائفر کیس کے حالیہ فیصلے تک، زور زبردستی سے امریکی لابی اس میں کامیاب رہی ہے۔ کیونکہ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پاکستان اور اسرائیل مل کر یوکرائن کو اسپورٹ کر رہے تھے۔ پاکستانی اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ امریکی بلاک میں پاکستان کی بقا اور کامیابی ہے، ورنہ انڈیا امریکہ کے زیادہ قریب ہو جائیگا، پاکستانی معیشت اس قابل نہیں کہ امریکی امداد کے بغیر ملک چلا سکیں، یہ ایک گھسا پٹا بیانیہ ہے، جو خارجہ پالیسی سے دلچسپی رکھنے والے درمیانے درجے کے صحافیوں کو سنایا جاتا ہے، حقیقت میں منی لانڈرنگ اور کک بیکس کے ذریعے پاکستان کو یرغمال بنانے والوں نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ذاتی مفادات کے لیے پاکستان کو غلام بنا رکھا ہے۔ یہ ہتھکنڈے نئے نہیں، یہ حتمی فیصلہ نہیں، اصل اللہ تعالیٰ کی عدالت سے ہونے ہیں، پاکستانی عوام کی جدوجہد شرط ہے۔
خبر کا کوڈ : 1112796
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش