0
Thursday 1 Feb 2024 06:18

زندہ باد ایران و پاکستان(1)

زندہ باد ایران و پاکستان(1)
تحریر: سید تنویر حیدر
 
پاکستان اور ایران اگرچہ دو برادر ہمسایہ ممالک ہیں لیکن ان کے مابین باہمی تعلقات کا داٸرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ عالم مشرق کی یہ دونوں اقوام نہ صرف مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور لسانی رشتوں کی ایک مضبوط لڑی میں پروٸی ہوٸی ہیں بلکہ یہ ایک ایسے خطہء ارضی میں آباد ہیں، جس کی جغرافیاٸی اور تزویراتی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آج کے بدلتے ہوئے بین الاقوامی منظرنامے میں ان دو ممالک کی حیثیت اور مقام کو دنیا کی کوٸی طاقت نظرانداز نہیں کرسکتی۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کی بعض تسلط پسند طاقتیں ان دو برادر ہمسایوں کے مابین کسی بھی سطح پر فروغ پاتے ہوئے تعلقات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔

ہم اگر ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے اور اس کے بعد کے ادوار میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے اب تک کے طے کردہ سفر کا مختصر جاٸزہ لیں تو ہم باور کریں گے کہ اس راہ میں آمدہ بعض پیچیدگیوں اور اغیار کی ریشہ دوانیوں کے باوجود دونوں ممالک نے اپنا سفر بخوبی جاری رکھا ہے اور اپنے تعلقات کو بلند تر سطح پر رکھنے کے لیے اساسی نوعیت کے اقدامات کیے ہیں، مثلاً قیام پاکستان کے فوراً بعد وہ ملک جس نے سب سے پہلے پاکستان کی نوزاٸیدہ مملکت کو تسلیم کیا، وہ اسلامی جمہوری ایران ہی ہے۔ یہ وہ وقت تھا، جب ہندو سامراج کے سینے پر متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا لگنے والا زخم ابھی تازہ تھا۔ بھارت یہ نہیں چاہتا تھا کہ ملک خداداد پاکستان دنیا کی دوسری اقوام میں اپنی الگ شناخت قاٸم کرسکے۔

پاکستان نے بھی ایران کے اس اقدام کو ہمیشہ یاد رکھا اور اسے اپنی خارجہ پالیسی میں سرفہرست رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1979ء میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو اس انقلاب کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا۔ نئی اسلامی حکومت سے اپنے تعلقات استوار کرنے کے لیے اس وقت کے وزیر خارجہ آغا شاہی نے فوری طور پر ایران کا سرکاری دورہ کیا اور اپنے ہم منصب ڈاکٹر کریم سنجابی کے ساتھ ملاقات میں اس بات کا عندیہ دیا کہ دونوں ممالک ایک شاندار مستقبل کی جانب محو سفر ہیں۔ اگلے روز آغا شاہی نے امام خمینی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں علاقے میں رونماء ہونے والی تبدیلیوں پر گفتگو کی گئی۔

ایران کا یہ انقلاب ایک نظریاتی انقلاب تھا، جو درحقیقت ایران میں حد درجہ مغربیت کے پھیلاٶ اور امریکہ کے تسلط پسند عزاٸم کے مقابلے میں ایک ردعمل تھا۔ اس انقلاب نے ایران میں اڑھاٸی ہزار سالہ شہنشاہیت کے بت کو زمیں بوس کر دیا تھا۔ انقلاب مخالف بعض قوتوں نے اس انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے اسے ایک خاص قسم کی مذہبیت کا رنگ دیا اور اسے مسلمانوں کے مختلف مسالک کے مابین فروعی اختلافات کو فروغ دینے کا ایک سبب بنانے کی کوشش کی۔ پاکستان میں بعض فرقہ پرست عناصر نے پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی اور روادری کی مثالی فضا میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے کی سرتوڑ کوشش کی، لیکن پاکستان کے باشعور عوام اور ذمے دار علماء نے اپنے اتحاد سے اس سازش کو ناکام بنا دیا اور پاک ایران تعلقات کو زہر آلود ہونے سے بچا لیا۔

ایران کے علماء اور باالخصوص امام خمینی نے اس قسم کی تفرقہ بازی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ امام خمینی نے شیعہ اور سنی کو اسلام کے دو بازو قرار دیا اور دونوں بھاٸیوں کے مابین تفرقہ ڈالنے والوں کو صیہونی ایجنٹ قرار دیا۔ ایران کے موجودہ رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی اپنے ایک فتوے میں واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ مسلمانوں کے کسی فرقے کے مذہبی شعار اور ان کی مقدس شخصیات کی توہین کرنا قطعاً حرام ہے۔ کسی دوست ملک کی دوستی اس وقت کڑی آزماٸش سے گزرتی ہے، جب کسی ملک پر کسی جانب سے جنگ مسلط کر دی جائے۔ قوموں کی زندگی میں یہ انتہاٸی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگیں پاکستان کی سلامتی اور بقا کی جنگیں تھیں۔ ان دونوں جنگوں میں پاکستان کی مالی، فوجی، سیاسی، اخلاقی، طبی اور تیل کی ترسیل کے حوالے سے مدد کا سب سے بڑا ذریعہ ایران ہی تھا۔

ایران کی لاجسٹک سپورٹ کی وجہ سے پاکستان اس قابل ہوا کہ اس نے انڈیا کی جارحیت کا مٶثر جواب دیا۔ ان جنگوں میں پاکستانی فضایہ کے طیارے اپنے تحفظ کے لیے ایرانی سرزمین استعمال کیا کرتے تھے۔ 1965ء کی جنگ میں اخباری رپورٹس کے مطابق تہران شہر میں جنگ کے پاکستانی زخمیوں کو خون کے عطیات دینے والوں کی قطاریں لگ گٸی تھیں۔ تعاون کا یہ سلسلہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بھی جاری رہا۔ راجیو گاندھی کے دور میں ایک دفعہ پاکستان اور ہندوستان بالکل جنگ کے دھانے پر پہنچ چکے تھے تو اس وقت امام خمینی کے اس بیان نے ہندوستان کو مخمصے میں ڈال دیا تھا کہ ”کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ ایران پر حملہ تصور کیا جائے گا۔“

اہل ایران کی پاکستان سے جذباتی وابستگی کا ایک مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا، جب پاکستان نے ہندوستان کے مقابلے میں کئی ایٹمی دھماکے کیے۔ پاکستان کے اس جرأت مندانہ اقدام کی خبر جب تہران میں نماز جمعہ کے شرکاء تک پہنچی تو تہران یونیورسٹی کا میدان نعرہء تکبیر سے گونج اٹھا۔ اس پرافتخار موقع پر وہ واحد ملک جس کا وزیر خارجہ اہل پاکستان کی عوام کو مبارک باد دینے پاکستان پہنچا، وہ ایران کا وزیر خارجہ تھا۔ ایران پاکستان سے اپنے تعلقات کو اس حد تک لے جانا چاہتا تھا کہ ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی جب پاکستان آئے تو انہوں نے پاکستان اور ایران کے مابین دفاعی معاہدے کی تجویز پیش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1113109
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش